Sunday, 30 November 2014

وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَـٰلِحًا فَإِنَّهُۥ يَتُوبُ إِلَى ٱللَّهِ مَتَابًا

وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَـٰلِحًا فَإِنَّهُۥ يَتُوبُ إِلَى ٱللَّهِ مَتَابًا

جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے

نام :
پانچویں رکوع کی پہلی آیت اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْ ضِ سے ماخوذ ہے۔ 

زمانہ نزول :
یہ امر متفق علیہ ہے کہ یہ سورت غزوہ بنی الْمُصْطَلِق کے بعد نازل ہوئی ہے۔ خود قرآن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نزول واقعہ اِفْک کے سلسلے میں ہوا ہے (جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ دوسرے اور تیسرے رکوع میں آیا ہے ) اور وہ تمام معتبر روایات کی رو سے غزوہ بنی المطلق کے سفر میں پیش آیا تھا۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہے کہ آیا یہ غزوہ 5 ہجری میں غزوہ اَحزاب سے پہلے ہوا تھا یا 6 میں غزوہ احزاب کے بعد۔ اصل واقعہ کیا ہے ، اس کی تحقیق اس لیے ضروری ہے کہ پردے کے احکام قرآن مجید کی دو ہی سورتوں میں آئے ہیں ، ایک یہ سورت، دوسری سورہ احزاب جس کا نزول بالاتفاق غزوہ احزاب کے موقع پر ہوا ہے۔ اب اگر غزوہ احزاب پہلے ہو تو اس کے معنی یہ ہی کہ پردے کے احکام کی ابتدا ان ہدایات سے ہوئی جو سورہ احزاب میں وارد ہوئی ہیں ، اور تکمیل ان احکام سے ہوئی جو اس سورت میں آئے ہیں۔ اور اگر غزوہ بنی المصطلق پہلے ہو تو احکام کی ترتیب الٹ جاتی ہے اور آغاز سورہ نور سے مان کر تکمیل سورہ احزاب والے احکام پر ماننی پڑتی ہے۔ اس طرح اس حکمت تشریع کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے جو احکام حجاب میں پائی جاتی ہے۔ اسی غرض کے لیے ہم آگے بڑھنے سے پہلے زمانہ نزول کی تحقیق کر لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ 

ابن سعد کا بیان ہے کہ غزوہ بنی المصطلق شعبان 5 ہجری میں پیش آیا اور پھر ذی القعدہ 5 ھ میں غزوہ احزاب (یا غزوہ خندق ) واقع ہوا۔ اس کی تائید میں سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ واقعہ افک کے سلسلے میں حضرت عائشہؓ سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ کے جھگڑے کا ذکر آتا ہے ، اور تمام معتبر روایات کی رو سے حضرت سعد بن معاذ کا انتقال غزوہ بن قریظہ میں ہوا تھا جس کا زمانہ واقع غزوہ احزاب کے متصلاً بعد ہے ، لہٰذا 6 ھ میں ان کے موجود ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ 

دوسری طرف محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ غزوہ احزاب شوال 5 ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ بنی المصطلق شعبان 6 ھ کا۔ اس کی تائید وہ کثیر التعداد معتبر روایات کرتی ہیں جواس سلسلہ میں حضرت عائشہؓ اور دوسرے لوگوں سے مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ افک سے پہلے احکام حجاب نازل ہو چکے تھے ، اور وہ سورہ احزاب میں پائے جاتے ہیں۔ ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت زینبؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح ہو چکا تھا، اور وہ غزوہ احزاب کے بعد ذی القعدہ 5 ھ کا واقعہ ہے اور سورہ احزاب میں اس کا بھی ذکر آتا ہے۔ علاوہ بریں ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زینب کی بہن حمْنَہ بنت جحش نے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے میں محض اس وجہ سے حصہ لیا تھا کہ حضرت عائشہؓ ان کی بہن کی سوکن تھیں ، اور ظاہر ہے کہ بہن کی سوکن کے خلاف اس طرح کے جذبات پیدا ہونے کے لیے سوکناپے کا رشتہ شروع ہونے کے بعد کچھ نہ کچھ مدت درکار ہوتی ہے۔ یہ سب شہادتیں ابن اسحاق کی روایت کو مضبوط کر دیتی ہیں۔ 

اس روایت کو قبول کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہوتی ہے کہ واقعہ افک کے زمانے میں حضرت سعد بن معاذ کی موجودگی کا ذکر آیا ہے۔ مگر اس مشکل کو جو چیز رفع کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اس واقعہ کے متعلق حضرت عائشہؓ سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد بن معاذ کا ذکر ہے اور بعض میں ان کے بجائے حضرت اُسَید بن حُضَیر کا۔ اور یہ دوسری روایت ان دوسرے واقعات کے ساتھ پوری طرح مطابق ہو جاتی ہے جو اس سلسلے میں خود حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ہیں۔ ورنہ محض سعد بن معاذ کے زمانہ حیات سے مطابق کرنے کی خاطر اگر غزوہ بنی المصطلق اور قصہ افک کو غزوہ احزاب و قریظہ سے پہلے کے واقعات مان لیا جائے تو اس پیچیدگی کا کوئی حل نہیں ملتا کہ پھر آیت حجاب کا نزول اور نکاح زینبؓ کا واقعہ اس سے بھی پہلے پیش آنا چاہیے ، حالانکہ قرآن اور کثیر التعداد روایات صحیحہ ، دونوں اس پر شاہد ہیں کہ نکاح زینبؓ اور حکم حجاب احزاب و قریْظَہ کے بعد کے واقعات ہیں۔ اسی بنا پر ابن حزم اور ابن قیم اور بعض دوسرے محققین نے محمد بن اسحٰق کی روایت ہی کو صحیح قرار دیا ہے ، اور ہم بھی اس کی صحیح سمجھتے ہیں۔

تاریخی پس منظر :
اب یہ تحقیق ہو جانے کے بعد کہ سورہ نور 6 ہجری کے نصف آخر میں سورہ احزاب کے کئی مہےجا بعد نازل ہوئی ہے ، ہمیں ان حالات پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے جن میں اس کا نزول ہوا۔ 

جنگ بدر کی فتح سے عرب میں تحریک اسلامی کا جو عروج شروع ہوا تھا وہ غزوہ خندق تک پہنچتے پہنچتے اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ مشرکین، یہود، منافقین اور متربصین ، سب ہی یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اس نو خیز طاقت کو محض ہتھیاروں اور فوجوں کے بل پر شکست نہیں دی جا سکتی۔ جنگ خندق میں ہ لوگ متحد ہو کر 10 ہزار فوج کے ساتھ مدینے پر چڑھ آئے تھے ، مگر ایک مہینے تک سر مارنے کے بعد آخر کار ناکام ہو کر چلے گئے اور ان کے جاتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے علی الاعلان فرما دیا، لن تغزوکم قریش بعد عامکم ھٰزا ، ولکنکم تغزو نَھم (ابن ہشام، جلد 3 ، 266)، ’’ اس سال بعد اب قریش تم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ تم ان پر چڑھائی کرو گے ‘‘۔ 

یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ مخالف اسلام طاقتوں کی قوت اقدام ختم ہو چکی ہے ، اب اسلام بچاؤ کی نہیں بلکہ اقدام کی لڑائی لٹے گا اور کفر کو اقدام کے بجائے بچاؤ کی لڑائی لڑنی پڑے گی۔ یہ حالات کا بالکل صحیح جائزہ تھا جسے دوسرا فریق بھی اچھی طرح محسوس کر رہا تھا۔ 

اسلام کے اس روز افزوں عروج کی اصل وجہ مسلمانوں کی تعداد نہ تھی۔ بدر سے خندق تک ہر لڑائی میں کفار ان سے کئی گئی زیادہ قوت لے کر آئے تھے ، اور مردم شماری کے لحاظ ے بھی مسلمان اس وقت تک عرب میں بمشکل 1/10 فی صدی تھے۔ اس عروج کی وجہ مسلمانوں کے اسلحہ کی بر تری بھی نہ تھی۔ ہر طرح کے سازو سامان میں کفار ہی کا پلہ بھاری تھا۔ معاشی طاقت اور اثر و رسوخ کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کا ان سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ان کے پاس تمام عرب کے معاشی وسائل تھے ، اور مسلمان بھوکوں مر رہے تھے۔ ان کی پشت پر تمام عرب کے مشرک اور اہل کتاب قبائل تھے ، اور مسلمان ایک نئے دین کی دعوت دے کر قدیم نظام کے سارے حامیوں کی ہمدردیاں کھو چکے تھے۔ ان حالات میں جو چیز مسلمانوں کو برابر آگے بڑھائے لیے جا رہی تھی، وہ در اصل مسلمانوں کی اخلاقی بر تری تھی جسے تمام دشمنان اسلام خود بھی محسوس کر رہے تھے۔ ایک طرف وہ دیکھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کےسم داغ سیرتیں ہیں جن کی طہارت و پاکیزگی اور مضبوطی دلوں کو مسخر کرتی چلی جا رہی ہے۔ اور دوسری طرف انہیں صاف نظر آ رہا تھا کہ انفرادی و اجتماعی اخلاق کی طہارت نے مسلمانوں کے اندر کمال درجے کا اتارد اور نظم و ضبط بھی پیدا کر دیا ہے جس کے سامنے مشرکین اور یہود کا ڈھیلا نظام جماعت امن اور جنگ دونوں حالتوں میں شکست کھاتا چلا جاتا ہے۔ 

کمینہ خصلت لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ جب وہ دوسرے کی خوبیاں اور اپنی کمزوریاں صریح طور پر دیکھ لیتے ہیں ، اور یہ بھی جان لیتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اسے بڑھا رہی ہیں اور ان کی اپنی کمزوریاں انہیں گرا رہی ہیں ، تو انہیں یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریاں دور کریں اور اس کی خوبیاں اخذ کریں ، بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے اس کے اندر بھی اپنے ہی جیسی برائیاں پیدا کر دیں ، بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے اس کے اندر بھی اپنے ہی جیسی برائیاں پیدا کر دیں ، اور یہ نہ ہو سکے تو کم از کم اس کے اوپر خوب گندگی اچھالیں تاکہ دنیا کو اس کی خوبیاں بے داغ نظر نہ آئیں۔ یہی ذہنیت تھی جس نے اس مرحلے پر دشمانان اسلام کی سرگرمیوں کا رخ جنگی کار روائیوں سے ہٹا کر رذیلانہ حملوں اور داخلہ فتنہ انگیزیوں کی طرف پھیر دیا۔ اور چونکہ یہ خدمت باہر کے دشمنوں کی بہ نسبت خود مسلمانوں کے اندر کے منافقین زیادہ اچھی طرح انجام دے سکتے تھے ، اس لیے بلارادہ یا بلا ارادہ طریق کار یہ قرار پایا کہ مدینہ کے منافقین اندر سے فتنے اٹھائیں اور یہود و مشرکین باہر سے ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔
 
اس نئی تدبیر کا پہلا ظہور ذی القعدہ 5 ھ میں ہوا جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عرب سے تَبْنِیَت (دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانا اور خاندان میں اسے بالکل صُلبی بیٹے کی حیثیت دے دینا۔ ) کی جاہلانہ رسم کا خاتمہ کرنے کے لیے خود اپنے متبنیٰ(زیدؓ بن حارثہ) کی مطَلَّقہ بیوی (زینبؓ بنت حجش) سے نکاح کیا۔ اس موقع پر مدینے کے منافقین پروپیگنڈا کا ایک طوفان عظیم لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر سے یہود و مشرکین نے بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر افترا پردازیاں شروع کر دیں۔ انہوں نے عجیب عجیب قصے گھڑ گھڑ کر پھیلا دیے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کس طرح اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی کو دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے ، اور کس طرح بیٹے کو ان کی عشق کا علم ہوا اور وہ طالق دے کر بیوی سے دست بردار ہو گیا، اور پھر کس طرح انہوں نے خود اپنی بہو سے بیاہ کر لیا۔ یہ قصے اس کثرت سے پھیلائے گئے کہ مسلمان تک ان کے اثرات سے نہ بچ سکے۔ چنانچہ محدثین اور مفسرین کے ایک گروہ نے حضرت زینبؓ اور زید کے متعلق جو روایتیں نقل کی ہیں ان میں آج تک ان من گھڑت قصوں کے اجزا پائے جاتے ہیں اور مستشرقین مغرب ان کو خوب نمک مرچ لگا کر اپنی کتابوں میں پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ حضرت زینبؓ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حقیقی پھوپھی (اُمَیمہ بنت عبدالمطلب) کی صاحبزادی تھیں بچپن سے جوانی تک ان کی ساری عمر حضورؐ کی آنکھوں کے سامنے گزری تھی، ان کو اتفاقاً ایک روز دیکھ لینے اور معاذ اللہ ان پر عاشق ہو جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر اس واقعہ سے ایک ہی سال پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ان کو مجبور کر کے حضرت زید سے ان کی شادی ی تھی۔ ان کے بھائی عبداللہ بن حجش اس شادی سے ناراض تھے۔ خود حضرت زینبؓ اس پر راضی نہ تھیں ، کیونکہ ایک آزاد کردہ غلام کی بیوی بننا قریش کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی طبعاً قبول نہ کر سکتی تھی۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف اس لیے کہ مسلمانوں میں معاشرتی مساوات قائم کرنے کی ابتدا خود اپنے خاندان سے کریں ، نہیں حکماً اس پر راضی کیا تھا۔ یہ ساری باتیں دوست اور دشمن سب کو معلوم تھیں ، اور یہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہ تھا کہ حضرت زینب کا احساس فخر نسبی ہی وہ اصل وجہ تھی جس کی بنا پر ان کا اور زید بن حارثہ کا نباہ نہ ہو سکا اور آخر کار طلاق تک نوبت پہنچی۔ مگر اس کے باوجود بے شرم افترا پروازوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر بد ترین اخلاقی الزامات لگائے اور ان کو اس کثرت سے رواج دیا کہ آج تک انکا یہ پروپیگنڈا اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ 
اس کے بعد دوسرا حملہ غزوہ بنی الصطَلِق کے موقع پر کیا گیا ، اور یہ پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا۔
 
بنی المصطلق قبیلہ بنی خزاعہ کی ایک شاخ تھی جو ساحل بحر احمر پر جدے اور رابع کے درمیان قدید کے علاقے میں رہتی تھی۔ اس کے چشمے کا نام مریسیع تھا جس کے آس پاس اس قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ اس مناسبت سے احادیثمیں اس مہم کا نام غزوہ رُرَیسیع بھی آیا ہے۔ نقشے سے اس کی صحیح جائے وقوع معلوم ہو سکتی ہے۔ 

شعبان 6ھ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع ملی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں اور دوسرے قبائل کو بھی جمع کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ اطلاع پاتے ہی آپ ایک لشکر لے کر ان کی طرف روانہ ہو گئے تاکہ فتنے کے سر اٹھانے سے پہلے ہی اسے کچل دیا جائے۔ اس مہم میں عبد اللہ بن ابی بھی منافقوں کی ایک بڑی تعداد لے کر آپ کے ساتھ ہو گیا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے کسی جنگ میں منافقین اس کثرت سے شامل نہ ہوئے تھے۔ مریسیع کے مقام پر آنحضرت نے اچانک دشمن کو جالیا۔ اور تھوڑی سی رد و خورد کے بعد پورے قبیلے کو مال اسباب سمیت گرفتار کر لیا۔ اس مہم سے فارغ ہو کر بھی مریسیع ہی پر لشکر اسلام پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا کہ ایک روز حضرت عمرؓ کے ایک ملازم (جَہْجَاہ بن مسعود غفاری) اور قبیلہ خزرج کے ایک حلیف (سِنَان بن دَبر جُہنِی) کے درمیان پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ ایک نے انصار کو پکارا۔ دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی۔ لوگ دونوں طرف سے جمع ہو گئے اور معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ لیکن عبداللہ بن اُبی نے جو انصار قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ اس نے انصار کو یہ کہ ہ کہ ہ کر بھڑکانا شروع کیا کہ ’’ یہ مہاجرین ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ہمارے حریف بن بیٹھے ہیں۔ ہماری اور ان قریشی کنگلوں کی مثال ایسی ہے کہ کتے کو پال تاکہ تجھی کو بھنبھوڑ کھائے۔ یہ سب کچھ تمہارا اپنا کیا دھرا ہے۔ تم لوگوں نے خود ہی انہیں لا کر اپنے ہاں بسایا ہے اور ان کو اپنے مال و جائداد میں حصہ دار بنایا ہے۔ آج اگر تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں ‘‘۔ پھر اس نے قسم کھا کر کہا کہ ’’ مدینے واپس پہنچنے کے بعد جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلیل لوگوں کو نکال باہر کر دے (سورہ منافقون میں اللہ تعالیٰ نے خود اس کا یہ قول نقل فرمایا ہے ) گا ‘‘۔ اس کی ان باتوں کی اطلاع جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی تو حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو قتل کرا دینا چاہیے۔ مگر حضور نے فرمایا: فکیف یا عمر اذا تحدث الناس ان محمد ایقتل اصحابہ (عمر، دنیا کیا کہے گی کہ محمدؐ خود اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر رہا ہے )۔ پھر آپ نے فوراً ہی اس مقام سے کوچ کر حکم دے دیا اور دوسرے دن دوپہر تک کسی جگہ پڑاؤ نہ کیا ، تاکہ لوگ خوب تھک جائیں اور کسی کو بیٹھ کر چہ میگوئیاں کرنے اور سننے کی مہلت نہ ملے۔ راستے میں سید بن حضَیر نے عرض کیا ’’ یا نبی اللہ، آج آپ نے اپنے معمول کے خلاف نا وقت کوچ کا حکم دے دیا؟‘‘ آپ نے جواب دیا۔ ’’تم نے سنا نہیں کہ تمہارے صاحب نے کیا باتیں کی ہیں ’’۔ انہوں نے پوچھا ’’ کون صاحب؟‘‘ آپ نے فرمایا’’ عبد اللہ بن اُبی ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ، اس شخص سے رعایت فرمائیے ، آپ جب مدینے تشریف لائے ہیں تو ہم لوگ اس اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس کے لیے تاج تیار ہو رہا تھا۔ آپ کی آمد سے اس کا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا۔ اسی کی جلن وہ نکال رہا ہے ‘‘۔ 

