Saturday, 28 February 2015

مذہب اور سائینس کا ٹکراو: عیسائیت (حصہ اول



مذہب اور سائینس کا ٹکراو: عیسائیت (حصہ اول



 امام دین؛


جب بھی کسی مذہبی شخصیت کو سننے کا موقع ملتا ہے ان صاحب کے منہ سے یہ پھلجڑی ضرور نکلتی ہے کہ ہمارے مسائل یہودو نصاریٰ کی سازشوں کا نتیجہ ہیں۔ ایک سرکاری سکول کے طالب علم کی حثیت سے بچپن سے یہی سیکھا کہ دنیا کا مقصد اللہ کے نظام کے مطابق زندگی گزارنا ہے اور کفر کے حامی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہمارا پیارا ملک اسلام کا قلعہ ہے اور دیگر غیر اسلامی ممالک مثلاً انڈیا، امریکہ، برطانیہ، روس اور اسرائیل برائی کی جڑ ہیں۔ چونکہ ہم اللہ کے دین پر کاربند ہیں اس لیے یہود و ہنود اور انصاری ہم سے جلتے اور بلا وجہ کا بیر رکھتے ہیں اسی لیے ہم ہر طرح کی سازشیں کر کے ہم کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ  مطالعے اور بال کی کھال اتارنے کے شوق نے آج ایک اعتدال پسند انسان بنا دیا ہے۔

اب معاشرے میں  سادہ لوح لوگوں کو پکا مسلمان بنانے کے لیے جھوٹ کا سہارہ لینا چنداں بُرا نہیں سمجھا جاتا اور بڑے دھڑلے اور ہٹ دھرمی سے رسول اللہ ﷺ کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جاتی ہیں کہ اگر انسان ان کو سچ سمجھے تو دین کی بدنامی تو ایک طرف خدانخواستہ نبیؐ کی ذات پر حرف آتا ہے۔

آج کل اسلامی نظریاتی کونسل کا فتویٰ زیر بحث ہے جس میں اس کونسل کے ملا حضرات نے چار گواہوں کی پرانی مالا جپتے  ہوئے ڈی این اے کو زنا کے کیس میں بطور شہادت ماننے سے انکار کر دیا ہے۔  یہ رویہ کوئی نیا نہیں اور ناہی اچھنبے کی بات ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسی بہت سی موشگافیوں سے بھری پڑی ہے۔ اسی ذہنی سطح کے ملاؤں نے ایسے بہت سے فتوے دیے جن پر یہ آج خود بھی عمل نہیں کر رہے۔  پر یہ عمل صرف اسلام میں نہیں پایا جاتا، تقریباً ہر اس مذہب میں جس میں ایک خاص طبقہ مذہبی ٹھیکیدار بنا ہوا ہے یہ طرزِعمل پایا جاتا ہے۔

سقراط کا ذکر تاریخ میں ایسی ہی شخصیت کے طور پر ہوتا ہے جس کو اس کے نظریات کی بنا پر زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ ارسطو پہلا بندا تھا جس نے  چند چھڑیوں اور سورج سے ان کے بننے والے سائے کی بنا پر زمین کے گول ہونے کا نظریہ پیش کیا ، اس کا قطر ماپا اور اپنی جگ ہنسائی کا سبب بنا۔

عیسائیت میں کلیسا کلی اختیارات کا حامل تھا اور انسانی زندگی کے ہر پہلو کے لیے اس میں تعلیمات موجود تھیں۔ ان سے انحراف کو عیسائیت سے انحراف سمجھا جاتا تھا اور اس انحراف کا انجام گلیلیو جیسے عقل پسندوں کو موت کی سزا کی شکل میں دیکھنا پڑا۔ لیکن عقل پسندوں نے کلیسا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ یہ گھٹنے ایک دو دن میں نہیں بلکہ صدیوں کی محنت کا نتیجہ تھا۔ کلیسا کی مذہبی تعلیمات پر پے در پے چرکے لگائے گئے۔

کلیسا نے ایسی ہر قسم کی تعلیم پر پابندی لگائی ہوئی تھی جو مذہبی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ یہ بات کچھ سنی سنائی سی لگ رہی ہے۔ ملا بھی یہی کہتے ہیں کہ مذہب کے علاوہ تمام علوم شیطانی ہیں۔ علم عربی میں صرف مذہبی تعلیم کا نام ہے۔ مسلم علما کے نزدیک  “علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے”  کی حدیث ایک ضعیف حدیث ہے کیونکہ اس میں دنیاوی علوم کی بات ہو رہی ہے، اب بھلا چین سے کونسی دینی تعلیم ملے گی۔

