Friday, 13 May 2016

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین اور دین ابراھیمی


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین اور دین ابراھیمی
تمھید: آج اسلامک کارنر میں سٹرینجر02 کی ایک تھریڈ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کا عنوان تھا

اس تھریڈ کو دیکھ کر دماغ میں بہت ساری باتیں گھوم گئیں۔ بے شک جس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہم امت ہیں وہ اللہ کا عظیم رسول ہے۔ صرف اُس کو مبعوث کرکے بھیجنے کو ہی رب العالمین نے رحمة للعالمين (تمام کائنات کے لیے رحمت) قرار دے دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذمہ داری اُس خالق کائنات نے نذیرالعالمین (تمام کائنات کو آگاہ کرنے والے) قرار دی۔ اُس پاک اور عظیم المرتبت ہستی جس کا ذکر خود اللہ عزوجل نے بلند کیا اور جس پر ہر ساعت اور لمحے اللہ رب العزت خود درود بھیجتا ہو اُس ہستی کے والدین بھی یقیناً بہت عظیم والدین ہیں۔ یقیناً وہ اس عظیم نعمت کے لائق تھے جس سے اللہ نے اُن کو نوازا اور اُنھیں محمد اور محمود کا والدین قرار دیا۔ ہمارا سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور آپ کے والدین کریمین پر اور آپ کی آل پاک پر ہر ہر ساعت اور ہر ہر لمحہ تا ابد۔ ۔۔۔۔لیکن افسوس جن والدین کریمین سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسقدر محبت کرتے تھے کہ اُن کی یاد آنے پر ہچکیاں لے کر رونے لگتے تھے اُنھیں والدین کریمین کے بارے میں اس امت نے اختلاف کیا اور کُچھ نے اُن کو کافر مشرک سمجھا۔ انا للہ و انا الیھ راجعون۔ میری اس تھریڈ کا مقصد صرف اسی بات پر قرآن سے بحث کرنا ہے کہ قرآن کے مطابق اللہ کے رسول کے والدین دین ابراھیمی پر تھے۔ پس اگر کسی ایک متلاشی کو جواب مل جائے یا کوئی ایک نفس ہدائت پا جائے تو یہ میرے لیے ایک توشہ آخرت ہے۔


نوٹ: ممبران سے گزارش ہے کہ سنجیدگی اور متانت سے صرف متعلقہ عنوان سے ربط رکھتے ہوئے علمی انداز میں مختلف گوشوں پربحث کریں۔ اور اپنے سوالات اُٹھائیں۔ غیر منطقی یا تہذیب سے ہٹی ہوئی باتوں کی بجائے صرف لائیک یا ڈس لائیک پر گزارہ کر لیں اور موڈز سے گذارش ہے کہ مہربانی کرکے نہ تو اس تھریڈ کو بند کیا جائے اور نہ ہی اس تھریڈ کو ڈیلیٹ کیا جائے۔ شکریہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین کے بارے میں امت میں دو نظریات


پہلا نظریہ: نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین مومن اور اپنے وقت کے سب سے بہترین لوگ تھے۔ وہ دین ابراھیمی پر تھے۔ اور اسی دین پر آپ کے اعلان نبوت سے پہلے وہ وصال پا گئے۔ اللہ نے انھیں یہاں تک عزت بخشی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اعلان نبوت کیا (جناب عبداللہ علیہ السلام کے وصال کے 40 سال بعد اور جناب آمنہ سلام اللہ علیھا کے وصال کے 34 سال بعد) تو اللہ تعالٰی نے انھیں دوبارہ زندہ کیا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلی وسلم کی نبوت پر بھی شھادت دیں کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جو دین ابراھیمی کے مطابق ایک آخری رسول کے آنے کے منتظر تھے۔ دیکھیے یہ لنک

دوسرا نظریہ: کُچھ روایات کی بنیاد پر اس امت میں سے کُچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین کو کافر یا مشرک سمجھتے ہیں۔ انا للہ انا الیہ راجعون۔ دیکھیے یہ لنک

یہ بات یاد رہے کہ کُچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس مسئلہ پر توقف (خاموشی) اختیار کرتے ہیں یا دونوں نظریات کے بین بین (درمیان) چلتے ہیں۔
قرآن پاک اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین کریمین

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَوَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
سورۃ البقرہ (2) آیات 127 تا 130