یہ شوشہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اسی سفر میں اس نے ایک اور خطرناک فتنہ اٹھا دیا، اور فتنہ بھی ایسا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کمال درجہ ضبط و تحمل اور حکمت و دانائی سے کام نہ لیتے و مدینے کی نو خیز مسلم سوسائٹی میں سخت خانہ جنگی بر پا ہو جاتی۔ یہ حضرت عائشہؓ پر تہمت کا فتنہ تھا۔ اس کا واقعہ خود ان ہی کی زبان سے سنیے جس سے پوری صورت حال سامنے آ جائے گی۔ بیچ بیچ میں جو امور تشریح طلب ہوں گے انہیں ہم دوسری معتبر روایات کی مدد سے قوسین میں بڑھاتے جائیں گے تاکہ جناب صدیقہؓ کے تسلسل بیان میں خلل نہ واقعہ وہ۔ فرماتی ہیں : 
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاعدہ تھا کہ جب آپ سفر پر جانے لگتے تو قرعہ ڈال کر فیصلہ فرماتے کہ آپ کی بیویوں میں سے کون آپ کے ساتھ جائے (اس قرعہ اندازی کی نوعیت لاٹری کی سی نہ تھی۔ در اصل تمام بیویوں کے حقوق برابر کے تھے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ اب اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود کسی کو انتخاب کرتے تو دوسری بیویوں کی دل شکنی ہوتی ، اور ان میں باہم رشک و رقابت پیدا ہونے کے لیے بھی یہ ایک محرک بن جاتا۔ اس لیے آپ قرعہ اندازی سے اس کا فیصلہ فرماتے تھے۔ شریعت میں قرعہ اندازی ایسی ہی سورتوں کے لیے ہے جب کہ چند آدمیوں کا جائز حق بالکل برابر ہو، اور کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو، مگر حق کسی ایک ہی کو دیا جا سکتا ہو۔ )غزوہ نبی المصطلق کے موقع پر قرعہ میرے نام نکلا اور میں آپ کے ساتھ گئی۔ واپسی پر جب ہم مدینے کے قریب تھے ، ایک منزل پر رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑاؤ کیا ، اور بھی رات کا کچھ حصہ باقی تھا کہ کوچ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ میں اٹھ کر رفع حاجت کے لیے گئی، اور جب پلٹنے لگی تو قیام گاہ کے قریب پہنچ کر مجھے محسوس ہوا کہ میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا ہے۔ میں اسے تلاش کرنے میں لگ گئی ، اور اتنے میں قافلہ روانہ ہو گیا۔ قاعدہ یہ تھا کہ میں کوچ کے وقت اپنے ہودے میں بیٹھ جاتی تھی اور چار آدمی اسے اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے۔ ہم عورتیں اس زمانے میں غذا کی کمی کے سبب سے بہت ہلکی پھلکی تھیں۔ میرا ہودہ اٹھاتے وقت لوگوں کو یہ محسوس ہی نہ ہوا کہ میں اس میں نہیں ہوں۔ وہ بے خبری میں خالی ہودہ اونٹ پر رکھ کر روانہ ہو گئے۔ میں جن ہار لے کر پلٹی تو وہاں کوئی نہ تھا۔ آخر اپنی چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئی اور دل میں سوچ لیا کہ آگے جا کر جب یہ لوگ مجھ نہ پائیں گے تو خود ہی ڈھونڈتے ہوئے آ جائیں گے۔ اسی حالت میں مجھ کو نیند آ گئی۔ صبح کے وقت سفوان بن معلو سُلَمِی اس جگہ سے گزرے جہاں میں سو رہی تھی اور مجھے دیکھتے ہیں پہچان گئے ، کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے بارہا دیکھ چکے تھے۔ (یہ صاحب بدری صحابیوں میں سے تھے۔ ان کو صبح دیر تک سونے کے عادت [ابوداؤد اور دوسری کتب سنن میں یہ ذکر آتا ہے کہ ان کی بیوی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کی شکایت کی تھی کہ یہ کبھی صبح کی نماز وقت پر نہیں پڑھتے۔ انہوں نے عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ یہ میرا خاندانی عیب ہے ، دیر تک سوتے رہنے کی اس کمزوری کو میں کسی طرح دور نہیں کر سکتا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا جب آنکھ کھلے نماز ادا کر لیا کرو۔ بعض محدثین نے ان کے قافلے سے پیچھے رہ جانے کی وجہ بیان کی ہے۔ مگر بعض دوسرے محدثین اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اس خدمت پر مقرر کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں کوچ کرنے کی وجہ سے اگر کسی کی کوئی چیز چھوٹ گئی ہو تو صبح اسے تلاش کر کے لیتے آئیں ] تھی ، اس لیے یہ بھی لشکر گاہ میں کہیں پڑے سوتے رہ گئے تھے اور اب اٹھ کر مدینے جا رہے تھے ) مجھے دیکھ کر انہوں نے اونٹ روک لیا اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا’’اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی یہیں رہ گئیں ‘‘۔ اس آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اٹھ کر فوراً اپنے منہ پر چادر ڈال لی۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی ، لا کر اپنا اونٹ میرے پاس بٹھا دیا اور الگ ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ نکیل پکڑ کر روانہ ہو گئے۔ دوپہر کے قریب ہم نے لشکر کو جالیا جب کہ وہ ابھی ایک جگہ جا کر ٹھیرا ہی تھا اور لشکر والوں کو ابھی یہ پتہ نہ چلا تھا کہ میں پیچھے چھوٹ گئی ہوں۔ اس پر بہتان اٹھانے والوں نے بہتان اٹھا دیے اور ان میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی تھا۔ مگر میں اس سے بے خبر تھی کہ مجھ پر کیا باتیں بن رہی ہیں۔ 

(دوسری روایات میں آیا ہے کہ جس وقت صفوان کے اونٹ پر حضرت عائشہؓ لشکر گاہ میں پہنچیں اور معلوم ہوا کہ آپ اس طرح پیچھے چھوٹ گئی تھیں اسی وقت عبداللہ بن ابی پکارا اٹھا کہ ’’ خدا کی قسم یہ بچ کر نہیں آئی ہے ، لو دیکھو، تمہارے نبی کی بیوی نے رات ایک اور شخص کے ساتھ گزاری اور اب وہ اسے علانیہ لیے چلا آ رہا ہے ‘‘) 

’’مدینے پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور ایک مہینے کے قریب پلنگ پر پڑی رہی۔ شہر میں اس بہتان کی خبریں اُڑ رہی تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کانوں تک بھی بات پہنچ چکی تھی، مگر مجھے کچھ پتہ نہ تھا۔ البتہ جو چیز مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ کہ رسول اللہ علیہ و سلم کی وہ توجہ میری طرف نہ تھی جو بیماری کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ آپ گھر میں آتے تو بس گھر والوں سے یہ پوچھ کر رہ جاتے :کیف تیکم(کیسی ہیں یہ؟)۔ خود مجھ سے کوئی کلام نہ کرتے۔ اس سے مجھے شبہ ہوتا کہ کوئی بات ہے ضرور۔ آخر آپ سے اجازت لے کر میں اپنی ماں کے گھر چلی گئی تاکہ وہ میری تیمار داری اچھی طرح کر سکیں۔ 

ایک روز رات کے وقت حجت کے لیے میں مدینے کے باہر گئی۔ اس وقت تک ہمارے گھروں میں یہ بیت الخلا نہ تھے اور ہم لوگ جنگل ہی جایا کرتے تھے۔ میرے ساتھ مِسْطَح بن اُثاثہ کی ماں بھی تھیں جو میرے والد کی خالہ زاد بہن تھیں۔ (دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے خاندان کی کفالت حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے ذمے لے رکھی تھی، مگر اس احسان کے باوجود مسطح بھی ان لوگوں میں شریک ہو گئے تھے جو حضرت عائشہؓ کے خلاف اس بہتان کو پھیلا رہے تھے )۔ راستے میں ان کو ٹھوکر لگی اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا غارت ہو مسطح۔ میں نے کہ اچھی ماں ہو جو بیٹے کو کوستی ہو، اور بیٹا بھی وہ جس نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا’’ بٹیا ، کیا تجھے اس کی باتوں کی کچھ خبر نہیں ؟ پھر انہوں نے سارا قصہ سنایا کہ افتا پرواز لوگ میرے متعلق کیا باتیں اڑا رہے ہیں۔ (منافقین کے سوا خود مسلمانوں میں سے جو لوگ اس فتنے میں شامل ہو گئے تھے ان میں مسطح، حسَّان بن ثابت مشہور شاعر السلام ، اور حنہہ بنت حجش ، حضرت زینبؓ کی بہن کا حصہ سب سے نمایاں تھا)۔ یہ داستان سن کر میرا خون خشک ہو گیا ، وہ حاجت بھی بھول گئی جس کے لیے آئی تھی، سیدھی گھر گئی اور رات بھر رو رو کر کاٹی‘‘۔ 

آگے چل کر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ، ’’میرے پیچھے رسول اللہ لی اللہ علیہ و سلم نے علیؓ اور اسامہؓ بن زید کو بلایا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ اسامہ نے میرے حق میں کلمہ خیر کہا اور عرض کیا ’’ یا رسول اللہ، بھلائی کے سوا آپ کی بیویمیں کوئی چیز ہم نے نہیں پائی۔ یہ سب کچھ کذب اور باطل ہے جو اڑایا جا رہا ہے ‘‘۔ رہے علیؓ تو انہوں نے کہا ’’ یا رسول اللہ عورتوں کی کمی نہیں ہے ، آپ اس کی جگہ دوسری بیوی کر سکتے ہیں ، اور حقیق کرنا چاہیں تو خدمت کار لونڈی کو بلا کر حالات دریافت فرمائیں ‘‘۔ چنانچہ خدمت گار کو بلایا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔ اس نے ہا ’’ اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ستھ بھیجا ہے ، میں نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی جس پر حرف رکھا جا سکے۔ بس اتنا عیب ہے کہ میں آٹا گوندھ کر کسی کام کو جاتی ہوں اور کہ ہ جاتی ہوں کہ بیوی ذرا آٹے کا خیال رکھنا ، مگر وہ سو جاتی ہیں اور بکری آ کر آٹا کھا جاتی ہے ‘‘۔ اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ میں فرمایا’’ مسلمانو ! کون ہے جو اس شخص کے حملوں سے میری عزت بچائے جس نے میرے گھر والوں پر الزامات لگا کر مجھے اذیت پہنچانے کی حد کر دی ہے۔ بخدا میں نے نہ تو اپنی بیوی ہی میں کوئی برائی دیکھی ہے ، اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق تہمت لگائی جاتی ہے۔ وہ تو کبھی میری غیر موجودگی میں میرے گھر آیا بھی نہیں ‘‘۔ اس پراسید بن حُضیر (بعض روایات میں سعد بن مُعاذ)(غالباً اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے نام لینے کے بجائے سید اوس کے الفاظ استعمال فرمائے ہوں گے کسی راوی نے اس سے مراد حضرت معاذ کو سمجھ لیا، کیونکہ اپنی زندگی میں وہی قبیلہ اوس کے سردار تھے اور تاریخ میں وہی اس حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں۔ حالانکہ در اصل اس واقعہ کے وقت ان کے چچا زاد بھائی اسید بن حضیر اوس کے سردار تھے ) نے اٹھ کر کہا ’’یا رسول اللہ ، اگر وہ ہمارے قبیلے کا آدمی ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں ، اور اگر ہمارے بھائی خزرجیوں میں سے ہے تو آپ حکم دیں ، ہم تعمیل کے لیے حاضر ہیں ‘‘۔ یہ سنتے ہی سعد بن عبادہ، رئیس خَزْرَج اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ’’جھوٹ کہتے ہو، تم ہر گز اسے نہیں مار سکتے۔ تم اس کی گردن کانے کا نام صرف اس لیے لے رہے ہو کہ وہ خزرج میں سے ہے۔ اگر وہ تمہارے قبیلے کا آدمی ہوتا تو تم کبھی یہ نہ کہتے کہ ہم اس کی گردن مار دیں (حضرت سعد بن عبادہ اگرچہ نہایت صالح اور مخلص مسلمانوں میں سے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے ، اور مدینے میں جن لوگوں کے ذریعہ سے اسلام پھیلا تھا ان میں ایک نمایاں شخص وہ بھی تھے ، لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود ان کے اندر قومی حمیت [اور عرب میں اس وقت قوم کے معنی قبیلے کے تھے ] بہت زیادہ تھی۔ اسی وجہ سے انہوں نے عبداللہ بن ابی کی پشت پناہی کی، کیونکہ وہ ان کے قبیلے کا آدمی تھا۔ اسی وجہ سے فتح مکہ کے موقع پر ان کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ’’ الیوم یوم الملحمہ، الیوم تستحل الحرمہ ’’آج کشت و خون کا دن ہے۔ آج یہاں کی حرمت حلال کی جائے گی‘‘ ، اور اس پر عتاب فرما کر حضورؐ نے ان سے لشکر کا جھنڈا واپس لے لیا۔ پھر آخر کار یہی وہ سبب تھا جس کی وجہ سے انہوں نے حضورؐ کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں یہ دعویٰ کیا کہ خلافت انصار کا حق ہے ، اور جب ان کی بات نہ چلی اور انصار و مہاجرین سب نے حضرت بوبکر کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو تنہا وہی ایک تھے جنہوں نے بیعت سے انکار کر دیا اور مرتے دم تک قریشی خلیفہ کی خلافت تسلیم نہ کی [ملاحظہ ہو الاصابہ لابن حجر، اور الاستیعاب لا بن بعدالبر، ذکر سعد بن عبادہ۔ صفحہ10۔ 11]) گے ‘‘۔ اسید بن حضیر نے جواب میں کہا ’’ تم منافق ہو اسی لیے منافقوں کی حمایت کرتے ہو‘‘۔ اس پر مسجد نبوی میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ قریب تھا کہ اَوس اور خزرج مسجد ہی میں لڑ پڑتے ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ٹھنڈا کیا اور پھر منبر سے اتر آئے ‘‘۔ 

حضرت عائشہؓ کے قصے کی باقی تفصیلات ہم اثنائے تفسیر میں اس جگہ نقل کریں گے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی برأت نازل ہوئی ہے۔ یہاں جو کچھ بتانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ عبداللہ بن ابی نے یہ شوشہ چھوڑ کر بیک وقت کئی شکار کرنے کی کوشش کی۔ ایک طرف اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق کی عزت پر حملہ کیا۔ دوسری طرف اس نے اسلامی تحریک کے بلند ترین اخلاقی وقار کو گرانے کی کو شش کی۔ تیسری طرف اس نے یہ ایک ایسی چنگاری پھینکی تھی کہ اگر اسلام اپنے پیروؤں کی کایا نہ پلٹ چکا ہوتا تو مہاجرین اور انصار، اور خود انصار کے بھی دونوں قبیلے آپس میں لڑ مرتے۔ 

موضوع اور مباحث :
یہ تھے وہ حالات جن میں پہلے حملے کے موقع پر سورہ احزاب کے آخری 6 رکوع نازل ہوئے اور دوسرے حملے کے موقع پر یہ سورہ نور اتری۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر ان دونوں سورتوں کا ترتیب وار مطالعہ کیا جائے تو وہ حکمت اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو ان کے احکام میں مضمر ہے۔ 
منافقین مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دینا چاہتے تھے جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ، بجائے اس کے کہ وہاں کے اخلاقی حملوں پر ایک غضبناک تقریر فرماتا، یا مسلمانوں کو جوابی حملے کرنے پر اکساتا، تمام تر توجہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتے پر صرف فرمائی کہ تمہارے اخلاقی محاذ میں جہاں جہاں رخنے موجود ہیں ان کو بھرو اور اس محاذ کو اور زیادہ مضبوط کر لو۔ ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ نکاح زینبؓ کے موقع پر منافقین اور کفار نے کیا طوفان اٹھایا تھا۔ اب ذرا سورہ احزاب نکال کر پڑھیے ، وہاں آپ دیکھیں گے کہ ٹھیک اسی طوفان کا زمانہ تھا جب کہ معاشرتی اصلاح کے متعلق حسب ذیل ہدایات دی گئیں : 

1 ۔ 
ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھو، بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلو، اور غیر مردوں سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہو تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ کوئی شخص بے جا توقعات قائم کرے
(آیات 32۔ 33 ) 

2 ۔ 
حضور کے گھروں میں غیر مردوں کے بلا اجازت داخل ہو جانے کو روک دیا گیا، اور ہدایت کی گئی کہ ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔
(آیت 53 )
 
3 ۔ 
غیر محرم مردوں اور محرم رشتہ داروں کے درمیان فرق قائم کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ ازواج مہرات کے صرف محرم رشتہ دار ہی آزادی کے ساتھ آپ کے گھروں میں آ جا سکتے ہیں۔
(آیت 55)

4 ۔ 
مسلمانوں کو بتایا گیا کہ نبی کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں اور ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان کے لیے ابداً حرام ہیں جس طرح اس کی حقیقی ماں ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں ہر مسلمان اپنی نیت کو بالکل پاک رکھے۔
(آیت 53۔ 54 )

5 ۔ 
مسلمانوں کو متنبہ کر دیا گیا کہ نبیؐ کو اذیت دینا دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت اور رسوا کن عذاب کا موجب ہے ، اور اسی طرح کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا اور اس پر ناحق الزام لگانا بھی سخت گناہ ہے
(آیت 57۔ 58 ) 

6 ۔
 تمام مسلمان عورتوں کو حکم دے دیا گیا کہ جب باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو چادروں سے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانک کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلا کریں
 (آیت 59)

پھر جب واقعہ اِفک سے مدینے کے معاشرے میں ایک ہلچل برپا ہوئی تو یہ سورہ نور اخلاق، معاشرت اور قانون کے ایسے احکام و ہدایات کے ساتھ نازل فرمائی گئی جن کا مقصد یہ تھ کہ اول تو مسلم معاشرے کو برائیوں کی پیدا وار اور ان کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھا جائے ، اور اگر وہ پیدا ہو ہی جائیں تو پھر ان کا پورا پورا تدارک کیا جائے۔ ان احکام و ہدایات کو ہم اسی ترتیب کے ساتھ یہاں خلاصۃً درج کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ اس سورے میں نازل ہوئے ہیں۔ تاکہ پڑھنے والے اندازہ کر سکیں کہ قرآن ٹھیک نفسیاتی موقع پر انسانی زندگی کی اصلاح و تعمیر کے لیے کس طرح قانونی، اخلاقی، اور معاشرتی تدبیر بیک وقت تجویز کرتا ہے : 

1) ۔ 
زنا، جسے معاشرتی جرم پہلے ہی قرار دیا جا چکا تھا
(سورہ نساء، آیات 15۔ 16 )، 

اب اس کو فوجداری جرم قرار دے کر اس کی سزا سو 100 کوڑے مقرر کر دی گئی۔ 

2 ) ۔ 
بد کار مردوں اور عورتوں سے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیا گیا اور ان کے ساتھ رشتہ مناکحت جوڑنے سے اہل ایمان کو منع کر دیا گیا۔ 

3 ) ۔ 
جو شخص دوسرے پر زنا کا الزام لگائے اور پھر ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کر سکے ،اس کے لیے 80 کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی۔ 

4) ۔ 
شوہر اگر بیوی پر تہمت لگائے تو اس کے لیے لِعان کا قاعدہ مقرر کیا گیا۔ 

5) ۔ 
حضرت عائشہ پر منافقین کے جھوٹے الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی کہ آنکھیں بند کر کے ہر شریف آدمی کے خلاف ہر قسم کی تہمتیں قبول نہ کر لیا کرو، اور نہ ان کو پھیلاتے پھرو۔ اس طرح کی افواہیں ا گر اڑ رہی ہوں تو انہیں دبانا اور ان کا سد باب کرنا چاہیے ، نہ یہ ایک منہ سے لے کر دوسرا منہ اسے آگے پھونکنا شروع کر دے۔ اسی سلسلے میں یہ بات ایک اصولی حقیقت کے طور پر سمجھائی گئی کہ طیب آدمی کا جوڑ طیب عورت سے ہی لگ سکتا ہے ، خبیث عورت کے اطوار سے اس کا مزاج چند روز بھی موافقت نہیں کر سکتا۔ اور ایسا ہی حال طیب عورت کا بھی ہوتا ہے کہ اس کی روح طیب مرد ہی سے موافقت کر سکتی ہے نہ کہ خبیث سے۔ اب اگر رسولؐ کو تم جانتے ہو کہ وہ ایک طیب ، بلکہ اطیب انسان ہیں تو کس طرح یہ بات تمہاری عقل میں سما گئی کہ ایک خبیث عورت ان کی محبوب ترین رفیقہ حیات بن سکتی تھی۔ جو عورت عملاً زنا تک کر گزرے اس کے عام اطوار کب ایسے ہو سکتے ہیں کہ رسولؐ جیسا پاکیزہ انسان اس کے ساتھ یوں نباہ کرے۔ پس صرف یہ بات کہ ایک کمینہ آدمی نے ایک بیہودہ الزام کسی پر لگا دیا ہے ، اسے قابل قبول کیا معنی قابل توجہ اور ممکن الوقوع سمجھ لینے کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو کہ الزام لگانے والا ہے کون اور الزام لگا کس پر رہا ہے۔ 

6) ۔ 
جو لوگ بے ہودہ خبریں اور بری افواہیں پھیلائیں اور مسلم معاشرے میں فحش اور فواحش کو رواج دینے کی کوشش کریں ، ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ہمت افزائی کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہیں۔ 

7) ۔ 
یہ قاعدہ کلیہ مقرر کیا گیا کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حسن ظن پر ہونی چاہیے۔ ہر شخص بے گناہ سمجھا جائے جب تک کہ اس کے گنہگار ہونے کا ثبوت نہ ملے۔ نہ یہکہ ہر شخص گناہ گار سمجھا جائے جب تک کہ اس کا بے گناہ ہونا ثابت نہ ہو جائے۔ 

