نکاح کے انسانی زندگی پر اثرات
مقدمہ
زیر نظرمقالہ کا موضوع تحقیق کے لئے اس لئے منتخب کیا گیا تاکہ اسلام میں نکاح کی اہمیت اور اس کے معاشرہ پر اثرات کا مختصر مگر جامع جائزہ پیش کیا جا سکے۔ اس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے کہ موضوع کو ادق نہ بنایا جائے تاکہ اسلامی نکاح کے نقطہ نظر کو سہل انداز کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام زندگی کے ہر پہلو کے متعلق اصولی و تفصیلی ہر قسم کی رہنمائی کرتا ہے ۔ یہی بات دین ِاسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو عموماً عقائد ، عبادات، خاندانی نظام، معاشرتی نظام، معاشی نظام ، سیاسی نظام اور عدالتی نظام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تمام نظام باہم ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ جس کا لا محالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نظام کے متاثر ہونے سے ایک مسلمان کی ساری زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔ عقائد کی خرابی سے جہاں ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ وہیں معاشرتی نظام بگڑنے سے صحیح اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا۔
خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ معاشرے کو اگر ہم ایک بلند و بالا مضبوط عمارت سے تعبیر کریں تو خاندان اس کی اینٹ ہے۔ اگر اینٹ مضبوط ہو گی اور اپنی صحیح جگہ و مقام پر نصب ہو گی تو عمارت کی مضبوطی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اسی طرح اگر خاندان کا ادراہ مضبوط ہے اور صحیح بنیادوں اور أصولوں پر استوار ہے تو اس کے بنیاد پر قائم معاشرہ ایک مستحکم معاشرہ ہو گا۔ آج مغرب میں خاندان کا ادارہ تباہی کے دھانے تک پہنچ چکا ہے اور اس کے بنیادی وجہ یہی ہے کہ خاندان کے ادارے کو وحی کی تعلیمات کی روشنی میں استوار کرنے کی بجائے اپنے افکار و فلسفوں پر قائم کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغرب کے کئی ممالک میں جب بچے کو سکول میں داخل کروایا جاتا ہے تو داخلہ فارم میں صرف ماں کے نام کا اندراج ہوتا ہے کیونکہ باپ کا تو پتہ نہیں ہوتا۔ یہ صرف اس وجہ سے ہوا کیونکہ مغربی ممالک میں حقوق نسواں کے نام پر عورتوں پر ذمہ داریاں عائد کردیں جو مردوں کی تھیں۔ عورت کو گھر کی بجائے نوکری کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے اور مردو ں کی ہوس کا نشانہ بننے کے لیے آزاد کر دیا اور عام معاشرے میں فیشن کے نام پر ممکن حد تک ننگا رہنے کی فکر عام کی جارہی ہے۔
برضغیر میں مضبوط خاندانی نظام موجود تھا۔ خاندان اور برادری کی روایات سے انحراف کوئی آسان کام نہ تھا ، مگر نصف صدی کے اس میں وہ دم خم باقی نہیں رہا۔ اس کے بنیادی وجہ ہمارا میڈیا ہے جو اسلامی معاشرے کی بجائے مادہ پرست اور خود غرض مغرب کی سوچ کی نمائندگی اور عکاسی کر رہا ہے۔ نتیجے کے طور پر مغرب کی خرابیاں آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں سرایت کر رہی ہیں اور اعلیٰ خاندانی روایات کا حامل معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جو نہ تو روایتی مثالی معاشرہ رہا اور نہ ہی اسلام کے زرّیں اصول اس میں نظر آتے ہیں۔ دیہاتوں میں تو پھر بھی قدرے حالات بہتر ہیں مگر شہری آبادی کی حالت زیادہ قابل رحم ہے۔ جہاں مختلف علاقوں کے لوگ آکر آباد ہو رہے ہیں جن کو اپنے ہمسائے کے نام تک کا علم نہیں ہوتا ۔ جدید دور میں آزادی اور حقوق کے دل فریب اور پُر فتن نعرے کی آغوش میں مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل پا رہا ہے جس میں ایک طرف کسی قسم کی قدغن نہ ہونے کی وجہ سے گناہ اور غیر اخلاقی سرگرمیاں معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں اور دوسری طرف خاندانی نظام کے حصے بخرے ہو رہے ہیں۔ خاندانوں میں رائج عمدہ روایات دم توڑ رہی ہیں۔ان حالات میں جب اسلامی اصولوں کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے تو اس سے تیزی سے بگڑتےہوئے معاشرے کی ابتری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس پس منظر میں پوری دنیا کے لیے بالعموم اور اسلامی معاشروں کے لیے بالخصوص اس بات کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ دنیا کو خاندانی نظام کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے تاکہ بھٹکتی دنیا کی کشتی کو کسی کنارے لگایا جا سکے۔ اسلامی معاشرے جس طرح مغرب کی تقلید میں دوڑے چلے جا رہے ہیں ، ان کی بھی صحیح راستے کی طرف رہنمائی ایک بنیادی شرعی فریضہ ہے۔ یہ مقالہ اس شرعی فریضہ کی ایک معمولی سی علمی و تحقیقی کاوش ہے۔
پہلے باب میں نکاح کے معانی و مطالب اور اسلامی احکامات کو بیان کیا گیا ہے اور نکاح کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے باب میں نکاح کی اقسام اور مختلف مذاہب میں نکاح کا طریقہ کار اور رسم و رواج کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ باب سوم میں نکاح کے مقاصد اور اسلام طریقہ نکاح کی وضاحت کی گئی ہے اور حقوق زوجین پر مختصر تفصیل بیان کی گئی ہے۔ باب چہارم میں نکاح کے معاشرتی، اخلاقی، معاشی ، اقتصادی، روحانی، نفسیاتی اور دینی اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب پنجم میں حاصلات پر بحث کی گئی ہے اور آخر میں حاصل مقالہ اور سفارشات بیان کی گئی ہیں۔
باب اوّل
نکاح کا تعارف
نکاح
خاندان کے اجزائے ترکیبی میں ایک مرد ، ایک عورت اور ان کے بچے شامل ہیں اور خاندان کی بقا کے لیے مرد و عورت کا باہمی تعلق ضروری ہے۔ اس تعلق کے لیے تقریباً تمام مذاہب نے مرد و زن کے درمیان شادی کے بندھن یعنی نکاح کو لازمی قرار دیا ہے۔ ازدواجی تعلق کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ابو ریحان البیرونی لکھتے ہیں۔
”کوئی قوم ازدواج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس سے شہوانیت، جس کو ہر مہذب ذہن برا سمجھتا ہے بے لگام ہونے سے رک جاتی ہے اور ان وجوہات کا انسداد ہو جاتا ہے جو حیوانات کو ایسا مشتعل کر دیتے ہیں جن سے ان کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر آپ ان جانوروں پر غور کریں جو جوڑے کی شکل میں رہتے ہیں اور دیکھیں کہ اس جوڑے کا ہر فرد کس طرح دوسرے کی مدد کرتا ہے۔ اور جوڑا بن کر رہنے کی وجہ سے کہ کس طرح دوسرے جانورں کی شہوت سے محفوظ رہتے ہیں تو آپ بلا تامل یہ کہہ اُٹھیں گے کہ ازدواج ایک ضروری ادارہ ہے اور زنا ایک شرمناک عمل ہے جو انسان کو جانوروں کی سطح سے بھی نیچے گرا دیتا ہے حالانکہ حیوانات کا درجہ انسان سے بہت نیچے ہے“ ۱؎
تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ نکاح یا شادی بیاہ کا یہ ازدواجی تعلق اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان قدیم ہے۔ نسل انسانی کا پہلا شخص بھی ازدوجی تعلق سے سرشار تھا۔ شادی بیاہ کا یہ تعلق تقریباً دنیا کی تمام تہذیبوں میں کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہے۔ مرد و عورت کا یہ رشتہ حضرت آدم اور حضرت حوا کے ملاپ سے شروع ہوا اور ہر زمانے و تہذیب میں مختلف طریقوں سے رائج رہا ۔