عیسائیت کی تعلیمات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ دنیا چھ ہزار سال پرانی ہے لیکن وائی کلف نامی ماہر ارضیات نے فوسلز کے مطالعے سے یہ ثابت کیا کہ دنیا کئی کروڑ سال پرانی ہے۔ اس گناہ عظیم کی پاداش میں قبر سے اسکی ہڈیاں نکال کر سمندر برد کر دی گئی۔

جوہانس کیپلر ایک ماہر ریاضی دان تھا جس نے سیاروں اور ستاروں کی چال کا ستر ہزار سے زائد بار حساب کتاب  لگایا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ زمین اس کائینات کا مرکز نہیں بلکہ سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسی بات کو گلیلو نے ٹیلی سکوپ سے چاند اور دیگر اجرام فلکی کو دیکھ کر اپنی کتاب میں تحریر کیا  کہ زمین گول ہے اور زیرِ عتاب ٹھہرا۔ کیونکہ کلیسائی دلائل کے مطابق یہ کیسے ممکن ہے کہ پودے نیچے کو بڑھیں، بارش کا پانی اوپر سے نیچے کی بجائے نیچے سے اوپر کو برسے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر نیچے بھی دنیا ہے تو عیسیٰؑ اس دنیا میں دوسری دفعہ نیچے بھی آتے اور اُدھر بھی مصلوب ہو کر انسانیت کے گناہ معاف کرواتے۔

کلیسا کا کردار گلیلیو کے کیس میں اس لیے بھی شرمناک تھا کیونکہ اسے ڈر  تھا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ کیسا خدا ہے جسے اپنی بنائی ہوئی کائنات کا بھی پتا نہیں ہے۔ وہ ان قصوں کو بھی سچ سمجھتے تھے جن میں جنگ گیان میں جوشوا کی جنگی حکمت عملی سے لیکر حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کا تذکرہ تھا۔

اسی طرح کلیسائی تعلیمات کے مطابق بیماریاں مثلاً چیچک اور ہیضہ  بادلوں میں چھپے عفریتوں اور جنات کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ان کا روحانی علاج بھی ضروری ہے۔ ایسے کلیسا کی آمدن بہت اعلیٰ ہوتی تھی جو روحانی علاج کی جھاڑ پھونک بھی کرتا تھا۔ الیگزینڈر فلیمنگ نے چیچک کی ویکسین کا ٹیکہ بنایا تو کلیسا کی آمدن پر براہ راست حملہ ہوا۔ کلیسا کے بقول “چیچک لوگوں کے گناہوں کی پاداش میں خدائی فیصلہ ہے”۔ فلیمنگ کو پناہ دینے والے کے گھر پر جلتے لوہے کا گولا پھینکا گیا اور چرچ سے تواتر سے اعلانات ہوئے جس میں لوگوں کو چیچک کا ٹیکہ نہ لگوانے کی ترغیب دی گئی۔ آج کی دنیا فلیمنگ کی حد درجے مشکور ہے اسکی اس دریافت نے سائینس کے وہ دریچے کھولے کہ آج چیچک اس دنیا سے ناپید ہو چکی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بہت سی نئی ویکسینز بن رہی ہیں۔ جدید سائینسی میڈیکل سے پہلے سو میں گیارہ بچے اکیس سال کی عمر تک پہنچتے تھے جو اب بڑھ کر ننیانوے فی صد ہو گئی ہے۔

اناٹمی کے ابتدائی دنوں میں اس شعبے کے لوگوں کو بھی کلیسا اور معاشرتی دباؤ کا سامنا رہا اور ان لوگوں کو قصائی سے تشبیہ دی گئی۔ یہ عام خیال کیا جاتا تھا کہ مردوں کی چیر پھاڑ کے بعد جب یہ مردے قیامت کو اٹھیں گے تو بہت برا عذاب آئے گا۔