8) ۔ 
لوگوں کو عام ہدایت کی گئی کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف نہ گھس جایا کریں بلکہ اجازت لے کر جائیں۔ 

9)
 عورتوں اور مردوں کو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا اور ایک دوسرے کو گھورنے یا جھانک تاک کرنے سے منع کر دیا گیا۔ 

10) ۔ 
عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں سر اور سینہ ڈھانک کر رکھیں۔ 

11 )
 عورتوں کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے محرم رشتہ داروں اور گھر کے خادموں کے سوا کسی کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔

12) ۔ 
ان کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ باہر نکلیں تو نہ صرف یہ کہ اپنے بناؤ سنگھار کو چھپا کر نکلیں ، بلکہ بجنے والے زیور بھی پہن کر نہ نکلیں۔ 

13 ) 
معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کا طریقہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ غیر شادی شدہ لوگوں کے نکاح کیے جائیں ، حتّیٰٰ کہ لونڈیوں ور غلاموں کو بھی بن بیاہا نہ رہنے دیا جائے۔ اس لیے کہ تجرد فحش آفریں بھی ہوتا ہے اور فحش پذیر بھی۔ مجرد لوگ اور کچھ نہیں تو بری خبریں سننے اور پھیلانے ہی میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ 

14 ) ۔ 
لونڈیوں ور غلاموں کی آزادی کے لیے مکاتَبت کی راہ نکال دی گئی اور مالکوں کے علاوہ دوسروں کو بھی حکم دیا گیا کہ مُکاتب غلاموں اور لونڈیوں کی مالی مدد کریں۔ 

15) ۔ 
لونڈیوں سے کسب کرانا ممنوع قرار دیا گیا۔ عرب میں یہ پیشہ لونڈیوں ہی سے کرانے کا رواج تھا،اس لیے اس کی ممانعت دراصل قحبہ گری کی قانونی بندش تھی۔ 

16)
 گھریلو معاشرت میں خانگی ملازموں اور نابالغ بچوں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ وہ خلوت کے اوقات میں (یعنی صبح ، دوپہر اور رات کے وقت ) گھر کے کسی مرد یا عورت کے کمرے میں اچانک نہ گھس جایا کریں۔ اولاد تک کو اجازت لے کر آنے کی عادت ڈالی جائے۔ 

17) 
۔ بوڑھی عورتوں کو یہ رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنے گھر میں سر سے اوڑھیر اتار کر رکھ دیں تو مضائقہ نہیں ، مگر حکم دیا گیا کہ تَبَرُّج (جن ٹھن کر اپنے آپ کو دکھانے ) سے بچیں۔ نیز انہیں نصیحت کی گئی ہ بڑھاپے میں بھی اگر وہ اوڑھنیاں اپنے اوپر ڈالے ہی رہیں تو بہتر ہے۔ 

18)
 اندھے ، لنگڑے ، لولے ، اور بیمار کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ کھانے کی کوئی چیز کسی کے ہاں سے بلا اجازت کھا لے تو اس کا شمار چوری اور خیانت میں نہ ہو گا۔ اس پر کوئی گرفت نہ کی جائے۔
 
19)
 ۔ قریبی عزیزوں اور بے تکلف دوستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں بلا اجازت بھی کھا سکتے ہیں ، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنے گھر میں کھا سکتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب تر کر دیا گیا ور ان کے درمیان سے بیگانگی کے پردے ہٹا دیے گئے تاکہ آپس کی محبت بڑھے اور باہمی اخلاص کے رابطے ان رخنوں کو بند کر دیں جن سے کوئی فتنہ پرواز پھوٹ ڈال سکتا ہوَ 

ان ہدایات کے ساتھ ساتھ منافقین اور مومنین اور مومنین کی وہ کھُلی کھُلی علامتیں بیان کر دی گئیں جن سے ہر مسلمان یہ جان سکے کہ معاشرے میں مخلص اہل ایمان کون لوگ ہیں اور منافق کون۔ دوسری طرف مسلمانوں کے جماعتی نظم و ضبط کو اور کس دیا گیا اور اس کے لیے چند مزید ضابطے بنا دیے گئے تاکہ وہ طاقت اور زیادہ مضبوط ہو جائے جس سے غیظ کاا کر کفار و منافقین فساد انگیزیاں کر رہے تھے۔ 

اس تمام بحث میں نمایاں چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ پوری سورہ نور اس تلخی سے خالی ہے جو شرمناک اور بیہودہ حملوں کے جواب میں پیدا ہوا کرتی ہے۔ ایک طرف ان حالات کو دیکھیے جن میں یہ سورت نازل ہوئی ہے۔ اور دوسری طرف سورت کے مضامین اور انداز کلام کو دیکھیے۔ اس قدر اشتعال انگیز صورت حال میں کیسے ٹھنڈے طریقے سے قانون سازی کی جا رہی ہے ، مصلحانہ احکام دیے جا رہے ہیں ، حکیمانہ ہدایات دی جا رہی ہیں ، اور تعلیم و نصیحت کا حق ادا کیا جا رہا ہے۔ اس سے صرف یہی سبق نہیں ملتا کہ ہم کو فتنوں کے مقابلے میں سخت سے سخت اشتعال کے مواقع پربھی کس طرح ٹنڈدے تدبّر اور عالی ظرفی اور حکمت سے کام لینا چاہیے ، بلکہ اس سے اس امر کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے ، کسی ایسی ہستی کا نازل کیا ہوا ہے جو بہت بلند مقام سے انسانی حالات اور معاملات کا مشاہدہ کر رہی ہے اور اپنی ذات میں ان حالات و معاملات سے غیر متاثر رہ کر خالص ہدایت و رہنمائی کا منصب اد کر رہی ہے۔ اگر یہ آنحضرتؐ کا اپنا کلام ہوتا تو آپ کی انتہائی بلند نظری کے باوجود اس میں اس فطری تلخی کا کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور پایا جاتا جو خود اپنی عزت و ناموس پر کمینہ حملوں کو سن کر ایک شریف آدمی کے جذبات میں لازماً پیدا ہو جایا کرتی ہے۔


Saturday, 29 November 2014

تاریخ میں مسلم امت کے اندر سامراج کے کئی سارے "داعش" مثل


تاریخ میں مسلم امت کے اندر سامراج کے کئی سارے "داعش" مثل

میں اس مضمون میں آجکل عراق میں تیار کردہ فرضی نام سے ابوبکر بغدادی جس کو اسلامی خلافت قائم کرنے کی دعوی سے سامراج نے لایا ہے جسکی مہم سردست دولت اسلامیہ عراق و شام کے نام سے مشہور کی گئی ہے،  ویسے اسکا ہدف حکومت سعودیہ، پاکستان بلکہ سارے عالم اسلام میں خلافت قائم کرنا بتایا جا رہا ہے اسکی اسکیموں میں کعبۃ اللہ کو منہدم کرنے کی بات بھی سننے میں آئی ہے ویسے روس کی کسی خبر ایجنسی کے حوالہ سے اخبارات میں اسکا ایک تعارف امریکن سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ اسنوڈن کے حوالہ سے یہ آیا ہے کہ یہ آدمی اسرائیل میں امریکا اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبوں کی تکمیل کی خاطر تیار کیا گیا ہے اسکی سرگرمیاں اسکے مخفف نام داعش سے میڈیا پر بڑے  پئمانے پر تیزی سے آ رہی ہیں۔ اس آدمی نے اتنے بڑے منصب کی دعویٰ کرنے کے بعد اس کے شایان شان کوئی منشور نہیں دیا  کہ اپنی خلافت کے حوالہ سے وہ دین اسلام کے لئے کیا کیا اصلاحات لائے گا وہ بھی کس علم کی روشنی میں لیکن اس نے تو آتے ہی نیٹو سامراج کے منشور کی خاطر کام شروع کردیا ہے۔ یہ اس لئے بھی خلافت کا عہدہ اسلامی تاریخ کا ایک مقدس نام رہا ہے اس لئے سامراج نے اس عہدہ اور لقب کو تاش کے ایک پتے کے طور پر استعمال کرنے کے لئے یورو اور ڈالر کی جنگ میں استعمال کرنا چاہا ہے۔  میں نے مضمون کے عنوان میں دعوی کیا ہے کہ اسلامی تاریخ میں مسلم امت کے اندر سامراج نے قدم قدم پر کئی  "داعش" مثل تحریکوں کے لوگ فٹ کئے ہیں یہ کوئی پہلا داعشی آدمی نہیں ہے، شروع زمانے میں جو "داعش" مثل تحریکی لوگ لائے گئے انکی اکثریت کا انداز یہ تھا کہ یہ لوگ بڑے عالم فاضل  اور دین اسلام کو جاننے اور سمجھنے والے  ہوتےتھے جس علمیت سے وہ قرآن کا رد کر کے روایات کے نام سے متبادل دین بنا سکیں، خود جناب رسول علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں بھی علم حدیث ایجاد کرنے والوں نے ایک کاغذی اور جعلی نام کا  بڑا محدث یہودی شخص مشہور کیا غالبا اسکا نام کعب احبار متعارف کرایا جسکا حقیقی وجود نہیں تھا، جو خود جناب رسول  کو بھی اس سے توریت اور انجیل کے حوالہ جات سے یہود و نصاریٰ کی تعلیم اور مسائل پوچھتے دکھایا ہے گویا کہ حدیث سازوں نے اپنا تیار کردہ یہ یہودی "داعشی" مثل ہمارے رسول کا بھی استاد بنا دیا جو جناب رسول کے زمانہ میں بھی یہودی رہتا ہے اس نے ان دنوں اسلام قبول نہیں کیا اور انکے بعد پہلے اور دوسرے خلیفہ کے زمانہ میں بھی یہودی بنا رہتا ہے امت کے یہ بڑے خلفاء  بھی اپنے رسول کی طرح اس سے دینی معلومات حاصل کرتے دکھائے گئے ہیں پھر یہ "داعشی" قسم کا آدمی تیسرے خلیفہ کے زمانہ میں اسلام قبول کرتا ہے اسکی تفاصیل کوئی بھی آدمی علم حدیث کے اسماء رجال میں پڑھ سکتا ہے۔ 

اسکے بعد امت مسلمہ کے اندر دوسرا داعشی مثل فرضی جعلی اور کاغذی آدمی یہودی النسل عبداللہ ابن سبا لایا جاتا ہے جو غالبا پہلے خلیفہ کے زمانہ میں ظاہر ہوتا ہے اور اسکی حدیثیں اس قسم کی ہیں کہ علی اللہ ہے علی آسمانوں میں رہتا ہے بادلوں کی گرج چمک علی کی آواز اور مسکراہٹ ہے (وغیرہ) اسکے بارے میں اسماء رجال والے لکھتے ہیں کہ اسکو علی نے اپنی خلافت کے زمانہ میں گرفتار کروا کر بطور سزا آگ میں ڈال کر جلا کر مروا دیا تھا۔ 

میں شاید ان پہلے دوعدد یہودی "داعشی" مثل لوگوں کے بعد والے "داعشی" لوگوں  کا ، ڈرکے مارے نام نہ لکھ سکوں البتہ یہ ضرور بتاتا ہوں کہ کئی سارے "داعشی" مثل لوگ مجوسیوں میں سے اور عیسائیوں میں سے بھی تیار کئے گئے ، بلکہ پہلا داعشی مثل آدمی حدیث سازوں نے تو ایک عیسائی بنام ورقہ بن نوفل کے فرضی نام سے ایک فرضی شخصیت بتائی ہے، جس نے ہمارے رسول کو اطلاع دی تھی کے آپ نبی بن گئے ہیں یعنی ہمارے نبی کو جبرائیل کے بتانے کے باوجود اپنے نبی بننے کا پتہ نہیں تھا،  پھر آگے ایک دور ایسا بھی آیا جو ابھی تک وہ چل بھی رہا ہے جو "داعشی" مثل لوگ سامراج کو خود مسلم امت کے اندر سے بھی ایک ڈونڈھو ہزار ملتے ہیں کے حساب سے مل رہے ہیں، جس طرح، جس طرح، جس طرح ، فلاں، فلاں، فلاں۔

جناب قارئین! میرے لئے خیر اسمیں ہے کہ تاریخ کے "داعشی" لوگوں کے آپس میں رشتے ناطے بھی ظاہر نہ کروں ویسے یہ حقیقت طئے ہے کہ اگر کوئی بھی دین اسلام کے کسی منصب کا دعویدار اپنے خیالات کا ثبوت قرآن سے نہیں دے گا تو وہ یقین کے ساتھ سامراج کا ایجنٹ ہو گا، اللہ کی جانب سے اپنے رسول کو بھی حکم دیکر پابند بنانا کہ:

فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ 
50-45

 یعنی جن لوگوں کو خوف خدا ہو انکو صرف قرآن سے دین سکھاؤ۔

 اور آپ کے لئے  یہ بھی حکم ہے کہ

وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
20-114

 یعنی کسی مسئلہ کے بتانے میں اگر جب تک علم وحی نہیں ملا ہے تو اتنے تک اپنی طرف سے حدیثیں سنانے میں جلدی نہ کر اگر آپکو جلدی ہو تو مجھے درخواست کر کہ اے میرے رب بڑھا میرے علم کو۔

 اسلئے جان لینا چاہیے کہ رسول سے بڑھکر کوئی ایسا آدمی نہیں ہوسکتا جو دین کے لئے قرآن کے علاوہ دوسرے مأخذوں سے دین سمجھائے،  یہ چیز کس سے مخفی ہے کہ امت مسلمہ کے اندر آپس میں جو قتل وغارت اور خونریزیاں ہوئی ہیں ان میں بڑا حصہ اور وافر مقدار مذہبی فرقہ جاتی اختلافات کا ہے اور قرآن کا یہ اعلان کون نہیں جانتا کہ:

أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا
4-82

 یعنی فرقہ جاتی مسائل اور اختلافی امور اللہ کے قرآن سے باہر کے علوم کی پیداوار ہیں، مطلب کہ اسلام کے نام سے جتنے بھی فرقے مارکیٹ میں موجود ہیں وہ سب کے سب علم حدیث کی پیداوار ہیں کسی بھی فرقہ کی بنیاد قرآن پر نہیں ہے اتنے تک جو مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی اپنی خود ساختہ نبوت کا دلیل  بھی علم حدیث سے ماخوذ کردہ ملا ہے، پر انے دنوں کی بات ہے جو شہر پڈعیدن میں کوئی میرے سامنے حضرت علی کا ذکر قرآن کے حوالہ سے کر رہا تھا میں نے اسے کہا کہ قرآن میں علی سمیت کسی اصحاب رسول کا نام نہیں ہے تو وہ غصہ میں لال پیلا ہو گیا کہ وہ قرآن ہی کیسا جس میں علی کا نام نہ ہو میں نے اسے ادب سے ٹھنڈے دماغ سے سمجھایا کہ ہمارے واعظین مولوی صاحبان جب قرآن پڑھکر آگے کسی کے قصے بتاتے ہیں تو لوگ بعد کے ناموں کیلئے سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ بھی اسکے پڑھے ہوئے قرآن کا ترجمہ ہے۔ صدام کو ہٹانے اور پھانسی پر چڑھانے کے بعد جو شخص ملک عراق کا صدر بنایا گیا ہے یہ یقینا اس طاقت کا منظور نظر ہے جس نے صدام کو ختم کیا تو اب اسکی حکومت میں جو ابوبکر بغدادی داعش کے تعارف سے آیا ہے اسکے خلاف موجودہ عراقی صدر کا کوئی تنازع سننے میں نہیں آ رہا  یہ بعینہ اسی طرح ہے جس طرح  انڈو نیشیا کے صدرسوئکارنو کو عالمی سامراج نے ہٹا کر اسکی جگہ داعشی مثل پٹھو صدر سوہارتو کو بٹھایا تھا جسکے دور میں ملکی انتظامات کی باگ ڈور بڑی حد تک عیسائی گرجاؤں کے پادریوں کو دی گئی تھی جسکے نتیجہ میں انڈونیشیا کی آدھی آبادی عیسائی بن گئی پھر اس عیسائی آبادی کیلئے مذہب کے بنیاد پر انڈونیشیا کو دوٹکڑے کرکے ایک حصہ مشرقی ٹیمور کے نام سے جدا عیسائی ملک بنا کر اسے اقوام متحدہ کی ممبرشپ بھی دلائی گئی سو اب جو داعش کے فوجیوں یا طالبانی رضاکاروں کے ہاتھوں میں رائفلیں اور مشین گنیں دکھا کر آگے لاشوں کے ڈھیر دکھائے جاتے ہیں یا زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگ دکھائے جاتے ہیں اور فوٹوز کے نیچے لکھا ہوتا ہے کہ یہ عیسائی اور شیعے لوگ ہیں جن کو خلافت اسلامیہ قائم کرنے کے لئے مارا جا رہا ہے تاکہ مسلم دنیا کے عیسائی اور شیعہ دشمنوں کی حمایت لی جا سکے اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ نیچے لکھی ہوئی عبارت درست ہے اگر درست بھی ہو پھر بھی میں یقین کے ساتھ دعویٰ کر رہا ہوں کہ یہ لوگ عراق کے وہ نیشنلسٹ شہری ہیں جنہوں نے صدام کے دنوں میں نیٹو افواج کے مقابلہ میں جنگ لڑی تھی اب انکو عیسائی اور شیعہ کہکر مارا جا رہا ہے جس سے دنیا والوں کو دھوکا دیا جائے کہ نیٹو نامی سامراج کبھی کا چلا گیا ہے اب تو عراق میں اسلامی خلافت قائم کرنے کیلئے یہ جنگ مسلمان لیڈر ابوبکر بغدادی لڑ رہا ہے

 تاریخ نے ہمیں بتایا ہے کہ مسلم امت کے مرکز مسجد نبوی میں کرنل لارینس عیسائی انگریز فرضی نام سے سات سال پیش امام بنا رہتا ہے تو اس ابوبکر بغدادی کا شجرہ کونسا مقدس تسلیم کیا جائیگا تاریخ کو کھنگالا جائے تو خود سعودی خاندان اور انکا شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب یہ بھی اپنے دور کے عالمی سامراج کے داعش مثل لوگ ہیں میری اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت سعودیہ کے پبلشنگ ادارہ مجمع  ملک فہد کی سرپرستی میں قرآن حکیم کے اندر لفظی اور حرفی ملاوٹ کے تین عدد نئے ماڈل والے قرآن تیار کئے گئے ہیں جن میں سے البوزی نام سے ملاوٹ والا قرآن میرے پاس  نیٹ میں محفوظ ہے کوئی بھی اپنی نیٹ کی آئی ڈی دیکر طلب کرسکتا ہے  اور محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار لاہوری اہل حدیثوں نے قرآن حکیم میں ملاوٹ حرفی اور لفظی کے سولہ عدد نئے قرآن تیار کئے ہیں جن کے لئے انکا کہنا ہے کہ یہ ہم حکومت سعودیہ کو چھاپنے کے لئے دینگے اسلام کے شروع زمانہ میں قرآنی تعلیم کا غلبہ تھا اور علم حدیث اتنا مستحکم ہو نہیں پایا تھا جو اس علم کی پیداوار فرقوں کے مؤسس کھل کر کام کرسکیں اور خود کو علانیہ آل رسول بھی کہلا سکیں! اسلئے انہوں نے تقیہ کا ہنر ایجاد کیا تھا جو آج تک انکے کتابوں میں موجود ہے یہ بات میں صرف اثنا عشری مارکہ شیعوں کی نہیں کہہ رہا میں نے تو اہل سنت کے چاروں اماموں کے لئے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں پڑھا ہے کہ اہل سنت کے چاروں امام مخلص شیعے تھے اور امام بخاری نے بھی تقیہ کو جائز لکھا ہے آج کل جماعت اسلامی اہل حدیثوں پر بڑی مہربان ہے یہ لوگ کوئی تقیہ شقیہ نہیں کر رہے جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن صاحب نے کھل کر کہا تھا کہ پاکستانی فوجیوں کے مقابلہ میں مرنے والے طالبان کو میں شہید قرار دیتا ہوں 