اور جب ابراھیم اور اسماعیل علیھم السلام کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (اور دُعا کرتے تھے) اے ہمارے رب (اسے) ہم سے قبول کر بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار قرار دے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا فرمانبردار رکھ اور ہمیں ہمارے حج کے طریقے بتا دے اور ہماری توبہ قبول فرما بے شک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔ اور اے ہمارے رب ان میں ایک رسول بھیج جو انھیں میں سے ہو جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب اور دانائی کی تعلیم دے اور انکا تزکیہ کرے بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے اور کون ہے جو ملت ابراھیمی سے روگردانی کرے سوائے اس کے جو خود ہی احمق ہو اور ہم نے تو اُسے دنیا میں بھی بزرگی دی تھی اور بے شک وہ آخرت میں بھی صالحین میں سے ہیں۔

ممبران سے گزارش ہے کہ قرآن پاک ان آیات کو غور سے پڑھیں اور بار بار پڑھیں۔ دیکھیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

۔1: حضرت ابراھیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام نے مل کر دُعا کی جب کہ وہ خانہ کعبہ کو تعمیر کر ہے تھے

۔2: ائے اللہ ہمیں اپنا فرمانبردار (مسلمان) قرار دے۔

۔3: ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا فرمانبردار (مسلمان) رکھ۔

۔4: پھر فرمایا کہ ائے اللہ اُنھیں ( حضرت ابراھیمؑ اور اسماعیلؑ کی اولاد میں سے جس گروہ کو اللہ نے مسلمان رکھا) میں سےایک رسول کو مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔

حضرت ابراھیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام کی دُعا سے یہ واضح ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے ایک گروہ ہمیشہ اللہ کا فرمانبردار (مسلمان) رہے گا۔ اور اولاد اسماعیل کے اُسی مسلمان گروہ میں سے ایک رسول مبعوث ہوگا۔ پس قرآن تو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ابراھیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے اُسی گروہ میں سے ہیں جس کو اللہ نے اپنا فرمانبردار (مسلمان) رکھا۔ اور خود اللہ کے رسول کا فرمان بھی ہے کہ
أنا دعوةُ أبي إبراهيمَ
میں اپنے جد ابراھیمؑ کی دعا ہوں

اور اگر اس حدیث کو سامنے رکھا جائے تو مطلب بالکل واضح ہو جاتا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْمٍ جَمِيعًا ، عَنْ الْوَلِيدِ ، قَالَ ابْنُ مِهْرَانَ : حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَاالْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ شَدَّادٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ ، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ ، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ "۔
صحيح مسلم » كِتَاب الْفَضَائِلِ » بَاب فَضْلِ نَسَبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آلہ وسلم رقم الحديث: 4228


حضرت واثلہ بن اسقعؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ بے شک اللہ تعالٰی نے اولاد اسماعیل میں سے کنانہ کو چُنا اور قریش کو بنی کنانہ میں سے چنا اور بنو ھاشم کو قریش میں سے چُن لیا اور بنو ھاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا۔‘‘۔

Click here to view the original image of 916x698px.




یہ حدیث صحیح ہے اور صحیح مسلم کے علاوہ جامع ترمذی، صحیح ابن حبان، مسند احمد بن حنبل اور مستدرک علی الصحیحین میں بھی موجود ہے۔ دیکھیے یہ لنک

پس قرآن میں موجود دعائے ابرھیمیؑ سے ثابت ہوا کہ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ایک گروہ ہمیشہ اللہ کا فرمانبردار رہے گا۔ اور اُسی گروہ میں سے ایک رسول مبعوث ہوگا جو اُن پر آیات الٰھی کی تلاوت کرے گا اور اُنھیں کتاب و حکمت 
کی تعلیم دے گا اور اُن کا تزکیہ کرے گا۔

اور اللہ کے رسول کے فرمان سے یہ ثابت ہے کہ اولاد اسماعیلؑ میں سے بنو ھاشم اللہ کے منتخب شدہ ہیں اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنی ھاشم میں سے ہیں۔

پس ثابت ہو گیا کہ بنو ھاشم بالعموم اور نبی صلی اللہ علیہ و االہ وسلم کے والدین بالخصوص دین ابراھیمی پر ہی تھے۔