کلیسائی عقائد کے مطابق گناہوں پر ڈٹے رہنا اور توبہ نہ کرنا، مذہب پر شک و شبہات کرنا اور اس پر ایمان نہ لانا، ملازموں سے برا سلوک کرنا، کلیسا کی مرمت اور آرائش میں چندا نہ دینا اور پادری کو عشر نہ دینا  جیسے گناہوں کا نتیجہ آسمانی بجلی کے گرنے کا سبب بنتا تھا۔ بنجمن فرینکمن نے بجلی کی چھتری ایجاد کی تو کلیسا حسب روایت سینہ ٹھوک کر اس کی مخالفت میں آگیا۔ کہا گیا کہ زلزلے اس چھتری کے استعمال کی وجہ سے آرہے ہیں۔ اگر ایک عذاب سے بچوگے تو دوسرا آن گھیرے گا۔ جرمنی میں 1750ء سے 1785ء تک چار سو گرجاؤں پر بجلی گری اور ایک سو بیس گھنٹی بجانے والے لقمہ اجل بن گئے جبکہ برائی کے اڈے اور قحبہ خانے محفوظ رہے کیونکہ وہاں برقی چھتری کا استعمال ہو رہا تھا۔ چاروناچار کلیسا کو اس کی بھی اجازت دینا پڑی اور شرمندگی کا منہ الگ سے دیکھنا پڑا۔

اہل کلیسا کے نزدیک  آسمان پر موجود تارے چراغ ہیں جو اندھیروں میں راستہ دکھاتے ہیں  اور شہاب ثاقب آگ کے گولے ہیں جو رب کی تلوار ہیں اور شیطانوں پر برستے ہیں۔ ان نظریات کے خلاف بنیاد گلیلو نے رکھی لیکن عروج پر نیوٹن نے پہنچایا۔ نیوٹن نے دمدار ستاروں اور شہاب ثاقب  کو اجرام فلکی قرار دیا اور ایک  کا حساب لگا کر بتایا کہ یہ ستر سال بعد دوبارہ  فلاں جگہ پر نظر آئے گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ واقعی ستر سال بعد وہ دمدار ستارہ وہیں نظر آیا اور اس پشین گوئی میں چند منٹوں کا بھی فرق نہ پڑا حالانکہ  نیوٹن کو مرے ہوئے بھی عرصہ دراز ہو چکا تھا۔ نیوٹن کو اس لحاظ سے بھی خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے جس نے دنیا کو بتایا کہ تمام کائنات طے شدہ اصولوں پر چل رہی ہے اور انسان ان اصولوں کو سمجھ کر اپنے فائدے میں لاسکتا ہے۔ نیوٹن کو عقل پسندوں کا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

1859ء میں ڈارون کی کتاب “پرجاتیوں کا آغاز” چھپی  جس نے مذہب کے نیم مردہ ڈھانچے سے رہی سہی جان بھی نکال دی۔ آدم و حوا کی کہانی اور دنیا کی عمر بارے میں تمام مذہبی عقائد کا حشر نشر کر دیا۔ مذہبی تعلیمات کے مطابق خدا نے انسان کو موجودہ شکل میں بنا کر زمین پر اتارا لیکن آج کے انتھرا پالوجسٹ اس کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے  بتاتے ہیں کہ انسان کا جنیاتی ارتقا  تب ہوا جب چمپنزی کے دو کروموسوم  آپس میں ملکر ایک ہو گئے اور یہ تبدیلی موجودہ  انسان بنانے کی پہلی سیڑھی بنی۔ آج بھی انسان کا کروموسوم نمبر دو اس بات کی سچائی کی گواہی دے رہا ہے جس میں ایک کی بجائے دو سینٹرومیرز ہیں۔ انسان اپنی موجودہ شکل میں بیس ملین سال کے ارتقا کے نتیجے میں پہنچا ہے۔ اس سے ملتے جلتے اور بھی بہت سے انسان بنے لیکن وہ بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت نہ رکھ سکے اور ناپید ہو گئے۔ ایشیا میں انسان کی ہومو ایریکٹس  پرجاتی جبکہ یورپ میں ہومو نتھیڈرال  بھی موجودہ دور کے انسانوں کے ساتھ لمبے عرصے تک زندگی کی جدوجہد میں شریک رہی۔ ہومو ایرکٹس ایک آتش فشاں کے پھٹنے سے خواراک اور پانی کی کمیابی سے متاثر ہو کر ناپید ہوئے جبکہ ہومو نتھیڈرال اپنے لمبے چوڑے وجود کی بنا پربار بار تیزی سے بدلتے موسموں میں خوراک کی کمیابی کیوجہ سے ناپید ہو گئے۔

ان تمام حوالوں میں کلیسا کا کردار منفی اس لیے رہا  کیونکہ اس کی اجارہ داری اور آمدن متاثر ہوتی تھی۔ اس دور کو آج اہل مغرب اپنی تاریخ کا  سیاہ دور گردانتے ہیں۔

اس پوسٹ کا بیشتر حصہ پروفیسر پرویز امیر علی ہود بھائی کی کتاب 
مسلمان اور سائینس” کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا ہے۔