مجھے اہل حدیث خاندان کے ایک مہربان نے کہا کہ آج کل ہم اہل حدیث لوگ آئی ایس آئی کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں اب جو اخباروں نے لکھا ہے کہ پشاور میں طالبان کے ذریعے ابوبکر بغدادی "داعش" کے پمفلیٹ پشتو زبان میں تقسیم کئے گئے ہیں اور یہ بھی اخبارات میں آیا ہے کہ مدعی خلافت اسلامیہ ابوبکر داعش نے امریکی صحافی جو انکے پاس قید تھا اسکے آزاد کرنے کے بدلہ میں جماعت اسلامی کی ممبر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تو امریکا نے اسے آزاد نہیں کیا تو "داعش" نے قید امریکی صحافی کو قتل کر ڈالا، ابھی تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ مذکورہ انکشافات سے کچھ پہلے میں نے یہاں سندھ کے قوم پرستوں میں لیکچر کے دوران کہا کہ میں آپکو کھل کر کہہ رہا ہوں کہ پہلے میں پاکستان کا ضرور مخالف رہا ہوں لیکن اب جو دیکھ رہا ہوں کہ عراق کے بعد افغانستان اور اسکے بعد پاکستان بالخصوص سندھ میں جو کئی صوبے بنانے کی آڑ میں کل والا عالمی سامراج ہمارے سمندر کنارے خود آکر پھر براجمان ہونا چاہتا ہے تو کل ہمارے بڑوں نے ان گوروں سے آزادی کی خاطر کئی ساری جنگیں لڑی تھیں اتنی لڑائیاں ہم تو نہیں لڑ سکیں گے اگر بالفرض سامراج کے آنے کے بعد ہم نے پھر آزادی مانگی بھی تو دنیا ہم سے پوچھے گی کہ تم لوگوں کو جو گذشتہ ستر سال آزادی کے ملے تو تم نے اپنے لئے اس میں کیا کیا سو آج تم جب خود کو نہ بچا سکے اور اپنی آزادی خود بیچ کر پھر کس منہ سے دوبارہ آزادی کا نعرہ لگاتے ہو تو ہم اس دن کیا جواب دیں گے۔ سو پاکستان جیسا بھی ہے پہلے اسے بچائیں پھر ہم اپنے بندوق بردار لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ تم لوگ سیاسی نہ بنو تم لوگوں کے سیاسی بننے کے عرصہ میں ہم نہ لال قلعہ دہلی فتح کرسکے نہ ہی سیاچین کی برف پوش پہاڑیاں اپنا سکے بلکہ بنگال گنواکر نوے ہزار فوجی بھی قید کرا بیٹھے مجھ سے میرے لیکچر کے دوران یہ بھی سوالات ہوئے کہ آپ یہ نئی پالیسی جو اپنے لئے یا ہمارے لئے دے رہے ہیں تو جن حکمرانوں سے ہم کل کو پاکستان بچانے اور پاکستان کے نام سے ملی ہوئی آزادی کو بچانے کی باتیں کریں گے کیا گارنٹی ہے کہ وہ آزاد ملک کے آزاد حکمران ہیں؟ یہ حکمران طالبان کو جنم دینے والے طالبان کے مقابلہ میں فوجی کے مرنے کو شہید نہ ماننے والے منور حسن سے کوئی باز پرس نہ کر سکے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجیوں میں اغیار کے ایجنٹ ہیں سو وہ پاکستان بچانے کیلئے ہم سے کیوں بات کریں گے ہم تو داعشی طالبانی پاکستان کو ماننے والے نہیں ہیں 

اگر پاکستان کی اسٹبلشمنٹ مستقبل میں داعشی منصوبہ کے خلاف ہے جو عالمی سامراج نے جان پوپ پال کے اعلان کہ اکیسویں صدی دنیا میں عیسائیت کے غلبہ کی صدی ہوگی اسکے اس اعلان کے بعد صرف مسلمان انڈونیشیا سوڈان صومالیہ نائیجیریا عراق افغانستان مصر لیبیا میں قتل ہورہے ہیں اور مسلم ریاستیں عیسائی ممالک کے نام سے اقوام متحدہ کی ممبر شپ لے رہی ہیں تو ایسے قیامت خیز معاملوں پر پاکستان اسٹبلشمنٹ نے کونسی اسلام دوستی دکھائی ہے ہمیں تو پاکستان سرکار کی ایسے معاملات پر خاموشی اور سامراج کی مسلم کش اسکیموں پر چپ رہنے سے لگتا ہے کہ یہ سب مل کر  جان پوپ پال بینی ڈکٹ کی پیشگوئی کو کامیاب کر ا رہے ہیں یہ دنیا میں عیسائیت کو غلبہ دلانے کی خاطر ڈبل نوکری کر رہے ہیں ہمیں اگر اعتماد آجائے کہ ہماری وردی پوش اسٹبلشمنٹ گورے سامراج کے خلاف ہے اور ہم کالوں کی وفادار ہے تو ہمیں پاکستان سے کیوں اختلاف ہوگا سو ملکی اسٹبلشمنٹ کی گورے سامراج کے لئے چمچہ گیری کی وجہ سے تو ہمارے بلوچ بھائی کہہ رہے ہیں کہ ہم چمچوں کے چمچے کیوں بنیں اس  سے اچھا ہے کہ براہ راست  ہم بھی انکی طرح دیگ کے چمچے بنیں، پاکستان کے حکمرانوں کو لاہور کے شاعر حبیب جالب نے بہت کہا کہ ہم لڑیں امریکیوں کی جنگ کیوں ۔ لیکن یہ ہیں مثل بیگانہ شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ 

پاکستان بنایا ہی اسلئے گیا ہے کہ یہ پرائی لڑائیوں میں سامراج کو کندھا دینے کیلئے ہر وقت حاضر رہے اور وہ بھی اسلام کے نام پر، اب جو ملک شام کے محاذ پر یورو اور ڈالر کی جنگ لگنے والی ہے اس میں اسرائیل اور امریکہ کا پروردہ ابوبکر بغدادی خلافت اسلامیہ کے قیام کے نام کے حوالہ سے اس جنگ کو کفر اسلام کی جنگ کا نام دینے کی ابتدا کر چکا ہے۔ کل کو امریکہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مارکسزم کے معاشی نظریہ کو مسلم ممالک کے مفتیان اسلام سے کفر کی فتوائیں دلاکر سرمایہ دارانہ نظام کی فتح کرا چکا ہے اب شام کے خلاف اسکی یہ جنگ ڈالر کو بچانے کے لئے یہ بھی اسلام کے نام پر دوسری جنگ ہوگی اس میں بھی اس جنگ کو مذہب کا لبادہ اوڑھانے کے لئے داعشیوں کی ساتھی جماعت اسلامی اور پاکستانی آرمی کے پروردہ طالبان کا تعاون کہیں در پردہ اور بالواسطہ اور کہیں ظاہر اور بلاواسطہ نظر آرہا ہے۔

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا(6-66)


 یعنی اے امن عالم کے ذمہ دار مؤمنو! خود کو اور اپنے نظریاتی ساتھیوں کو (زر کے استحصال اور ذخیرہ اندوزی کی) آگ سے بچاؤ۔

 قرآن حکیم نے لفظ اہل کی ایک معنی نظریاتی ساتھی بھی بتائی ہے  ۔ (46-11)
 

سو ہمارے ملک پاکستان کے ناخدائوں نے اپنے لئے نیٹو کی رجیم کو اپنا نظریاتی سرپرست بنایا ہے پھر نیٹو والے چند ڈالروں کے عوض ان سے مسلسل ملک کی نوجوان نسل ذبح ہونے کے لئے خرید کرتے ہیں۔ ملک کے سربراہوں کو ہمارے مقامی خفیہ حکمران باہر کے دوروں پر بھیجتے ہیں کہ دنیا کے سرمایہ داروں کو منت سماجت کرکے کہیں کہ ہم بکاؤ مال ہیں ہمارے ملک کے سارے اثاثے بکاؤ مال ہیں، جو چاہو ہم اپنی چیزیں آپکے قدموں میں رکھنے کے لئے تیار ہیں، ہماری ہر چیز برائے فروخت ہے، بولو! کیا کیا خریدو گے، جناب یہ ہے ہمارا ملک پاکستان جو دنیا میں مسلم ممالک کا چیمپین ہونے کا مدعی ہے۔

 جناب قارئین! ہمارے اس جیسے ملک کو عالم اسلام کا چئمپین بننے کا چکمہ بھی اسلئے دیا گیا ہے جو انکے ہاں پروردہ طالبان تنظیم اسلام کے نام پر اپنوں کو مارنے کے لئے ہر وقت تیار ہے ان اسلام کے ٹھیکیداروں نے داعشی تحریک کے خلاف تفصیل کے ساتھ کچھ بھی نہیں بولا وہ اسلئے کہ مسلم امت کے اند ر اس قسم کی مذہب کے نام پر بنی ہوئی سیاسی، تبلیغی اور جہادی تنظیمیں سب کی سب اپنوں کو یعنی مسلم امت والوں کو کافر بنا بنا کر مارنے کے لئے تیار کی گئی ہیں، جس کے ساتھ آنجہانی جان پوپ پال بینی ڈکٹ کی دعوی کہ اکیسویں صدی دنیا میں عیسائیت کے غلبہ کی صدی ہوگی کو ایسی اسلامی تنظیموں کے ہاتھوں مسلم لوگوں کو بے دین اور کافر کہہ کہہ کر اتنا تو دیوار سے لگائیں جو وہ مجبور ہو کر عیسائی بن جائیں کیونکہ جب وہ عیسائی بن جائیں گے تو انکو ملک کی کوئی بھی مذہبی تنظیم چھ کلمے پڑھانے کی تبلیغ نہیں کریگی اور نہ ہی انکی عورتوں کو برقعہ نہ پہننے پر سزادیگی۔

 جناب قارئین! میں نے شروع مضمون میں جو عرض کیا کہ عالمی سامراج نے فکر قرآن اور متن قرآن کو دنیا سے مٹانے کے لئے ہر دور میں داعشی مثل لوگ اسلام کے اندر ملت اسلامیہ میں مذہبی برقعوں میں بھیجے تھے انکو ملمع سازیوں اور تقدس کے چوغوں میں اتنا تو چھپایا جو کسی کے لئے لکھا کہ اس امام نے چالیس سالوں کی راتوں میں عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی اور نوافل کی عبادت میں رات کو پورے قرآن کا ختم پڑھا، اور چالیس سالوں کے سارے دنوں کے روزے رکھے اور کسی امام کے نام سے یہ مشق بیس سال کی لکھی ہے کسی امام کے اللہ سے ہمکلام ہونے کی باتیں لکھی گئی ہیں اور کئی اماموں کے پاس ملائکوں کے آنے جانے کے قصے لکھے ہوئے ہیں اب سادہ اور علم و عقل سے پیدل لوگ ایسے داعشی قسم اماموں کے اتنے تو معتقد ہوگئے ہیں جو ماضی کے ایسے برقعہ پوش داعشیوں کے پول کھولنے پر لوگ لڑنے کو آجاتے ہیں۔

ابھی جو سامراج ٹارزن کی واپسی کی طرح پھر سے بوریا بستر لارہا ہے جس کے لئے اس نے ہماری دھرتی کے خزانوں کی لوٹ مار کی کامیابی کے لئے پیشگی ہمارے ملک میں صوفی ازم کو اپنی تاش کے دوسرے پتے کے طور پر پھینک چکا ہے ایک طرف صوفی ازم نظریہ کی یونیورسٹیاں کھولنے کا پروگرام ہے دوسری طرف ان کی سرپرستی طاہرالقادری جیسے صوفی کو دینے کا پروگرام ہے جو اپنے ادارہ منہاج القرآن لاہور میں جناب رسول علیہ السلام کو ہوائی جہاز کے ذریعے لاکر چائے پلاتا ہے "العیاذ بااللہ" اور تصوف کی تعلیم کے سلیبس کا بنیاد اس پر ہوگا کہ غریبی اور امیری اللہ کے ہاتھ میں ہے، دنیا میں جوبھی کچھ ہورہا ہے وہ سب اللہ کی مرضی کے مطابق ہورہا ہے، اس میں کسی کا کوئی دخل نہیں دینا چاہیے۔

امت مسلمہ کی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ میں جتنے بھی داعشی قسم کے لوگ اور انکی تبلیغی اور سیاسی اور جہادی تنظیمیں گذری ہیں ان کے سامراجی فرستادہ ہونے کا دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ دین کی تعبیر کے لئے بجائےقرآن کے امامی علوم اور علم روایات کو دین کا اصل قرار دیا ہوا ہے۔ جبکہ خود جناب خاتم الانبیاء جیسی ہستی کو بھی حکم دیا ہوا ہے کہ قرآن کے ملنے سے پہلے اپنی طرف سے حدیثیں بیان نہ کیا کرو اور دین صرف قرآن سے پیش کرو اگر میرا  یہ رسول اپنی طرف سے قوانین دین  کے لئے اپنے اقوال پیش کرے گا تو ہم اسے طاقت سے پکڑ کر اس کے سانس لینے والی رگ کو کاٹ دیں گے۔ 


Sunday, 27 July 2014

قران کا سیاسی نظام

قران کا سیاسی نظام

انسانی زندگی کے مختلف تاریخی ادوار نے ثابت کیا ھے کہ انسانی معاشرے سے وابستہ امور کی تدبیر اور سیاست پر خاص توجہ رکھنا چاھئے ، کیونکہ معاشرے کے نظام کو عقل و رسم و رواج اور شرع نے موضوع بحث قراردیا ھے اور ان میں سے ھر ایک کے تقاضے کی بنا پر انسانی معاشرے کا نظام تیار ھوا ھے ۔ 

سیاست اور نظم و نسق کا مسئلہ اسلام میں دوسرے ادیان سے کھیں زیادہ اھم اور نمایاں ھے ۔ اسلامی احکام و قوانین پر طائرانہ نظر ڈالنے سے بھی یقین ھوجاتا ھے کہ سیاست کو شرع مقدس سے جدا نھیں کیا جا سکتا کیونکہ شرع کے تار و پود میں سیاست مضمر ھے۔ حکومت، ولایت، امر بہ معروف، نھی عن المنکر، جھاد، دفاع، قضاوت، شھادات، حدود، قصاص، تجارت، معاملات، نا بالغوں، یتیموں اور مجانین کی ولایت، سماجی اور گھریلو حقوق، تربیتی اور ثقافتی امور، اقتصادی مسائل، زکوٰة، خمس، غنائم، ذمّی اور اھل کتاب کے احکام، دوسری ملتوں سے امت مسلمہ کے تعلقات، جنگ و صلح اور اسی طرح کے دوسرے مسائل ان فقھی اور اسلامی معارف کے زمرے میں شامل ھیں جنھیں معاشرے کی سیاست و تدبیر سے علیحدہ نھیں کیا جا سکتا۔ یھاں تک کہ عبادات میں سے حج، نماز جمعہ اور جماعت وغیرہ کا تعلق سیاست سے قابل توجہ ھونے کے ساتھ ساتھ ناقابل جدائی ھے ۔ 

پیغمبر اسلام کی سیرت اور سیاست دونوں ایک کھلی کتاب کے مانند ھیں ، جو تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ھے۔ 

یہ کھنا غلط ھے کہ رسول خدا محض عبادات ، اعتقادات کی تعلیم اور لوگوں کی تربیت و ھدایت ھی کرتے رھے ۔ اسلامی ملک کی اندرونی و بیرونی سیاست سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا ! مختلف ملکی سر براھوں کے نام آنحضرت کے خطوط ، عملی طور پر ظالم و جابر افراد کے خلاف اقدامات ، شیطانی سیاست اور سیاست مداروں سے ٹکر ، باطل کے خلاف جنگ میں لوگوں کو جمع کرنا ، مسند قضاوت پر بیٹھنا ، (عدل و انصاف قائم کرنا ) اور تمام سماجی امور میں رھنمائی کرنا ․․․․․․․․․ 
ایسے رویّے اور طور طریقے ھیں جن کو پیغمبر کی سنت و سیرت سے جدا نھیں کیا جاسکتا ۔ لھذا سیاسی مسائل کی اھمیت ، ان کا شریعت سے تعلق ، اور بانی ٴاسلام کی ان معاملات میں براہ راست رھنمائی ، نیز اسلامی معاشرے کی ھدایت کی ذمہ داری نہ صرف عقل و شرع کے بدیھی امور میں شمار کی جاتی ھے بلکہ ان میں ابھام کی کوئی گنجائش نھیں ھے ۔ 

چونکہ پیش نظر مباحث کا موضوع اسلام کا سیاسی نظام ھے ، لھذا ان میں حسب 
ذیل امور کا تجزیہ ضردری ھے  

١۔
سیاست کا مفھوم اور حیات انسانی میں اس کا مقام 

۔۲
 اسلام میں سیاست اور اس کے ابعاد 

۳
۔
اسلام کا سیاسی نظام اور قران میں اس کے مقدمات و اصول 

 
قرانی نقطہ نظر سے سیاست کے مقاصد 

سیاست کا مفھوم 

لفظ سیاست کے مروجّہ معنوں اور دنیا کے دھوکے باز سیاسی رھنماؤں کے عمل کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ بات کھی جا سکتی ھے کہ لفظ سیاست کے معنوں میں اتنی تحریف کی گئی ھے کہ آج دنیا میں جو کچہ ھو رھا ھے وہ اس لفظ کے لغوی و حقیقی معنوں سے تضاد رکھتا ھے ۔ یہ بات ھم کو مجبور کرتی ھے کہ ھم سب سے پھلے لفظ سیاست کے مفھوم کی توضیح پیش کریں ۔ اس کے بعد سیاسی نظام کے ابعاد اور قرانی نقطہ نظر سے اس کے مقاصد پر روشنی ڈالیں ۔ 

لغت اور اسلامی کتابوں کے ماخذ اور متون میں مندرج لفظ سیاست کے معنوں پر غور کرنے سے یہ مستفاد ھوتاھے کہ سیاست کے حقیقی معنی ، انسانی معاشرے ، ملک اور عوام کی سر پرستی و قیادت کے ان ابعاد پر مشتمل ھیں ، جن کے ذریعہ ان کی فلاح و بھبود اور ترقی کی ضمانت ملتی ھے ۔ 

لفظ سیاست پر مشتمل تشریحات کو لغت کی بعض کتابوں نے درج کیا ھے

مجمع البحرین

ساس ، یسوس ، الرعیہ ، امرھا و نھاھا ، سیاست کے معنی ، عوام پر احکام جاری کرنے اور پابندی عائد کرنے کے ھیں ۔ حدیث میں ھے : ” ثم فوض الی النبی امر الدین و الامة لیسوس عباد“ ” دین اور امت مسلمہ سے وابستہ امور کی ذمہ داری پیغمبر اسلام کو سونپی گئی تاکہ لوگوں کو سیاست اور راھنمائی کریں ۔ 

دائر المعارف بستانی
ساس القوم ، دبرھم و تولیٰ امرھم ۔ الامر : قام بہ ، فھو ساس السیاسة : استصلاح الخلق بار شاد ھم الی الطریق المنجی فی العاجل او الآجل السیاسة المدینة : تدبیر المعاش مع العموم علیٰ سنن العدل و الاستقامہ “ 

کسی معاشرے کی سیاست کرنا : ان کے امور کی تدبیر اور ان کے تقاضوں کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف و رھنمائی کے معاملات کو آزادی سے بجالاناھے ۔ سیاست مدن : یعنی معاشرے کی معیشت ،عدل و انصاف اور آزادی کے اصولوں پر فراھم کرنا  

عربی لغت ، لاروس 

ساس الوالی الرعیہ : ”تولی امرھاواحسن النظر الیھا “ حاکم نے رعایا کی سیاست کرنے کی ذمہ داری قبول کی : یعنی عوام کے تمام کارو بار کی ذمہ داری قبول کر کے ان کی فلاح و بھبود کے لئے سوچا ۔ 

منجد الطلاب “ کے ترجمے میں بھی سیاست کی اس طرح تعریف کی گئی ھے ۔ مملکت داری، عوام کے امور کی اصلاح ، ملکی کار وبار کا انتظام ، اور سیاست مدن یعنی معاشرے کو سیاست کرنا ۔ 