پس ہم قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمودات اور سُنت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ کوئی ایسی بات جو کتب حدیث میں درج ہو لیکن کُھلم کُھلا قرآن اور دوسری متفق علیہ صحیح احادیث سے ٹکراتی ہوں تو اُن کو چھوڑ دینے میں ہی سلامتی ہے۔ کیونکہ وہ انسانوں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں اور اُن میں غلطی کا امکان بہرحال موجود ہے۔ تمام برادران کو دعوت ہے کہ وہ قرآن پاک کی پیش کردہ واضح آیات پر غور کریں اور پیش کردہ صحیح حدیث کو بھی مدنظر رکھیں۔ اور کوئی بھی ممبر میرے مؤقف کے حق میں یا مخالف بات کرنا چاہے تو دلیل سے بات کرئے مجھے خوشی ہو گی۔ 
گزارش: میری تمام ممبران سے گزارش ہے کہ مہربانی فرما کر بحث کو صرف متعلقہ عنوان تک ہی محدود رکھیں۔ اور کسی بھی گروہ پر دل آزار کرنے والے کمنٹ دینے سے پرھیز کریں۔ میں نے یہ تھریڈ صرف اس نیت سے بنائی ہے کہ شائد کسی متلاشی کے دل میں میری بات اثر کرے اور اُسے اپنے سوالوں کا جواب مل جائے۔ آخرت کا دن قریب ہے اور ہر کوئی اپنے اعمال کا اللہ رب العزت کے آگے جواب دہ ہے۔ میں اور آپ کسی پر بھی داروغہ نہیں ہیں۔ آخر میں دوبارہ گزارش ہے کہ غیر سنجیدہ اور دل آزاری پر مبنی کمنٹ سے پرھیز کریں تاکہ تھریڈ کا اصل مقصد شور شرابے کے بیچ میں ہی گم نہ ہو جائے۔۔۔ شکریہ
 

یاد رکھنے کی باتیں

حضرت یعقوب علیہ السلام کا عبرانی میں نام اسرائیل تھا۔ انھیں کی اولاد آگے چل کر بنی اسرائیل کہلائی تھی۔ حضرت یعقوبؑ حضرت اسحاقؑ کے فرزند تھے جو حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بیٹے تھے۔

حضرت اسماعیلؑ اور ان کی والدہ کو حضرت ابراھیمؑ نے مکہ میں آباد کیا تھا جبکہ حضرت اسحاقؑ اور اُن کی اولاد بیت المقدس مصر اور دوسرے علاقوں میں پھیلی۔

حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی علیہما السلام کو صرف بنی اسرائیل (اولادِ یعقوب) کی طرف مبعوث کیا گیا تھا۔ باقی جگہ کے لوگ جو بنی اسرائیل سے نہ تھے وہ اُن کی شریعت کے مکلف نہ تھے۔ جیسے مکہ میں جو اولاد اسماعیلؑ رہتی تھی وہ شریعت ابراھیمی پر تھی اور اُن پر حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰیؑ کی شریعت پر عمل کرنا لازم نہیں تھا۔ کیونکہ وہ بنو اسرائیل میں سے نہ تھے جبکہ حضرت عیسٰیؑ اور حضرت موسٰی علیھما السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔


قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَرَسُولاً إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
سورۃ آلعمران (۳) آیات 47 تا 49


۔(مریم علیہا السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا درآنحالیکہ مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا، ارشاد ہوا: اسی طرح اﷲ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، جب کسی کام (کے کرنے) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اس سے فقط اتنا فرماتا ہے کہ ’ہو جا‘ وہ ہو جاتا ہے اور اﷲ اسے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل (سب کچھ) سکھائے گا اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا (ان سے کہے گا) کہ بیشک میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پُتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اﷲ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے، اور میں مادرزاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفایاب کرتا ہوں اور میں اﷲ کے حکم سے مُردے کو زندہ کر دیتا ہوں، اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بیشک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو
وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ 
سورۃ البقرہ (2) آیت 135
اور (اہلِ کتاب) کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی ہو جاؤ ہدایت پا جاؤ گے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما دیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو (اس) ابراہیم (علیہ السلام) کا دین اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہر باطل سے جدا صرف اللہ کی طرف متوجہ تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے


أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَـقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطَ كَانُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللّهُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
سورۃ البقرہ (2) آیت 140
۔(اے اہلِ کتاب!) کیا تم یہ کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کے بیٹے یہودی یا نصرانی تھے؟؟، فرما دیں: کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اس گواہی کو چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے (کتاب میں موجود) ہے، اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں


والدہ محترمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت آمنہ سلام اللہ علیھا کا روضہ اور قبر

حضرت آمنہ سلام اللہ علیھا کا روضہ اور قبر انہدام سے پہلے













والد محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عبداللہ علیہ السلام کا روضہ 




اللهم صل على محمد و آل محمد كما صليت على إبراهيم و آل إبراهيم إنك حميد مجيد