فارسی لغت ’ ’معین “ میں سیاست مذکورہ بالا معنوں کے علاوہ حسب ذیل معنی بھی درج کئے گئے ھیں ۔ ” قضاوت ، عدالت ، سزا ، جزا ، تنبیہ ، ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور ملک کے داخلی اور خارجی امور کا انتظام “
اسی طرح ” اخوان الصفا “ کتاب کے حوالے سے سیاست کے کئی بُعد بتائے جاتے ھیں ۔ اقتصادی سیاست ، سیاست مدن اور جسمانی سیاست جو بدن کو قوت بخشنے اور اس کی حفاظت کرنے کے علاوہ اسے توازن اور حد اعتدال سے خارج ھونے سے روکتی ھے ۔ ” اخلاق ناصری “ کتاب سے نقل کیا گیا ھے کہ سیاست فاضلہ کو امامت کھتے ھیں ۔ اور اس سے مراد تکمیل خلق ھے جو سعادت کے حصول کے لئے ضروری اور لازمی ھے ۔ 

علمی اور عقلی مباحث میں حکماء و فلاسفہ نے حکمت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ھے ۔

حکمت نظری: اس علم کو کھتے ھیں جس کے ذریعہ عقل انسانی اپنی قدرت و توانائی کے مطابق جو موجودات کے حقیقی حالات کے بارے میںعلم رکھتی ھو۔
حکمت عملی : جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ھے ۔ 

(۱)
اخلاق یعنی خود سازی

(۲)
تدبیر منزل یعنی گھریلو امور کی تنظیم

(۳)
سیاست مدن یعنی شھری اور ملکی پیمانے پر تشکیل حکومت تاکہ انسانی اجتماع کے مسائل و مشکلات کو حل کیا جائے ۔

مذکورہ مفاھیم اور آج کی دنیا میں رائج سیاست اور سیاسی رھنماؤں کی منطق کے درمیان مکمل تضاد ھے ، اس لئے کہ ان لوگوں نے عوامی مصلحت ، ترقی اور سر حدوں کی حفاظت کے بجائے اپنی سیاست کی بنیاد ، مکاری ، قتل و غارت گری ، جاہ طلبی ، ریاست اور وسعت طلبی ، نیز محروموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے پر رکھی ھے۔ یہ عوام دشمن غریبوں کو موت کے حوالے کرنے ، انھیں علمی ، فنی اور فکری افلاس کے حوالے کرنے کو نصب العین بنائے ھوئے ھیں ۔ ظاھر ھے اس سیاست کی دین، ضمیر اور عقل میں کوئی گنجائش نھیں ۔ 

اب تک سیاست کے مختلف معنی جو ھم ذکر کرتے چلے آئے ھیں اورجن معنوں پر مصلح اور دانشور افراد غور و فکر کرتے رھے ھیں ، وہ انسان کی ضروریات زندگی سے وابستہ ھیں اور بے شک اسلام اور دوسرے ادیان نے اس کی نسبت خاص اھتمام کیا ھے اور کبھی اس پر غور و فکر کرنے سے منع نھیں کیا ھے ۔
اگر محض قرانی نقطہ نظر سے انبیاء علیھم السلام کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنےآتی ھے کہ انسانوں کے حقیقی اور سچے رھنما اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں (ع) نے عوامی معاملات کی بھلائی کے لئے کس قدر جانفشانی کی ھے ، خاص طور پر سیاست ، رھبری اور اصلاح کے لحاظ سے ان کی خدمات مثالی ، قابل تحسین و قابل عمل و پیروی ھیں ۔ 

دو طرح کے سر براہ 

بے جانہ ھو گا اگر یھاں ایک خاص نکتے کی طرف توجہ مبذول کرتے چلیں کہ قران مجید نے دو طرح کے سر براھوں کا ذکر کیا ھے ۔الھی رھبراور شیطانی سربراہ جو ایک دوسرے کی مخالف جھت میں چلتے رھے ھیں ۔ قران میں جھاں بھی ان دونوں طرح کے سربراھوں کا ذکر ھوا ھے وھاں ان کے حکمرانی کے طریقوں کی بھی وضاحت کی گئی ھے ، بعنوان مثال

۔۱ 
سلیمان (ع) اور بلقیس کے سلسلے میں یوں بیان ھوا ھے

قالت ان الملوک اذا دخلوا قریة افسد و ھا وجعلوا اعزة اھلھا اذلة و کذلک یفعلون “
(۱)

اس نے کھا کہ بادشاہ جب کسی علاقہ میں داخل ھوتے ھیں تو بستی کو ویران کر دیتے ھیں اور صاحبان عزت کو ذلیل کر دیتے ھیں اور ان کا یھی طریقہ کار ھوتا ھے ۔

اگرچہ یہ آیت بلقیس کی ترجمانی کر رھی ھے ، لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ قرآن مجید جب کبھی کسی بات کو درج کر کے رد نھیں کرتا تو اس کا حکم دستخط اور تصدیق کے برابر ھے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ھے کہ بادشاہ بنیادی طور پر اسی طرح کے ھوتے ھیں، یعنی مفسد ، تباہ کار ، گمراہ کن اور غاصب ۔ 

۔۲
حضرت موسیٰ(ع) اور حضرت خضر(ع) سے متعلق کشتی کا واقعہ بیان ھوا ھے  وھاں حسب ذیل آیت ھے 

 ام السفینة فکانت لمساکین یعملون فی البحر فاٴردت ان اعیبھا و کان و راء ھم ملک یاٴخذ کل سفینة غصبا

جھاں تک اس کشتی کی بات ھے تو اس کا تعلق ان غریب افراد سے تھا جو دریا میں کام کرتے تھے ۔ میں نے اس کشتی میں سوراخ اس لئے کرنا چاھا تھا ، کہ ان پر ایک ایسے بادشاہ کا تسلط تھا جو کشتیوں کوھتھیا لیتا تھا ۔ 

قرآن میں مسرفین ، مستکبرین ، مفسدین اور مترفین جیسی تعبیریں طاغوتوں اور صاحب مال و قدرت سربراھوں کے لئے بارھا استعمال ھوئی ھیں ۔ 

حقیقی سر براھوں کی خصوصیات 

قران میں ایسے واقعات بھی ھیں جن میں ایسے سر براھوں کا ذکر ھے جنھوں نے عوام کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ھوئے صحیح اقدامات کئے ھیں۔ 

ایک واقعہ تو وھی ھے جب بنی اسرائیل نے اپنے ایک نبی سے درخواست کی تھی کہ انھیں ایک ایسا فرمانروا اور سربراہ دیا جائے جو ان کو ساتھ لے کر دشمن سے مقابلہ کر سکے  

 وقال لھم نبیھم ان اللہ قد بعث لکم طالوت ملکا قالوا انی یکون لہ الملک علینا ونحن احق بالملک منہ و لم یؤت سعة من المال قال ان اللہ اصطفہ علیکم و زادہ بسطة فی العلم وا لجسم و اللہ یؤتی ملکہ من یشاء و اللہ واسع علیم
 (۲)

 ان کے پیغمبر نے کھا اللہ نے تمھارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا ھے ۔ ان 
لوگوں نے کھا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے ان کے پاس تو مال کی فراوانی نھیں ھے ان سے زیادہ تو ھمیں حقدار حکومت ھیں ۔ نبی نے جواب دیا کہ انھیں اللہ نے تمھارے لئے منتخب کیا ھے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ھے اور اللہ جسے چاھتا ھے اپنا ملک دے دیتا ھے کہ وہ صاحب وسعت بھی ھے اور صاحب علم بھی ھے۔

یہ آیت ان افراد کے افکار و خیالات کی تردید کرتی ھے جو سربراھی کے لئے مال و ثروت کو ضروری سمجھتے ھیں اور ایک ایسے معیار سے آشنا کراتی ھے جو کسی فرد کی حاکمانہ لیاقت و قابلیت کا ثبوت فراھم کرتا ھو ، یھاں علم و قدرت کو استحقاق فرمانروائی کا معیار قرار دیا گیا ھے ۔ 

اس آیہ مبارکہ میں ایک بھت لطیف نکتہ یہ ھے کہ جو سر براھی قابلیت اور صلاحیت کی بنیادوں پر مستحکم ھوتی ھے وہ الطاف باری تعالیٰ سے سرشار ھوتی ھے اور خدا وند کریم سوائے ان لوگوں کے جو اھلیت رکھتے ھیں ھر کس و ناکس کو اس عطیہ سے نھیں نوازتا ، اس لئے کہ یہ عطیہ وھی مالکیت مالک الملک ھے جو لائق و شایستہ سربراہ کی ملکیت میں دیا جاتا ھے ورنہ انسان کوحق نھیں ھے کہ وہ علم ، قدرت اور اپنی سربراھی پر ناز کرے ، اس لئے کہ قدرت اور علم در حقیقت ابتداء خدا وند کریم کے لئے ھے پھر کھیں انسان تک اس کی رسائی ھوتی ھے ۔ 

قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئی قدیر
( ۳)
پیغمبر آپ کھئے کہ خدا یا تو صاحب اقتدار ھے جس کو چاھتا ھے اقتدار دیدیتا ھے اور جس سے چاھتا ھے سلب کرلیتا ھے ۔ جس کو چاھتا ھے عزت دیتا ھے اور جس کو چاھتا ھے ذلیل کرتا ھے ۔ سارا خیر تیرے ھاتھ میں ھے اور 
تو ھی ھر شہ پر قادر ھے ۔

سورہ بنی اسرائیل میں طالوت و جالوت کے درمیان جنگ کے واقعات اس طرح بیان کئے گئے ھیں

فھزموھم باذن اللہ و قتل داود جالوت و اٰتاہ اللہ الملک و الحمکة و علمہ مما یشاء
(۴)
نتیجہ یہ ھوا کہ ان لوگوں نے جالوت کے لشکر کو خدا کے حکم سے شکست دیدی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے انھیں ملک اور حکمت عطا کردی اور اپنے علم سے جس قدر چاھا دیدیا ۔

اسی طرح یہ آیت حکومت کے اقتدار و مدارج کے ساتھ ساتھ علم اور حکمت پر زور دیتے ھوئے ذمہ داریوں میں سے ایک ایسی ذمہ داری کی طرف بھی اشارہ کرتی ھے جو الٰھی سربراھوں کے ذمے ھوتی ھے ، مثلا دشمنان خدا سے مقابلہ کرنا ․․․․․․․ ۔ اس بحث کو حکومت کے سیاسی مسائل اور فرائض کے ضمن میں بیان ھونا چاھئے ۔ 

قران کریم میں ایسے پیغمبروں کے نام بھی درج ھیں جو مقام نبوت کے علاوہ معاشرتی ثقافت و سیاست کے فرائض بھی انجام دیتے تھے ، ان میں سے پیغمبر داؤد ، سلیمان ، یوسف اور ذو القرنین علیھم السلام کے نام قابل ذکر ھیں۔ 

 یا دا وٴد انا جعلناک خلیفةفی الارض فاحکم بین الناس بالحق و لا تتبع الھویٰ فیضلک عن سبیل اللہ
( ۵)
اے داؤد ھم نے تم کو زمین پر اپنا جانشین بنایا ھے ، لھذا لوگوں کے درمیان جن کے ساتھ فیصلہ کرو اورخواھشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں بیشک جو لوگ رارہ خدا سے بھٹک جاتے ھیں ان کے لئے شدید عذاب ھے کہ انھوں نے روز حساب کو یکسر نظر انداز کردیا ۔

 و ورث سلیمان داوٴد و قال یا ایھا الناس علمنا منطق الطیر و اوتینا من کل شئی ان ھٰذا لھو الفضل المبین 
 و حشر لسلیمان جنود ہ من الجن و الانس و الطیر فھم یوزعون
(۶)
 اور پھر سلیمان داؤد کے وراث ھوئے اور انھوں نے کھا کہ لوگوں مجھے پرندوں کی باتوں کا علم دیا گیا ھے اورھر فضیلت کا ایک حصہ عطا کیا گیا ھے اور یہ خدا کا کھلا ھوا فضل وکرم ھے اور سلیمان کے لئے ان کا تمام لشکر جنات انسان اور پرندے سب اکٹھا کئے جاتے تھے تو بالکل مرتب منظم کھڑے کر دئے جاتے تھے 

تفسیر صافی میں مجمع البیان سے اور مجمع البیان میں امام جعفر صادق
(ع)  سے روایت ھے کہ حضرت سلیمان(ع) کی حکومت کا دائرہ مشرق سے لیکر مغرب تک پھیلا ھوا تھا ۔ انھوں نے زمین پر بسنے والے تمام جن و انس ، شیاطین ، چرند و پرند اور وحشی جانوروں پر سات سو سال سے زیادہ حکومت کی تھی ۔ 

۳
و قال الملک ائتونی بہ استخلصہ لنفسی فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین 
 قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم
 و کذلک مکنا لیوسف فی الارض یتبوا منھا حیث یشاء نصیب برحمتنا من نشاء و لا نضیع اجر المحسنین 
 ( ۷)
اور بادشاہ نے کھا کہ انھیں سے آؤ میں اپنے ذاتی امور میں ساتھ رکھوں گا اس کے بعد جب ان سے بات کی تو کھا کہ تم آج ھمارے دربار میں باوقار امین کی حیثیت سے رھو گے پھر یوسف نے کھا مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دو کہ میں محافظ بھی ھوں اور صاحب علم بھی اور اس طرح ھم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ وہ جھاں چاھیں رھیں ھم اپنی رحمت سے جس کو بھی چاھتے ھیں مرتبہ دے دیتے ھیں اور کسی نیک کردار کے اجر کو ضائع نھیں کرتے ۔

حضرت یوسف
(ع) مصر کے زندان میں بھی لوگوں کی بری حالت اور حکومت وقت کے فتنہ و فساد سے با خبر تھے ۔ انھوں نے مصری عوام پر حکمراں سیاسی نظام کو ختم کر کے انھیں امن و انصاف مھیا کرنے کی فکر میں کوئی فروگذاشت نھیں کی ۔ جس وقت وہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بیان کرنے کے سلسلے میں بے گناہ قیدی کی حیثیت سے پھچانے گئے ، بادشاہ نے ان کے چھرہ مبارک پر دانشمندی و بیدار مغزی کے آثار دیکھے تو ۔ وہ چاھتا تھا کہ ملک و ملت کی شہ رگ یعنی ملک کی اقتصادی سیاست کی ذمہ داری انھیں سونپ دے۔ اس اھم نکتے سے چشم پوشی نھیں کرنا چاھیے کہ اقتصادی سیاست پر ملک کے سارے نظام اور عوام کے مستقبل کا دار و مدار ھوتا ھے ۔ ملک کی سیاست سنبھالنے کے سلسلے میں حضرت یوسف(ع) کے اقوال میں سے ایک اور اھم نکتہ سامنے آتا ھے جو دو بنیادی شرطوں پر مبنی ھے ۔ ایک ” حفیظ “ یعنی محافظ ، امانت دار اور قابل اعتماد ھونا ، دوسری شرط ” علیم “ یعنی ملکی منافع ، مال و دولت ، ذخیروں اور سیاست دولت سے با خبر ھونا ھر سر براہ کے لئے شرط لازم ھے ۔ 

آیا حضرت آدم
(ع) کی خلافت و حکومت میں علم و امانت کے سوا اور کوئی دوسرا محور تھا ؟ 

و علم آدم الاسماء کلھا “ ” انا عرضنا الامانة ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وحملھا الانسان
جو شخص ان دونوں صفتوں سے محروم رھا وہ یقینی طور پر ” ظلوم و جھول “ یعنی نادان و ستمگر ٹھھرا ۔ انسانیت پر اب تک جتنے مصائب گذرے ھیں و ہ سب انھیں نادان ا ور ستمگر افراد کے ھاتھوں گذرے ھیں جنھوں نے خلافت کی امانت غصب کر کے انسانی زندگی کے نظام کو تباھی کے حوالے کر رکھا ھے ۔

ویسئلونک عن ذی القرنین قل ساٴتلوا علیکم منہ ذکر ا انا مکنّا لہ فی الارض و آتیناہ من کل شئی سببا
)
اے پیغمبر یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ھیں تو آپ کھدیجئے کہ میں عنقریب تمھارے سامنے انکا تذکرہ پڑھ کر سنادوں گا ۔ ھم نے ان کو زمین میں اقتدار دیا اور ھر شئی کا سازو سامان عطا کردیا ۔

اس کے بعد محروم طبقوں کو نجات دلانے کے لئے ان کے مشرق و مغرب کے سفر 
کا ذکر ھوتا ھے ۔ یا جوج و ماجوج کے ظلم و ستم اور فساد کو روکنے اور مستضعفین اور محرومین کو شکنجے سے نجات دلانے کے لئے اسکندر نے دونوں طبقوں کے درمیان ایک دفاعی دیوار بنانے کے لئے کچہ اقدامات کئے تھے ، اس کی مزیز تفصیل قران مجید ا ور تفسیروں میں تلاش کرنا چاھئے ، بنیادی نکتہ یہ ھے کہ خدا وند کریم کی جانب سے مبعوث ھونے والے اس سربراہ اور انصاف پسند حکمراں نے ( اسکندر نام کا ایک باندہ ) قائم کیا تاکہ محروموں پر حملہ آور دشمن کے حملوں میں رکاوٹ ڈال سکے اور اس قابل تعریف اقدام کو اس طرح انجام دیا جس طرح سے ایک الٰھی سیاست کا ر اور زمامدار کو انجام دینا چاھئے ۔

( سورہ کھف کی ۸۳ سے لیکر ۹۸ آیت تک ملاحظہ ھو ) 
بیان کردہ واقعات و حقائق ثابت کرتے ھیں کہ تاریخ کے طویل عرصے میں ایسے پیغمبر اور مردان حق گذرے ھیں جنھوں نے ملک اور عوام کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ عوام کی راھنمائی اور سیاست کے فرائض بھی معیاری طریقے پر انجام دیے ھیں ،اور جس راہ پر سیاسی کارکنوں کو چلنا اور جن اغراض و مقاصد کو پورا کرنا چاھئے ان کی نشاندھی بھی انھوں نے اس طرح سے کی ھے کہ دوسروں کے لئے بطور نمونہ باقی رھیں ۔ 

اس باب کی اصولی بحثیں 

 قران میں حکومت اور قانونی حکمراں ( حاکم شرع) کی بنیاد 

 قرانی نقطہ نظر سے سیاسی نظام کے مقاصد و نتائج 

 قران میں سیاسی نظام کے ارکان 

 قرانی نقطہ نظر سے طرز حکومت

تتمہ : سیاسی رجحانات کے سامنے عوام اور مذھبی رھنماؤں کی ذمہ داری
بنیاد ِحکومت فرمانروائی نص قران کے مطابق مطلق اور کلی حاکمیت صرف خالق کائنات کو حاصل ھے کائناتی مطالعے ، آئیڈیا لوجی اور اعتقاد کا نتیجہ یھی ھے ۔ یھی عقیدہ پورے نظام کی اساس ھے۔ چونکہ ایک وجود مطلق ھی پوری کائنات کا فرمانروائے حکیم و عادل وقادر و سرمدی ھے لھذاظاھر ھے کہ انسانی سر نوشت بھی اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ھے ۔ اسی فلسفے سے یہ نتیجہ بھی حاصل ھوتا ھے کہ اولاً وبالذات اللہ حاکم ھے اور اس کے بعد ھر انسان خلیفہ ، نمایندہ اور رضائے خدا یا احکام خدا کا نافذ کرنے والا ھے ۔ اس فلسفے کے لئے قران کی درج ذیل آیتیں تائید و راھنمائی کرتی ھیں 

” ان الحکم الا للّہ امر الا تعبد و ا الا ایاہ “
( ۹)
جب کہ حکم کرنے کا حق صر ف خدا کو ھے اور اسی نے حکم دیا ھے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے ۔

 فالحکم للّہ العلی الکبیر
 (۱۰)
 فیصلہ صرف خدا نے بلند و بزرگ کے ھاتھ میں ھے ۔

” و من احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون
( ۱۱)
جب کہ صاحبان یقین کے لئے اللہ کے فیصلہ سے بھتر کسی کا فیصلہ ھوسکتا ھے ۔

 ان الحکم الا للّہ یقص الحق و ھو خیر الفاصلین
 ( ۱۲) 
حکم صرف اللہ کے اختیار میں ھے وھی حق کو بیان کرتا ھے اور وھی بھترین فیصلہ کرنے والا ھے ۔

متعدد آیات کے مطالعے سے معلوم ھوتا ھے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی انسانی فرمانروائی کی طرح نھیں ھے ، جو طاقت اور سطوت کے بل بوتے پر حاصل ھوتی ھے ، بلکہ ان اشاروں کے سھارے جو آیات میں موجود ھیں اسکی فرمانروائی کا راز جبروت ، استغنا ، قدرت ، علم ، حکمت ، ربوبیت ، عدل و انصاف اور اللہ کے دیگر صفات جمالیہ وجلالیہ میں تلاش کرنا چاھئے ۔ اس طرح سے اگر خدا وند عالم حاکمیت اور فرمانروائی اپنے بندوں کو عطا کرتا ھے تو محض اس لئے کہ وہ بھی اس کی حکمت کے تابع اور اسی کے تقاضوں کو پورا کرتے ھیں۔ پیغمبر اکرم کی فرمانروائی کے سلسلے میں ارشاد ھوتا ھے

فلا و ربک لا یوٴمنون حتیٰ یحکموک فیما شجربینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما
 (۱۳)
پس آپ کے پروردگا ر کی قسم یہ ھرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپکو اپنے اختلافات میں حکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپکے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ھوجائیں ۔

” و ان حکمت فا حکم بینھم بالقسط ان اللہ یحب المقسطین “ ’
(۱۴)
’ اور اگر فیصلہ کرو تو ان کے ما بین انصاف سے فیصلہ کرو ۔ بے شک اللہ منصفوں کو دوست رکھتا ھے “ ۔

اس سلسلے میں اور بھی بھت سی آیات ھیں ۔ 

حق اور انصاف کے ساتھ فرمانروائی کا حکم اللہ نے محض اپنے پیغمبروں تک ھی محدود نھیں رکھا بلکہ تمام مومنوں پر بھی یہ حکم نافذ ھوتا ھے کہ جب کبھی کوئی فیصلہ کریں تو حق اور انصاف کا پورا پورا خیال رکھیں اوراسکے پابند رھیں ۔ 

 ان اللہ یامرکم ان تودوا الامانات الی اھلھا و اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا با لعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ ان اللہ کان سمیعا بصیرا
 (۱۵)
” بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ھے کہ امانتوں کو ان کے اھل تک پھنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو اللہ تمھیں بھترین نصیحت کرتا ھے بیشک اللہ سمیع بھی ھے اور بصیر بھی ۔

آیت کے دو حصے ھیں ۔ ” ان اللہ یامرکم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واذاحکمتم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ ان دونوں حصوں میں اگر واو کو قرینہ مانا جائے تو امانت سے مراد امامت ، حکومت اور عدالت ھے لیکن اگر امانت کو کلی بھی مان لیا جائے تو اس میں ھر قسم کی امانتیں شامل ھوں گی اور اگر اس بحث میں نہ بھی پڑیں تب بھی ماننا پڑے گا کہ امامت و حکومت تمام انواع امانت میں نمایاں ترین امانت ھے اور یقینی طور پر آیت سے یھی حکم ملتا ھے کہ یہ امانت یعنی حکومت ، اھل افراد کے حوالے کی جائے ، کیونکہ اگر ایک نا چیز مادی شئی کو امانت کا نام دیکر اھل کے حوالے کرنا فرض ھے تو حکومت وقضا ، سیاست و تدبیر معاشرہ ، امانت کا برتر و بھتر مصداق کیوں نہ اھل کے سپرد ھو ؟ چنانچہ تفاسیر میں ” امانت “ کو امامت و زعامت سے تعبیر کیا گیا ھے اور ” انا عرضنا الامانة “ میں امانت سے متعلق واضح ترین تفسیر یھی ھے ائمہ اھل بیت
(ع) کی روایات اس کی طرف رھنمائی کرتی ھیں ۔ 

بھرحال یہ دیکھا جائے کہ اس امانت کا اھل کون ھے ؟ کیا ظلوم و جھول افراد ھیں “ جو ” لا ینال عھد ی الظالمین “ کے مصداق ھیں ؟ یا صالح ،مومن ، بے لوث اور عالم و متقی افراد ھیں ؟ ظاھر ھے کہ دوسرا جواب صحیح ھے ۔ 

بھر حال ، خدا وند کریم نے مومنوں کو امانت کی نمایاں قسم امامت و سیاست کو ان اھل افراد کے سپرد کرنے کا حکم دیا ھے جو خلافت الٰھی کی صلاحیت اور پیغمبروں کی نیابت رکھتے ھوئے امة مسلمہ کی قیادت اور اسلامی قدروں کی حفاظت کر سکتے ھوں ،صرف یھی نھیں ” حکم بین الناس “ کے سلسلے میں بھی لوگوں کو یہ ھدایت کی گئی ھوا ھے کہ انصاف کا دامن نہ چھوڑیں ، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بھترین نصیحت ھے ۔ 

ولایت

جس طرح سے لفظ ” حکم “ کا تعلق ابتداء ًاللہ سے پھر اس کے بندوں سے ھے اسی طرح لفظ ” ولایت “ جو سر پرستی اور سربراھی کے معنی رکھتا ھے ، پھلے اللہ پھر پیغمبر اور اولی الامر سے تعلق رکھتا ھے ۔

انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلٰوة و یؤتون الزکوٰة و ھم راکعون
( ۱۶)
ایمان والوں بس تمھارا ولی اللہ ھے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے ھیں ، نماز پڑھتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ھیں ۔

 النبی اولی بالمومنین من انفسھم
 (۱۷)بیشک نبی تمام مومنین کی جانوںپر خود ان سے زیادہ اختیار رکھنے والا ھے “۔ 

 یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم
(۱۸)
” اے ایمان لانے والو ! اللہ ، رسول اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ھیں “ ۔

والیان امر کون ھیں؟ 
مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت کون رکھتا ھے؟ 
آیا مسند حکومت پر ھر بیٹھنے والے شخص کی اطاعت واجب ھے ؟ 

نعوذ باللہ ، ایسا ھرگز نھیں ھے کیا قران یہ نھیں کھتا ؟

 ” و لا تطیعوا امر المسرفین الذین یفسدون فی الارض و لا یصلحون
( ۱۹)
اور ان زیادتی ( اسراف ) کرنے والوں کی جو زمین پر فساد کرتے ھیں اور اصلاح نھیں کرتے اطاعت نہ کرو ۔ 

قران کریم ان لوگوں کی مذمت کرتا ھے جو اللہ کے پیغمبروں سے بے رخی اختیار کرتے اور ظالم و جابر افراد کے نقش قدم پر گامزن رھتے ھیں ۔ 

 و عصوا رسلہ و اتبعوا امر کل جبار عنید
(۲۰)
یہ قوم عاد کے افراد ھیںجو اس کے رسولوں کی نافرمانی کیا کرتے تھے اور ھر کینہ ور ظالم کے فرمان کی تعمیل کرتے تھے۔

اسی طرح فرعون کے بارے میں ارشاد ھے 

 وما امر فرعون برشید
(۲۱) 
” فرعون کا حکم صحیح نہ تھا “

ولایت اور امر کے متعلق جو آیتیں پیش کی گئیں ان پر غور و فکر کرنے سے یہ نتیجہ عائد ھوتا ھے کہ ظالم و جابرادر بے صلاحیت حکام جو ضدی ، مسرف ، غاصب، ظالم اور عقل و علم کے دشمن ھیں ھرگز ” اولی الامر “ کا مصداق نھیں ھو سکتے ۔ 

” اولی الامر “ کا اطلاق ان رھبروں پر ھوتا ھے جو صالح ، عالم اور منصف ھوں ، پھلے مرحلے میں اولی الامر سے مراد اگر پیغمبر کے ذریعے منتخب افراد ھیں تو دوسرے مرحلے میں اس سے مرادوہ افرادھیں جو علم ، زھد و تقویٰ ، عصمت اور عدل و انصاف کے لحاظ سے تمام انسانوں پر برتری رکھتے ھو ۔ 

یہ ایک ایسی حقیقت ھے جو تھوڑی سمجہ بوجہ رکھنے والا بھی آسانی سے سمجہ سکتا ھے، اگر کوئی شخص اس تعریف کے باجود ” اولی الامر “ جیسی مقدس اصطلاح کو ظالم و جابر افراد کے لئے استعمال کر کے انھیں اللہ و رسول کی صف میں کھڑا کرے تو تعجب کا مقام ھے، لھذا اسلامی معاشرے کو سیاست کرنے کی ذمہ داری ، اسی شخص کو زیب دیتی ھے جو صراط مستقیم پر ایمان رکھتا ھو اور انبیاء و رسل کی راہ پر چلتا اور برحق اماموں کے مشن کی توسیع و تبلیغ کرتا ھو 

امامت 

قران مجید میں اصطلاح ( امام ) کا ذکر متعدد آیات میں ھواھے ، بعض جگھوں پر اسے انسانی ارتقاء کے بلند ترین مقام سے تعبیر کیا گیا ھے کہ نبوت و رسالت کے مقام سے بھی بالا و برترھے ، بعنوان مثال درج 
ذیل آیات ملاحظہ ھو 

 و اذابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن ، قال انی جاعلک للناس اماما ، قال و من ذریتی قال لا ینال عھدی الظالمین
 (۲۲) 
 اور (اس وقت کو یاد کر ) جبکہ ابراھیم (ع) کا اس کے رب نے چند کلمات سے امتحان لیا اور ابراھیم (ع) نے اس کو پورا کر دیا، ( خدا نے) فرمایا کہ میں تم کو تمام انسانوں کا امام مقرر کرنے والا ھوں ، (ابراھیم نے) عرض کی ، اور میری اولاد میں سے ، ( خدا نے ) فرمایا جو ظالم ھوں گے ان تک میرا عھدہ نھیں پھنچے گا ۔

اگر چہ یہ آیت نفوس و قلوب کے اس معنوی مقام و منزل کی نشاندھی کرتی ھے جس کا تعلق عالم ملکوت اور ولایت تکوینی تک محدود ھے اور اس سے ھٹ کر عام چیزوں سے اس کا کوئی تعلق نھیں ھے لیکن اس لفظ کے عام مفھوم اور آیت کے آخری حصے کو مد نظر رکھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ ظالم افراد قیادت و امامت کے لائق نھیں ھیں ۔ لفظ ظلم کی ضد یعنی عدالت ، امامت و رھبری کے لئے بنیادی شرط ھے لیکن جن آیات میں لفظ امام استعمال ھوا ھے ( اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ امام کے معنی رھبر و پیشوا اور مقدم کے ھیں ) اگر ان پر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ محسوس ھوتا ھے کہ رھبر و پیشوا دو قسم کے ھیں جو ھمیشہ سے انسانوں کو الگ اور متضاد سمتوں میں لے جاتے رھے ھیں ۔

بعنوان مثال لائق اور بر حق اماموں کی بابت یوں بیان ھوا ھے

 و جعلنا ھم ائمة یھدون بامرنا و اوحینا الیھم فعل الخیرات و اقام الصلوٰة و ایتاء الزکوٰة و کانوا لنا عابدین
 (۲۳)
اور ان کو ھم نے ایسا امام بنایا جو ھمارے حکم کے بمطابق ھدایت کرتے ھیں اور ان کی طرف ھم نے نیکیاں کرنے ، نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے کی وحی کی اور وہ سب کے سب ھماری بندگی کرنے والے تھے  ۔

اگر چہ مذکورہ آیت پیغمبروں اور ان کے بار رسالت و ھدایت کے بارے میں نشاندھی کرتی ھے ، لیکن اس کے باوجود انسان کی راھنمائی اور قیادت کو محض پیغمبروں ھی تک محدود نہ کرنا چاھئے اور نہ ھی ان کے دائمی وجود کی کوئی شرط ھونا چاھئے.
   اس لئے کہ بھرحال پیغمبروں کی زندگی کا دور بھی اختتام پذیر ھے ۔ اگر یہ طے پائے کہ تا قیامت انسانوں کی راھنمائی الٰھی شریعت کا جذبہ ھی کرتا رھے جو کر رھا ھے ، تو اس جذبے اور اس کے اثرات کو شریعت کے دوسرے ابعاد کی طرح جاری و ساری رھنا چاھئے ۔ لھذا فکری ، دینی ، سماجی اور سیاسی قیادت و رھبری انھیں لوگوں کو زیب دیتی ھے جن کی خصوصیات مذکورہ آیت میں بیان کردہ خصوصیات کے مطابق ھوں ،یعنی خالص بندگیٴ خدا ، پابندی ٴنماز و روزہ اور محرومین و مستضعفین کی مدد کا جذبہ ان میں پایا جاتا ھو ۔ اسی ضمن میں دوسری آیتوں میںبیان شدہ خصوصیات ( علم ، عدل ، پرھیزگاری اور انسان دوستی ) کا حامل بھی ھونا چاھئے ۔ 

یہ مختصر بیان انسانوں کے سچے اور حقیقی رھنماؤں کے سلسلے میںتھا۔گمراہ اور لیاقت سے عاری رھنماؤں کے بارے میں بھی قران ایک اھم نکتہ بیان کرتا ھے 

 و جعلنا ھم ائمة یدعون الیٰ النار و یوم القیامة لا ینصرون
 ھم نے ان کو ایسا امام بنایا ھے جو جھنم کی طرف دعوت دیتے ھیں اور روز قیامت ایسے لوگوں کاکوئی مدد گار نہ ھوگا۔

یہ آیت اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ مصر میں حکومت ،فرعون اورآل فرعون کے پاس تھی جولوگوں کو جھنم کی آگ کی طرف لے جا رھے تھے جس سے نجات پانا مشکل ھے ۔ 

اس میں کوئی شک نھیں کہ تاریکی و ظلمت کے دلال بننے ، دوزخ کا بیج بونے اور لوگوں کو دنیا و آخرت سے محروم کرنے کے سوا ظلم و جور کے سر براھوں کا پیشہ اور کچہ نھیں رھا ھے ۔ ان کی ھزاروں سال پر مشتمل حکومت کا نتیجہ یھی تھا کہ انھوں نے ھمیشہ جنگ کی آگ کو بھڑکایا اور ظلم و جور کا سھارا لیکر خود اپنے اور دوسروں کے لئےآخرت کی آگ فراھم کی ۔ 

اس قسم کی سیاست و رھبری کے مد مقابل لوگوں کے فرائض کیا ھیں ؟ 

اس کا جواب کسی دوسرے موقعہ پر بیان کیاجائےگا ۔ فی الحال اسی سلسلے میں قران کریم کی ایک آیت مندرجہ ذیل ھے 

”فقاتلوا ائمة الکفر انھم لا ایمان لھم “
 (۲۴)
سرداران کفر کو یھاں تک مارو کہ وہ باز آجائیں ۔ بے شک وہ ایسے ھیں جن کی قسم کوئی حیثیت نھیںرکھتی “ ۔

فتنہ و فساد کے اختتام اور الٰھی حکومت کے مستقر ھونے تک کفر و استکبار کے خلاف جنگ

 ( وقاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین للّہ )
 (۲۵)
اسلامی سیاست کا وہ جز ھے ، جسے فوجی سیاست یا اصول ِ دفاع کا نام دیا جا سکتا ھے یہ بحث کافی طویل ھے اور اس مختصر مقالے میں بحث کی گنجائش نھیں 

قرای نقطہ نظر سے سیاسی نظام کے بنیادی مقاصد و نتائج 

کسی حکومت یا سیاسی نظام کی تشکیل اور اسے قانونی درجہ حاصل ھونے کے ھدف کو نظام خلقت اور کائنات کے سارے نظام سے علیحدہ نھیں سمجھا جا سکتا ۔ انسانی زندگی سے وابستہ تمام مسائل کے ساتھ ساتھ ھم حکومت کے مقاصد کا تعین بھی کر سکتے ھیں ۔ 

جس حکومت کی بنیاد مادیت یا اس کے نتائج پر مبنی ھو ، اس کے اغراض و مقاصد استکبار ، تسلط ، جاہ طلبی ، ھوا و ھوس اور زیادہ سے زیادہ عیش و عشرت کے سوا اور کچہ نھیں ھوتے ۔ قران کریم فرعونی حکومت اور اس کی سیاست کے متعلق حسب ذیل وضاحت پیش کرتا ھے : 

” ان فرعون علافی الارض و جعل اھلھا شیعا یستضعف طائفة منھم یذبح ابناء ھم یستحی نساء ھم انہ کان من المفسدین
 (۲۶)
فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اوراس نے اھل زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا کہ ایک گروہ نے دوسرے گروہ کو بالکل کمزور بنادیا ۔

فرعونی سیاست کے اصول 

۱تکبر و غرور ،جو اپنی ذات کو مرکز سمجھنے کا نتیجہ اور جس کی غرض جاہ طلبی کی خواھش کو پورا کرنا ھے ۔

۲۔ جس امت میں اتحاد کی تاکید کی گئی تھی اس کے اتحاد کو ختم کرنا فرعونی سیاست کا نصب العین ھے۔

۳۔ مستکبر اور صاحب جاہ و جلال افراد کی عیش و عشرت اور آرام کی خاطر ان

 محروموں اور مستضعفوں کو غلام بنا نا جن کی زندگی فرعون کے ھاتھ میں تھی ۔
۴۔ لڑکوں کو اس خوف کی وجہ سے قتل کرنا کہ کسی دن یہ بغاوت نہ کردیں ۔
۵۔ لڑکیوں کی عزت و آ برو سے کھیلنا ۔
۶۔ ھر طرح کے سیاسی ، فکری ، اعتقادی ، اقتصادی ، اخلاقی ، فردی اور سماجی انحطاط اور فساد کو فروغ دینا ۔
مذکورہ چہ نکاتی اصولوں کو ان ظالم و جابر حکمرانوں کی اسٹراٹیجک سیاست کا نچوڑ سمجھا جا سکتا ھے ، جو ماضی سے لیکر آج تک انسانوں پر حکومت کرتے چلے آئے ھیں ۔ انسانی تھذیب و تمدن ، آبادی اور ملکوں کے وسیع ھونے کے نتیجہ میں ان کی ظالمانہ سیاست دن بدن رنگ لاتی رھی ، یھاں تک کہآج کی سیاست فرعونیوں کے زمانے سے کھیں زیادہ تباہ کن اورافسوسناک صورتحال اختیار کر چکی ھے ۔ اس موضوع پر یہ ایک آیت ھردور کی فرعونی سیاست کے رویے اور اس کے مقاصد و نتائج کی فھرست مرتب کرنے کے لئے کافی ھے ۔
خلافت الٰھی ، وراثت زمین اور امامت مستضعفین
قران مجید میں حکمت الھیہ کی بنیادوں پر حکومت کے اغراض و مقاصد اور اسکے مطلوبہ نتائج اسطرح بیان کیے گئے ھیں :
” و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمة و نجعلھم الوارثین “ (۲۷)
اور ھم یہ ارادہ رکھتے ھیں کہ ان لوگوں پر جو اس سر زمین میں کمزور کر دیے گئے ھیں احسان کریں اور ان کولوگوں کا پیشوا بنائیں اور ان کو زمین کا وارث قرار دیں ۔ اس سے قبل آیت میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کی سیاست بیان ھوئی ھے اوریہ آیت حضرت موسیٰ (ع) کا مقصد بعثت بیان کررھی ھے ۔ حضرت موسیٰ (ع) اس لئے مبعوث ھوئے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی حکومت ختم کر کے مستضعفین کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور اس سر زمین کے اصلی مالکوں کو ان کا حق دلائیں ۔ مستقبل کے لئے صاحب اختیار امام و رھبر کا انتخاب کریں اور بنی اسرائیل کے مظلوم عوام کے طبقے سے نکلنے والے رھنما کے ذریعے خدا کے پیام اور الٰھی فلسفے کی حفاظت کریں ۔ حضرت موسیٰ (ع) کی رسالت کا تقاضا یھی تھا ۔
اس آیت کو حضرت موسیٰ (ع) اور بنی اسرائیل ھی تک محدود نھیں سمجھنا چاھئے ۔ اس لئے کہ فعل( نرید ان نمن ) صیغۂ مضارع میں استعمال ھواھے جواستمرارپردلالت کرتاھے ،یعنی خدا وند کریم کا ارادہ ھمیشہ سے یھی رھا ھے کہ وہ انسانوں کی امامت و رھبری اور زمین کی وراثت ، ظالم و غاصب افراد سے چھین کر ان لوگوں کے سپرد فرماتا ھے جو نیک اور صالح ھوں ، یہ سیاست الھیہ دنیا کے قائم رھنے تک جاری ھے اور اس کی مکمل کامیابی اسی وقت ھو گی جب دنیا میں مستبد اور مستکبروں کےآثار باقی نہ رھیں اور زمین پر امامت ، امت مسلمہ کے نیک افراد اور الٰھی ولائق رھبروں کے سپرد ھو جائے ، یہ قران مجید اور پیغمبر اکرم کی بیان کی ھوئی وھی خوشخبری ھے جس کے مسلمان منتظر ھیں اور جس کو عملی جامہ پھنانے کی انھیں کوشش کرنا چاھئے ۔
عدل اور اس کے نفاذ کی ضمانت
”لقد ارسلنا رسلنا بالبینات ․․․․․․․․․ان اللہ قوی عزیز “(۲۸) ”بے شک ھم نے اپنے رسولوںکو کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ھم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ عدالت پر قائم ھو جائیں اور ھم نے ( خاص )لوھا نازل کیا جس میں سخت خوف ( بھی ) ھے اور لوگوں کے لئے منافع (بھی ) اوراس لئے تاکہ اللہ یہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی بغیر دیکھے کون مدد کرتا ھے ، بے شک اللہ صاحب قوت و غلبہ اورعزیز ھے “ ۔
یہ آیت انبیا کی بعثت کا اصل مقصد واضح کرنے کے علاوہ ھمیں چند اصول اور بتاتی ھے مثلا :
(الف) تمام پیغمبر عدل و مساوات قائم کرنے کے ذمہ دار ھیں اور یہ کام معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے بغیر ممکن نھیں ۔ لھذا ملک و ملت کی تدبیرا ور سیاست کی ذمہ داری پیغمبروں کا اولین فرض ھے ۔
(ب) اس ھدف کا عملی ھونا اس قانون کی بنیاد پر ھے جو آسمان سے انسانوں کے لئے نازل ھوا ھے ۔ یعنی وہ قانون جو حق و انصاف اور حکمت کے اصولوں پر قائم ھو اور سیاست مداروں کی افراط و تفریط اور تحریف سے دور ھو ۔
(ج) اگر حکمت و نصیحت کا کوئی اثر نہ ھو اور حملہ آور افراد اسی طرح اپنے حملوں کو جاری رکھیں تو اس لوھے سے بنے ھوئے ھتھیاروں سے انھیں کچل دینا چاھئے تاکہ فتنہ و فسادکا خاتمہ ھوجائے ۔
(د) اس آیت میں جھاں سیاست کے بنیادی اصول ، حکمراں ، قانون اور نفاذ کا ذکر ھوا ھے ، وھاں ان کا مبداٴ غیب اور خالق کائنات سے تعلق کا ذکر بھی موجود ھے ۔ اس طرح عوام کا حکومت سے فکری و اعتقادی تعلق بھی ھونا چاھئے ۔ یہ مرحلہ افراد و معاشرہ ٴ انسانی کے لئے آزمائش کا مرحلہ ھے ۔ آیت کا آخری حصہ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت و عزت کی نشاندھی کرتا ھے اسی کے ساتھ یہ اشارہ بھی ملتا ھے کہ چونکہ قدرت ، عزت ، مالکیت اور ملوکیت صرف خدا کو زیب دیتی ھے لھذا انسان کسی اور ذریعے سے عزت و طاقت حاصل کرنا چاھے تو وہ ایک غلط اور نا زیباطریقہ ھے اوروہ تکبر وغرور کا راستہ اختیار کر کے ظالم اور جابر افراد کی طرح مجرم قرار پاتا ھے ۔ جبکہ انبیاء و رسل کی راہ اور الٰھی سیاست کی روش یہ نھیں ھے ۔
عدل و مساوات قائم کرنے کے بارے میں تاکید اگر چہ انبیاء و رسل کے عام پروگراموں میں شامل رھی ھے لیکن پیغمبر اسلام نے اس پر خاص توجہ فرمائی ھے ۔
قران مجید میں ان فرائض کی نشاندھی کی گئی ھے :
” و امرت لا عدل بینکم “ (۲۹) ” مجھے یہ حکم دیا گیا ھے کہ تمھارے ما بین عدل قائم کروں “ ” فاحکم بینھم بالقسط “ (۳۰)” لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو!“
مومنین سے خطاب ھے:
کونوا قوامین للہ شھدا ء بالقسط (۳۱)” ُخداکیلئے انصاف کے ساتھ گواہ بننے کیلئے تیار ھو “
عدل و انصاف قائم کرنا الٰھی حکومت کا مقدس فریضہ ھے اور یہ فریضہ انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور امت مسلمہ کی ھر فرد پر عائد ھوتا ھے کہ اپنی طاقت و توانائی کے مطابق اسے پورا کرنے کی جد و جھد کرے ۔ ظلم کا خاتمہ اور ظالموں کو ان کے اصلی ٹھکانے تک پھنچانے میں ذرہ برابربھی تامل نھیں کرنا چاھئے ۔ ظالموں کا ٹھکانا جھنم ھے ۔
” و اما القاسطون فکانوا لجھنم حطبا “ ( ۳۲) ” اور رھے نا فرمان ، تو وھی جھنم کے کندے بنے ۔“
مکتب فکر اور قیادت کے تحت اتحاد
اسلامی حکومت کے دوسرے مقاصد و فرائض میں امت مسلمہ کے اتحاد کو مستحکم کرنا اور اس کی حفاظت کرناھے ۔
” کان الناس امة واحدة فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین و انزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ و ․․․․․․“ (۳۳)
” ابتدا میں سب لوگ ایک ھی حال پر تھے ۔ پھر خدا نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے انبیا ء بھیجے اور ان کے ساتھ بر حق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان جس بارے میں اختلاف ھے اس کا فیصلہ کریں ،،۔
بشریت کے اتحاد سے اختلاف و انتشار کے خطرے کو دو چیزیں دور کر سکتی ھیں، ایک مکتب فکر اور دوسری قیادت ۔ ان دونوں کا ذکر قران میں موجود ھے ۔ مکتب فکرسے مراد وہ دبستان و اسلوب فکر و عمل ھے جس کا ماخذ قران مجید اور وحی الٰھی ھے ۔ اور قیادت سے مراد پیغمبروں اور صالح افراد کی قیادت ھے ۔ امت مسلمہ کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں غیر صالح رھبروں کا دخل رھا ھے اور آج بھی امت مسلمہ کو اس افسوسناک المیہ کا سامنا کرنا پڑ رھا ھے ۔ حالانکہ اس وقت ایک ارب مسلمان دنیا میں موجود ھیںاور یہ افراد متحد ھوکر دنیا کے خونخوار دشمنوں کے مقابلے میں ایک عظیم الشان طاقت بن سکتے ھیں ۔ یہ امت اپنی ذاتی قوت، اپنی اسٹراٹیجک سیاسی و جغرافیائی حیثیت ، سونے، تیل کے زیر زمینی ذخائر اور اسلام پر بھروسہ کر کے دنیا کے تمام کاروبار کی باگ دوڑ اپنے ھاتھ میں لے سکتی ھے ۔ اس راہ میں ایک مشکل حکمران ھیں جو انسانی معاشرے میں فساد کی جڑ اور ممالک کےلئے کینسر بن چکے ھیں ۔ قران کے حکم کے مطابق اس طرح کی حکومتوں کی بیخ کنی کرنا چاھئے تاکہ امت متحد ھو کر ایک صالح قیادت کے تحت اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کر سکے ۔ یہ قران کی ھدایت ھے۔ ” فقاتلوا ائمة الکفر ۔۔۔۔۔(۳۴) وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة “ ۔(۳۵)
ارتقائے انسانیت
زندگی کی اصلی غایت انسان کی ارتقا ھے اوراگر شریعت کی تشریع اور پیغمبروں کی بعثت اسی مقصود کو عملی جامہ پھنا نے کے لئے ھوئی ھے تو یقینی طور پر اس غرض کو پورا کرنے میں حکومت کا کردار نا قابل انکار ھے ۔
ملکوں کی تباھی اور انسانوں کی گمراھی زیادہ تر ظالم و جابر حکام کے زیر نگرانی ھوئی ھے اور یھی وجہ ھے کہ قران مجید بار بار ان کا ذکر کرتا ھے ۔
” و لقد ارسلنا موسیٰ باآیاتنا و سلطان مبین الیٰ فرعون و ملائہ فاتبعوا امر فرعون و ما امر فرعون برشید ، یقدم قومہ یوم القیامة فاوردھم النار و بئس الورد المورود “(۳۶)
” اور بے شک ھم نے موسیٰ (ع) کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ فرعون اوراس کے سرداروں کے پاس بھیجا پھر ان سب نے فرعون ھی کے حکم کی تعمیل کی ۔ حالانکہ فرعون کا حکم سچائی سے موافق نہ تھا ۔ قیامت کے دن فرعون اپنی قوم کے آگے آگے آئے گا اور ان سب کو جھنم میں پھنچا دے گا اور وہ کیسی بری اترنے کی جگہ ھو گی جھاںوہ اتریں گے “
طاغوتی حکام انسانی ارتقا میں رکاوٹ ڈالتے ھیں ،انھیں روکنا ٹوکنا چاھئے ۔ ” فمن یکفر بالطاغوت و یوٴمن باللہ فقد استمسک بالعروة الوثقیٰ لاانفصام لھا “ (۳۷)” جو طاغوت کا انکارکرے اورخداپر ایمان لائے اس نے خدا کی ایسی مضبوط رسی کوپکڑلیا ھے جو ٹوٹنے والی نھیں ھے ۔
خدا پر ایمان اور طاغوت کاانکار ، مکتب توحید کی پھلی شق ھے : ” و لقد بعثنافی کل امة رسولا ان اعبدو اللہ و اجتنبوا الطاغوت “ (۳۸)
” اور ھم نے ھر قوم کے لئے ایک رسول بھیجا ، جوان سے کھے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت ( شیطان ) سے دوری اختیار کرو “
در اصل ارتقاء و وحدت ، صالح افراد کی حاکمیت یعنی قانون ، سیاست اور دینی ثبات ھی کے زیر سایہ ممکن ھے ، اور کفر ، ضلالت اور تباھی طاغوتی سر براھوں کا وہ پیشہ ھے جس سے وہ باز نھیں آسکتے ۔لھذا اصلاح طلب افراد کا ایمانی و انسانی فریضہ ھے کہ انسانی ارتقا کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے عناصر کو فناکے حوالے کر دیں ، تاکہ انسانیت بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کر سکے ۔ اس کے لئے یہ ضروری ھے کہ جس طرح سے حضرت ابراھیم (ع) ،موسیٰ ، حضرت محمد مصطفیٰ اور اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء و اولیاء نے عمل کیا اسی طرح عمل کیا جائے ۔ خاتم انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ نے اپنی اعلانیہ دعوت کے دوران تمام ممالک کے سربراھوں کو پیغام روانہ کیے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ظلم و ستم ڈھانے سے باز آکر تسلیم حق ھو جائیں یا مکے کے قبائلی سرداروں ، ثروت مندوں اور سود خواروں کو تنبیہ کی تھی کہ وہ محروم افراد کے استحصال سے باز آجائیں ۔ آپ پیش قدمی کرتے رھے یھاں تک کہ ان علاقوں ، حکومتوں اور قبائلی سرداروں کے افکار و خیالات میں موجود فساد کی جڑوںکو ریشہ کن کر کے ایسی اسلامی حکومت کی سنگ بنیاد رکھی جو خدا پر ایمان اور انسان کی قد ر وقیمت کی قائل ھے ۔ ” کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیاتنا و یزکیکم و یعلمکم الکتاب و الحکمة و یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون “ (۳۹)
” جیسے ھم نے تم ھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ھماری آیتیں تم کو پڑھ کر سناتا ھے،تم کو پاکیزہ کرتا ھے، تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے اور تم کو وہ سب کچہ سکھاتا ھے جو کچہ تم نھیں جانتے تھے “ ۔
قرآن مجید تربیت اور تزکیہ کے لحاظ سے رھبروں کی ذمہ داری کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ھے ۔
” الذین ان مکنا ھم فی الارض ․․․․․․․․․․ وللہ عاقبة الامور “ (۴۰)
”یھی وہ لوگ ھیں جن کو ھم نے زمین میں اقتدار دیاتوانھوں نے نمازقائم کی اور زکوٰة ادا کی ،اور نیک کاموں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور تمام کاموں کا انجام اللہ ھی کے ھاتھ میںھے ۔
اس لحاظ سے سیاسی رھبروں کی ذمہ داری محض یھی نھیں ھے کہ ملک کے اقتصادیات، سیاست اور امن و امان ھی کو بحال کریں ، بلکہ اخلاق ، ایمان ، عمل ، تقویٰ ، احسان کوبحال کرنے اور فساد و منکر کو اپنی حکومت کے دائرے سے ختم کرنے کی ذمہ داری اس سے بڑھ کر ھے ، در حقیقت یہ بڑی خصوصیت ھے جو اسلام کے سیاسی نظام کو دوسرے سیاسی نظاموں پر فوقیت عطا کرتی ھے ۔
اسلامی نظام میں حقوق
حقوق بھی اسلامی سیاست کا ایک حصہ ھیں اور اس مفروضہ کی بنا پر حقوق سے وابستہ قوانین کا تعین اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسی طرح قانونی حیثیت کا حامل ھے جس طرح سے دین اسلام کی بنیاد پر مبنی اسلامی عدالتوں کے قوانین و مقررات کوقانونی حیثیت حاصل ھے ۔
قران مجید میں غیر شرعی اور غیر قانونی عدالتوں کا ذکر طاغوت کے عنوان سے کیا گیا ھے اور ان کی اطاعت قبول کرنا طاغوت کی اطاعت قبول کرنے کے برابر بتائی گئی ھے ، جبکہ عدالت اور انصاف کا تعلق صرف اللہ ، اس کے رسولوں اور ان کی پیروی کرنے والوں سے ھے ۔

(۵) ” یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واحسن تاویلا “ ” الم تر الی الذین یزعمون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان یضلھم ضلالا بعیدا “ (۴۱)
” اے ایمان لانے والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم ھی میں سے ھیں پھر اگر کسی معاملے میں تم میں آپس میں جھگڑا ھو تو فیصلے کےلئے اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹادو بشرطیکہ تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ھو ۔ یھی سب سے بھتر اور عمدہ تاویل ھے ۔ کیا تم نے ان کو نھیں دیکھا جو یہ گمان کرتے ھیں کہ جو کچہ تم پرنازل کیا گیا اور جو کچہ تم سے پھلے نازل کیا گیا وہ سب پر ایمان لائے ھیں اور چاھتے ھیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم دیا جا چکا ھے کہ اس کے منکر ھوں اور شیطان یہ ارادہ رکھتا ھے کہ ان کو بھٹکا کر بڑی گمراھی میں ڈال دے۔
انآیتوں میں ان لوگوں کی سخت مذمت کی گئی ھے جنھوں نے غیر شرعی اور غیر قانونی عدالتوں کے فیصلوں کو مانا اور ان پر عمل کیا ھے حالانکہ اسلام کے سیاسی، قانونی اور سماجی نظام میں حاکمیت اور قضا کے قانونی مقام کا تعین اللہ ، اس کے رسول اور والیان حق کے ذریعے ھونا لازمی ھے اور جو حکم ان کی جانب سے صادر ھو اس پر عمل کرنا بھی ضروری ھے۔
” و ما کان لمؤمن و لا مؤمنة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقد ضل ضلالا مبینا “ (۴۲)” کسی مومن مرد کے لئے یہ بات مناسب ھے نہ کسی مومن عورت کے لئے کہ جب خدا اور اس کے رسول نے ایک بات طے کر دی تو پھر انھیں اپنے اس معاملہ میں کچہ بھی اختیار ( باقی ) رھے ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا یقینا وہ تو کھلی گمراھی میں پڑے گا “
افراد اور اسلامی معاشرے سے وابستہ قوانین کی ضمانت شرع مقدس اور اس کے قوانین و مقررات کی روشنی میں ان شرعی حاکموں کے ذریعے ھوتی ھے جو اسلامی نظام میں والیان صالح کے ذریعے مقرر کیے جاتے ھیں ۔
قرانی آیات کی بنا پر اب تک اسلام کے سیاسی نظام میں حکومت کے اغراض و مقاصد اور فرائض کے بارے میں جو کچہ معروضات پیش کیے جا چکے ھیں ان کا خلاصہ یہ ھے :
۱۔ مکتب حق یعنی اسلام کی حفاظت ،جو تمام فضیلتوں کی اساس ھے ۔
۲۔ طاغوت سے جنگ ،جو تمام خبائث اور تباھیوں کی جڑ ھے ۔
۳۔ مستضعفین کی حمایت اور غریبوں کی مدد ،جو دستور قران کی بجا آوری ھے ۔
۴۔ محروموں کے حقوق چھیننے اور غصب کرنے والوں کو کچلنا ۔
۵۔حق ،انصاف اور مساوات کی بنیادوںپر انفرادی اور سماجی حقوق کو محفوظ رکھنا ۔
۶۔ ملک کے اقتصادیات کو فروغ دینے کی غرض سے تبعیض اور استحصال پر قابو پانا ۔
۷۔ اتحاد کو محفوظ رکھتے ھوئے اختلافات کو ختم کرنا ۔
۸۔ انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ارتقا کے لئے شائستہ مکتب فکر اور رھبری کی بنیاد پر لوگوں کو تربیت دینا ۔
اسلام میں نظام حکومت
دوسرا قابل بحث موضوع اسلام میں سیاسی نظام ھے ۔ نظریات ، فلسفوں ، عرف عام اور رسم و رواج کے نقطہ نظر سے سیاسی نظام اور حکومت کی قسمیں مختلف ھیں ۔حضرت عیسیٰ (ع) مسیح کی ولادت سے چار صدی پھلے یونانی معاشرے میں ارسطو نے ” سیاست “ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی تھی جس میں تین طرح کی حکومتوں کی طرف اشارہ کیا گیاھے : استبدادی ( شخصی ) ، اشرافی ( بالا طبقے کی حکومت ) اور ڈیموکریسی ۔ تاریخ علم سیاسیات کی طویل مدت میں ڈیموکریسی حکومت سب سے بھتر سمجھی گئی ھے ، اس سے قطع نظر کہ مفاھیم میں کس قسم کے اختلافات موجود ھیں ، لوگ اس سے کیا مراد لیتے ھیں اور کس حد تک یہ لفظ صحت و سقم پر مبنی ھے ۔ ھمارا مقصد صرف اتنا ھے کہ اسلامی سیاست و حکومت، مذکورہ حکومتوں میں سے کس حکومت سے مماثلت رکھتی ھے ؟
اس سوال کے جواب میں قرانی آیتوں پر غور و فکر کرنے کے بعدھم اس نتیجہ پر پھنچتے ھیں کہ اسلامی معاشرے میں سیاست کا مفھوم ڈیموکریسی کے اس مفھوم سے قریب ھے جس میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب شامل نہ ھو، لیکن ان دونوں کے درمیان وہ بنیادی اختلاف بھی موجود ھے جو اسلامی نظام میں روح سیاست کے تشخص کا باعث ھوتا ھے اور وہ ھے حاکمیت خدائے لا یزال ۔
اس موضوع کو مزید واضح کرنے کی غرض سے قران مجید کی روشنی میں ان اصولوں کو پیش کیاجا رھاھے جن سے حکومت کو قانونی حیثیت ملتی ھے اور اس کے بعد مذکورہ خصوصیت کا تفصیلی جائزہ لیاجائے گا ۔
حکومت کے بروئے کار آنے کی صورتیں
۱۔ نص : یعنی خدا اور رسول کی طرف سے تعین ۔یہ امتیاز در اصل پیغمبر و امام کو حاصل ھوتا ھے ، پھر نتیجةً” ولی فقیھہ کو ، بشرطیکہ اس میں نبی و اوصیائے نبی کے بیان کردہ اساسی صفات پائے جاتے ھوں ۔ جیسا کہ آیۂ ذیل سے واضح ھے ۔

”یاایھاالذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم “ (۴۳) ” اے ایمان لانے والو ، اللہ رسول اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم ھی میں سے ھیں “ ۔
۲۔ شوریٰ یعنی ارباب حل و عقد جو عوام کی نظر میں مقبول ھوں وھی آپس میں مشورہ کر کے نیک اور صالح ترین شخص کو انتخاب کر سکتے ھیں ۔
۳۔ رائے عامہ : نص صریح کی عدم موجودگی میں عوام ، اسلام میں مذکورہ صفات و خصوصیات کے حامل شخص کو حکمرانی کے لئے انتخاب کر کے اسے اسلامی معاشرے میں سیاست کرنے کی ذمہ داری سونپ سکتے ھیں ۔
لیکن انتخاب ھو یا شوریٰ ان دونوں کے نتیجہ میں ایک بنیادی نکتہ جو لوگوں کی فکر و توجہ کا مرکز اور جس کے ذریعے اسلامی نظام دوسرے نظاموں سے ممتاز قرار پاتا ھے ، اسلامی سیاست کے معاملوں پر ولی امر کی نظارت کا مسئلہ ھے ، جسے ھر حالت میں ھونا چاھئے ۔ اس بات کی وضاحت ضروری ھے کہ ولایت امر کا تعلق صرف پیغمبر و امام (ع) اورزمانہ غیب میں جبکہ پیغمبر و امام تک رسائی ممکن نھیں ،اس فقیہ سے ھے جسکے اندر وہ تمام شرائط پائی جاتی ھوں جو ولی امر کے لئے بیان کی گئی ھیں ۔ ولی امر لوگوں سے مشورہ اور رائے طلب کرنے کے بعد منظور ھونے والی قرار دادوں پر غور و فکر کر کے ان کو منظور یا نا منظور کر سکتا ھے اور یہ حق ولی امر کے لئے ھمیشہ سے محفوظ ھے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ھے : ” و شاور ھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “ ” آیت میں مشورہ کرنے پر زور ضرور ھے لیکن آخری فیصلہ کرنا پیغمبر کے ذمے ھے وہ بھی خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے “ ۔
لھذا اسلام کے سیاسی نظام میں شوریٰ اور رائے عامہ کی خصوصیت یہ ھے کہ دوسرے سیاسی نظام میںصرف شوریٰ اور رائے عامہ پر ھی زور دیتے ھیں اور خدا و پیغمبر سے ان کا کوئی واسطہ نھیں ھوتا جبکہ اسلامی سیاست کا زور زیادہ تر خدا اور بندوں کے درمیان حکومت میں پیغمبر کی نظارت پر ھوتا ھے ۔
جو حاکمیت ولی امر کے ذریعے عملی شکل اختیار کرتی ھے ، در حقیقت اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ھے ، البتہ لوگ بھی فکر و نظر کے مالک ھیں لیکن یہ فکر و نظر بطور مطلق نھیں بلکہ اس شرط پر ھے کہ ان کے افکار و خیالات احکام و قوانین الٰھی سے مطابقت اور ولایت امر سے موافقت رکھتے ھوں ۔” لتحکم بین الناس بما اراک اللہ “ (۴۴)
اسلام کے سیاسی نظام میں قوانین کے ماخذ
گذشتہ بحثوں کے دوران اشارہ کیا جا چکا ھے کہ اسلام کے سیاسی نظام میں احکام و قوانین وحی سے ماٴخوذ ھیں جو عالم غیب سے آنحضرت پر نازل ھوئے اور بعد میں ان کے قول و فعل سے اس کی تعبیر کی گئی ۔ امت مسلمہ کے اعتقاد کے مطابق ، قران مجید ان تمام اصولوں اور احکام و قوانین پر مشتمل ھے جو ھر دور اور ھر زمانے کے لحاظ سے انسانوں کی ضرورت کو پورا کرتے ھیں، لھذا ھر زمانے میں رونما ھونے والے مسائل اور جزئیات کو اس کلیہ پر منطبق کر کے ھر وقت نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ھے ۔

فقہ میں اجتھاد کا مسئلہ ایک خاص مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ ھر زمانے میں احکام و قوانین کا نفاذ ممکن ھے ۔ کیونکہ اس کا سر چشمہ ” قران و حدیث “ ھے ۔ قران و سنت سے ھر مسئلہ ، ھرضرورت اور ھر مشکل کا حل ملتا ھے ۔لھذ اسلام ،سیاست و ریاست اورقانون و ائین میں کبھی خاموش نظر نھیں آتا ۔ اجتھاد انسان کے انفرادی ، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی مسائل و معاملات میں معقول حل دریافت کر سکتا ھے ۔ ” لتحکم بین الناس بما اراک اللہ “(۴۵)
قوانین کے نفاذ کی ضمانت
اسلام کے سیاسی نظام میں اگر چہ احکام الٰھی کے نفاذ کی زیادہ تر ذمہ داری ملک کے سر براہ پر عائد ھوتی ھے ، لیکن امت کا ھر فرد بھی اس بات کا پابند ھے کہ وہ نفاذ قوانین میں خود کو ذمہ دار سمجھے ، کیونکہ اسلامی نظام میں قوانین محض خشک و جبری ضوابط نھیں ھیں جس سے لوگ اکتا کر بھاگ جائیں بلکہ ان کا شمار ان فرائض میں ھوتا ھے جن کو ایک مسلمان خدا سے لگاؤ اور اس کی خوشنودی اور سعادت حاصل کرنے کے لئے انجام دیتا ھے یھی وجہ ھے کہ اس طرح کے نظام میں قوانین کا نفاذ اسلامی حکومت کے لئے زحمت پیدا نھیں کرتا ، اگر چہ ھر معاشرے میں کچہ ایسے افراد ضرور ھوتے ھیں جو قانون شکنی پر کمر بستہ رھتے ھیں ۔اسلامی حکومت ایسے افراد سے نپٹنے کے لئے قانونی اور شرعی سزائیں دینے کی مجاز ھے اور اسلام کا قانون سزا ایسے ھی افراد کے لئے وضع کیا گیا ھے ۔ اس کے مقابلے میں معاشرے کے وہ افراد بھت نمایاں ھیں جو فکری و عملی طور پر خوشی خوشی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ھیں :

” انما کان قول المؤمنین اذا دعوا الی اللہ و رسولہ لیحکم بینھم ان یقولوا سمعنا و اطعنا و اولئک ھم المفلحون “ (۴۶)” جس وقت بھی مومنین خدا اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلائے جائیں کہ رسول ان کے ما بین فیصلہ کرے توان کا قول اس کے سوا اور کچہ ھوتا ھی نھیں کہ وہ کھتے ھیں کہ ھم نے سنا اور اطاعت کی اور وھی فلاح پانے والے ھیں ۔
” فلا و ربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم “ (۴۷)” خدا کی قسم وہ ایمان ھی نھیں لائینگے جب تک کہ اپنے ذاتی اختلافات میں تمھیں حَکَم نہ بنا لیں ۔
اسلامی معاشرے میں تو یھاں تک ھے کہ اگر کوئی مسلمان گروہ جھگڑا تا ھے تو تمام مسلمان اس گروہ کی اصلاح کرنے کے پابند ھیں اور اگر اصلاح طلب کو ششیں کرنے کے با وجود بھی فریق مخالف نہ مانے تو ان کے ساتھ وہ رویہ اختیار کریں جس سے ان کے فساد کا خاتمہ ھو جائے اور تمام اسلامی خطوں میں حق پھیل جائے ۔
” و ان طائفتان من المومنین ․․․․․․․․․ان اللہ یحب المقسطین “ (۴۸)
” اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان کے ما بین صلح کرا دو ، پھر اگر ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو جو زیادتی کرتا ھے اس سے لڑو تا آنکہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف رجوع کرے ، اس وقت انصاف سے ان دونوں کے ما بین صلح کر دو اور انصاف بر تو ۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے“ ۔
انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا یہ مطلب نھیں کہ ھتھیار ڈال دیے جائیں اور مظلوم و ظالم کی پھچان نہ ھو سکے ، بلکہ اگر کسی مسلمان کی عزت و آبرو یا مال پر حملہ ھوتا ھے تو ظالم کو سزا ملنا چاھئے اور ھر صاحب حق کو اس کا حق ملنا چاھئے ۔ عدل و انصاف کا مطلب غصب شدہ حقوق واپس دلانے کے ھیں اور ان دونوں کا تعلق نا قابل تفکیک ھے ، لھذا صلح و انصاف کو ایک دوسرے کے ساتھ ھم آھنگ ھونا چاھئے تاکہ ظالموں کو سزا ملنے کے بجائے حوصلہ افزائی نہ ھو ۔
بھر حال اسلام کے سیاسی نظام سے وابستہ تمام امور میں قوانین کا ھونا لازمی ھے خواہ داخلی ھوں یا خارجی ،تاکہ اسلامی نظام افرا تفری سے بچ سکے اور امن و امان باقی رھے نیز لوگوں کے فردی و سماجی حقوق پامال نہ ھوں ۔
اب تک جن نکات پر بحث ھوئی ان کی مدد سے یہ بات واضح ھو گئی کہ تین ادارے ( مقننہ ، قضائیہ اور مجریہ ) ھر نظام کے ارکان شمار کیے جاتے ھیں ، اسلام کے سیاسی نظام میں ان اداروں کو قانونی حیثیت کھاں سے حاصل ھوتی ھے ؟ ان کے اغراض و مقاصد کیا ھیں ؟ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کا تعلق ھے ؟ اور اس کے مد مقابل عوام کا فرض کیا ھے؟ اس بحث میں آج کل کی سیاست میں منصوبوں اور پروگراموں کے نفاذ پر گفتگو کی جا سکتی ھے لیکن اس کی جزئیات پر بحث سر دست ممکن نھیں ھے ۔
عوام اور حکومت کا ایک دوسرے سے تعلق
اسلام کے سیاسی نظام میں عوام اور حکومت کا ایک دوسرے سے تعلق حاکم و محکوم ظالم و مظلوم اور طاقتور و کمزور جیسا نھیں ھے بلکہ یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ، عوام کے عزم و استقلال ، محبت ،تعاون اور ایمان و صداقت پر مبنی ھے ۔ یعنی وھی طرز عمل جو پیغمبر اسلام اور اللہ کے دیگر انبیاء و رسول نے اختیار کیا تھا ۔
قرآن کریم نے پیغمبر اکرم کے مقصد بعثت کی وضاحت کرتے ھوئے اس نکتہ پر خاص توجہ دلائی ھے کہ پیغمبر اکرم کی تحریک کا سارا دار و مدار اس پر تھا کہ وہ ان زنجیروں کو توڑ دیں جو اس زمانے کے لوگوں کو غلامی کے بندھن میں جکڑے ھوئے تھیں ۔

” و یضع عنھم اصرھم و الاغلال التی کانت علیھم “ (۴۹)
” یھی ولایت ھے جس کی بنیاد پر پیغمبر اور اولی الامر لوگوں پر حکومت کرتے ھیں “
” النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم “ ” نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ اختیار رکھنے والا ھے “ ۔
” فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجد وا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما “ (۵۰)
” تمھارے پروردگار کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہ ھوں گے جب تک کہ ان جھگڑوں میں جو ان کے درمیان ھوتے ھیں تم کو حاکم نہ بنا لیں پھر جو کچہ تم فیصلہ کر دو اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اس کو اس طرح تسلیم کر لیں جیسا کہ تسلیم کرنے کا حق ھے ۔
اس طرح کے نظام میں جس کی بنیاد ولایت ، ھم آھنگی اور مشترکہ مقاصد پر استوار و محکم ھے ، نہ صرف عوام اور حکومت ایک دوسرے سے جدا نھیں بلکہ عوام حکومت سے غافل نھیں رھتے ، نتیجةً نظام کی حفاظت اصلی اعتبار سے عوام و امام اور حکومت کے اتحاد پر منحصر ھو تی ھے۔

سیاسی مسائل میں علماء و عوام کی ذمہ داری
علماء دین جو اسلامی معاشرے میں صاحب فکر و نظر اور ھدایت و رھبری کے ذمہ دار سمجھے جاتے ھیں ، سیاسی مسائل میںبھی ان کی ذمہ داری عظیم و موثر ھے۔ قران کریم نے اھل کتاب کے مذھبی پیشواؤں میں سے ان افراد کی سخت مذمت کی ھے جنھوں نے مظالم دیکہ کر بھی ظلم کو روکنے کی کوشش نھیں کی ۔ جبکہ قران مجید امت مسلمہ کے ھر فرد اور خاص طور پر علماء دین کو امربالمعروف و نھی عن المنکر اور ظلم و ستم و بدعت ختم کرنے کی دعوت دیتا ھے ۔
” لولا ینٰھھم الربانیون و الاحبار عن قولھم الاثم و اکلھم السحت لبئس ما کانو ا یصنعون “(۵۱),, آخر اللہ والے اور علما ء ان کو جھوٹی بات کھنے اور حرام خوری سے کیوں نھیں منع کرتے یقینا جو کچہ وہ کرتے ھیں ‘بھت برا کرتے ھیں ،،
” لعن الذین کفر و امن بنی اسرائیل علی لسان داؤد و عیسیٰ ابن مریم ذالک بماعصوا و کانوا یعتدون ،کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ما کانوا یفعلون “ (۵۲)
” بنی اسرئیل میں سے جو کافر ھو گئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنت کی گئی ۔ یہ اس لئے کہ وہ نا فرمانی اور زیادتی کیا کرتے تھے اس سے وہ باز نہ آتے تھے ، ضرور جو کچہ وہ کرتے تھے وہ بھت ھی برا تھا “ ۔
مذکورہ آیتیں ، ظلم سے مفاھمت کرنے والوں اور ان علمائے دین کو جو ظلم کے سامنے سکوت اختیار کرتے ھیں ، کافروں میں شمار کرتی ھیں اور خدا و پیغمبر کی لعنت کا مستحق سمجھتی ھیں ۔
مذھبی علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری ان جابر و ظالم حکمرانوں کے اعمال پر نظارت اور ان پر قابو پانا ھے ۔ مسند اقتدار پر بیٹھ کر دینی مقدسات اور لوگوں کی عزت و آبرو سے کھیلنے والوں کے سامنے سکوت اختیار کرنا نا قابل معافی جرم اور سخت عذاب کا باعث ھے ۔

عوام کی ذمہ داری
اس اھم مسئلہ میں عوام کی ذمہ داریوں کوبھی معمولی نھیں سمجھنا چاھئے ، الٰھی عذابوں میں سے ایک عذاب لوگوں پر فاسد افراد کی حکومت ھے ، اس بارے میں قران مجید کا بیان ھے :
”واذا اردنا ان نھلک قری امرنا مترفیھا ففسقوا فیھا فحق علیھا القول فد مرنا ھاتد میرا “ ( ۵۳)
” اور ھم جب کسی بستی کو(ان کے اعمال کی بناء پر ) ھلاک کر دینے کا ارادہ کرتے ھیں توھم اس بستی کے عیش پرست افراد کو حکم دیتے ھیں پس وہ نا فرمانی کرنے لگتے ھیں پھر وہ بستی عذاب کی مستحق ھو جاتی ھے اور ھم تھس نھس کر دیتے ھیں “ ۔
ظاھر ھے کہ اللہ تعالیٰ کے انصاف اور حکمت کی بنا پر یہ ” ھلاکت “ جو صاحب اقتدار ظالم و جابر افراد کے ذریعے عملی شکل اختیار کرتی ھے ، اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اقدام نھیں کھا جا سکتا ، بلکہ یہ ایک طرح کا عذاب ھے جس کا سامنا لوگوں کو ظلم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور سکوت اختیار کرنے کی وجہ سے کرنا پڑ رھا ھے ۔ جیسا کہ آیتیں بھی اسی طرف اشارہ کرتی ھیں :

” ذالک ان لم یکن ربک مھلک القریٰ بظلم و اھلھا غافلون “ (۵۴)
” (یہ رسولوں کا بھیجنا ) اس لئے ھے کہ تمھارا رب بستیوں کو نا حق بر باد نھیں کرتا درآنحالیکہ ان کے باشندے بالکل غافل و بے خبر ھوں “ ۔
اللہ کا طریقہ کار یہ ھے کہ شروع میں خبر دار کرتا ھے اور لوگوں کی سیاسی ، عبادی ،سماجی ، اخلاقی ، ثقافتی اور فوجی و دفاعی وغیرہ ذمہ داریوں کو معین کرتا ھے ،پھر نیک حکمراں کو ان پر حکومت کے لئے معین کرتا ھے ۔ اب اگر لوگ ایسے حکمراں کی اطاعت نھیں کرتے تو پھر اللہ ظالم حکمرانوں کو ڈھیل دیتا ھے ، اس طریقے سے اللہ کا عذاب ظالم و جابر افراد کے ذریعے لوگوں پر نازل ھوتا ھے ۔

لھذا لوگوں کو چاھئے کہ وہ اپنا مقدر سنوار نے کی خاطر نیک رھبروں کی قیادت میں استکباری طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ھو جائیں تاکہ اللہ کی حاکمیت جو ایسے ھی نیک افراد کی حاکمیت ھے ، عملی جامہ پھن سکے ، اس لئے کھ:

” و ان الارض یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبة للمتقین “ ” زمین خدا کی ھے ، اپنے بندوں میں سے جسے چاھے وارث بنا سکتا ھے لیکن کامیاب وھی لوگ ھوں گے جو پرھیز گار اور متقی ھوں ۔

حوالے

۱۔ سورہ نمل آیت ۳۴

۲۔سورہ بقرہ ۲۴۷

۳۔سورہ آل عمران آیت ۲۶

۴۔سورہ بقرہ آیت ۲۵۱

۵۔سورہ ص ۲۶

۶۔سورہ نمل آیت ۱۶۔۱۷

۷۔سورہ یوسف آیت ۵۴تا۵۶

۸۔کھف ۸۳،۸۴

۹۔سورہ یوسف ۴۰

۱۰۔سورہ غافر آیت ۱۲

۱۱۔سورہ مائدہ آیت ۵۰

۱۲۔سورہ انعام آیت ۵۷

۱۳۔ سورہ نساء آیت ۵۶

۱۴۔ سورہ مائدہ آیت ۴۲

۱۵۔سورہ نساء آیت ۵۸

۱۶۔سورہ مائدہ آیت ۵۵

۱۷۔سورہ احزاب آیت ۶

۱۸۔ سورہ نساء آیت ۵۹

۱۹۔سورہ شعراء آیت ۵۱ ۱،۱۵۲

۲۰۔سورہ ھود ۵۹

۲۱۔سورہ ھود ۹۷

۲۲۔ سورہ بقرہ آیت ۱۲۴

۲۳۔سورہ انبیاء آیت ۷۳

۲۴۔سورہ توبہ آیت ۱۲

۲۵۔سورہ بقرہ آیت ۱۹۳

۲۶۔ سورہ قصص آیت ۴

۲۷۔ سورہ قصص آیت ۵

۲۸۔سورہ حدید آیت ۲۵

۲۹۔سورہ شوریٰ آیت ۱۵

۳۰۔سورہ مائدہ آیت ۴۲

۳۱۔ سورہ مائدہ آیت ۸

۳۲۔سورہ جنآیت ۱۵

۳۳۔سورہ بقرہ آیت ۲۱۳

۳۴۔سورہ توبہ ۱۲

۳۵۔سور ہ بقرہ ۱۹۳

۳۶۔سورہ ھودآیت ۹۶تا ۹۸

۳۷۔سورہ بقرہ ۲۵۶

۳۸۔سورہ نحل ۳۶

۳۹۔سورہ بقرہ آیت ۱۵۱

۴۰۔ سورہ حج آیت ۴۱

۴۱۔ سورہ نساء آیت ۵۹تا ۶۰

۴۲۔سورہ احزاب آ یت ۳۶

۴۳۔سورہ نساء آیت ۵۹

۴۴۔سورہ نساء ۱۰۵

۴۵۔نساء ۱۰۵

۴۶۔سورہ نور آیت ۵۱

۴۷۔نساء ۶۵

۴۸۔سورہ حجرات آیت ۹

۴۹۔سورہ اعراف آیت ۱۵۷

۵۰۔سورہ نساء آیت ۶۵

۵۱۔سورہ مائدہ آیت ۶۳

۵۲۔سورہ مائدہ آیت ۷۸،۷۹

۵۳۔سورہ اسراء آیت ۱۶

۵۴۔سور ہ انعام آیت۱ ۱۳