بقول سید ابو الاعلیٰ مودودی :
”نکاح انسانی تمدن میں سب سے مقدم اور اہم مسئلہ ہے اور آج تک کے حکماء و عقلاء پریشان و سرگرداں رہتے ہیں کہ اجتماعی زندگی میں عورت و مرد کا تعلق کس طرح قائم کیا جائے کیونکہ یہی تعلق دراصل تمدن کا سنگ بنیاد ہے اور تکمیلِ انسانیت کے لیے شادی کی ضرورت ہر قوم اور ہر زمانہ میں اہم رہی ہے۔“ ۲؎
فصل اوّل
نکاح کا معنی و مفہوم
لفظ نکاح باب نَکحَ یَنْکِحُ (منع ، ضرب) سے مصدر ہے اس کے معنی ”جماع کرنا اور شادی کرنا“ مستعمل ہے ۔ اِسْتَنْکَحَ (استفعال) ” شادی کرنا“۔ اٰنکَحَ (افعال) ” شادی کرانا“۔ تَنَاکَحَ (تفاعل) ”ایک دوسرے سے شادی کرنا“۔ ۳؎
عربی اور اردو زبان میں نکاح کا لفظ رائج ہے جبکہ اردو میں نکاح کے مترادف الفاظ شادی ، بیاہ بھی رائج ہیں۔ انگریزی زبان میں اس کے لیے marriageکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
نکاح کے لغوی معنی:
نکاح کے لغوی معنی کے بارے میں علامہ عبدالرحمٰن الجزیری لکھتے ہیں:
”لغت کے رو سے اس کے معنی ”وطی“ (یعنی مباشرت یا جماع) اور باہم ملنے کے ہیں۔ چنانچہ درخت کی شاخیں جب ایک دوسرے سے مل جائیں اور وہ باہم پیوست ہو جائیں تو کہا جاتا ہے ”تناکحت الاشجار“ (یعنی درختوں کا ہجوم ہوگیا یا درخت گڈ مڈ ہوگئے) اور اس کا اطلاق مجاز (مرسل) کے عقد (نکاح) پر ہوتا ہے کیونکہ یہ سبب ہے مباشرت کا۔“ ۴؎
القاموس الفقھی لغۃُ و اصطلاحاً میں لغوی معنی اس طرح درج ہیں:
”لغت کی رو سے نکاح سے مراد اشیاء کو جمع کرنا ہے ۔ ایک شے کے دوسری میں پیوست ہونے یا جذب ہو جانے پر نکاح کا لفظ بولا جاتا ہے۔“ ۵؎
نکاح کے شرعی معنی:
نکاح کے شرعی معنی کے بارے میں عبدالرحمٰن الجزیری لکھتے ہیں:
”دوسرے معنی اصولی ہیں جسے شرعی معنی بھی کہتے ہیں ۔ اس بارے میں علماء کے تین مختلف اقوال ہیں۔ پہلا قول یہ ہے کہ نکاح کے معنی بالکل لغوی معنی کے طرح ”مباشرت“کے اور مجازی عقدِ نکاح کے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ معنی لغوی سابقہ کے برعکس نکاح کے حقیقی معنی ”عقد“کے ہیں اور مجازی معنی ”وطی“کے ہیں۔ اس کا ثبوت قرآن اور حدیث میں لفظ زیادہ تر عقد کے معنی میں مستعمل ہوا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ لفظ نکاح عقد اور وطی دونوں معنوں میں مشترک ہے۔ دارصل اقوال ثلاثہ میں سے یہ قول سب زیادہ قوی ہے۔“ ۶؎
نکاح کے فقہی معنی:
نکاح کے تیسرے معنی فقہی ہیں جس کی تعبیر فقہاء نے مختلف عبارتوں سے کی ہےلیکن مفہوم سب کا ایک ہے اور یہ ہے کہ عقدِ نکاح شارع نے اس لیے رکھا ہے کہ اس سے خاوند اپنی بیوی کے تمام جسم سے محفوظ ہو سکے ۔ علامہ الجزیری نے کتاب الفقہ میں حنفی، مالکی، شافعی فقہاء سے نکاح کی جو تعریفیں منقول ہیں ان کو بیان کیا ہے :
احناف کے نزدیک: نکاح ایک معاملہ ہے جو اس ارداہ سے کیا جائے کہ ایک شخص ملک متعہ کا مالک ہو جائے۔
شوافع کے نزدیک: نکاح ایک معاملہ ہے جس میں نکاح یا تزویج یا اس کے ہم معنی لفظ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اس سے مباشرت کی ملکیت حاصل ہو اور غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص لذتِ معلومہ سے تمتع کا مالک ہو جائے۔
مالکیہ کے نزدیک: نکاح محض جنسی لذت (یا عورت سے مباشرت) کے لیے ایک معاملہ ہے جو حصول لذت سے پہلے گواہوں کی موجودگی میں کیا جاتا ہے۔ ۷؎
نکاح کی تعریف:
مولانا مجاہد الاسلام نکاح کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” نکاح مرد و عورت کے درمیان شرعی اصولوں پر کیا گیا معاہدہ ہے جس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلق جائز اور پیدا ہونے والی اولاد کا نسب شرعاً ثابت ہو جاتا ہے اور باہم حقوق و فرائض عائد ہو جاتے ہیں۔ “ ۸؎
فصل دوئم
نکاح کی ضرور ت و اہمیت
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہٴ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظرمیں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیںہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے اوراسلام نے نکاح کوانسانی بقاء وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے اسلام نے تو نکاح کو احساسِبندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ آنحضرت ﷺنے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے:
”النکاح من سنّتی“ نکاح کرنا میری سنت ہے۔ ۹؎
آنحضرت ﷺ نے نکاح کو آدھا ایمان بھی قرار دیا ہے
”اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ“
جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میںاللہ سے ڈرتا رہے۔ ۱۰؎
نکاح انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ ارشاد ربانی ہے
﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً﴾ الرعد ۳۸ ۱۱؎
(اے محمد ﷺ) ہم نے آپ سے پہلے یقینا رسول بھیجے اورانہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا
اس ارشاد ربانی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام بھی صاحبِ اہل وعیال رہے ہیں۔ارشاد نبوی ﷺاس طرح ہے حضرت ابوایوب انصاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
رسولوں کی چار سنتیں ہیں: (۱) شرم و حیاکا خیال (۲) مسواک کا اہتمام (۳) عطر کا استعمال (۴) نکاح کا التزام۔ ۱۲ ؎
نکاح کی اہمیت ان احادیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہبن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
”اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے (یعنی نظرکو بہکنے سے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے) اور جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اسے چاہئے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھے۔“ ۱۳ ؎
اسی طرح ایک مرتبہ جب بعض صحابہ کرام نے عبادت و ریاضت میں یکسوئی و دلچسپی کے پیشِ نظر آنحضرت ﷺ سے اپنی قوت شہوت کو ختم کردینے کی خواہش ظاہر کی تو آنحضرت ﷺنے ایسا کرنے سے منع فرمایا اور شادی نہ کرنے کو زندگی سے فرار اختیار کرنا قرار دیا۔ اس لیے کہ اسلام زندگی سے فرار کی راہ کو بالکل ناپسند کرتاہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺہے:
”وَاللہِ اِنِّیْ لاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَہ وَلٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ“
بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ ے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کی ناراضگی سے بچنے والا ہوں (لیکن میرا حال) یہ ہے کہ میں کبھی نفل روزے رکھتا ہوں اور کبھی بغیر روزوں کے رہتا ہوں راتوں میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اور جو میرے طریقے سے منہ موڑے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔۱۴؎
انسان کسی قدر آرام طلب واقع ہوا ہے اور فطری طور پر راحت وسکون کامحتاج ہے اوراسی طرح فطری جذبات اورانسانی خواہشات کو پورا کرنے کا مزاجرکھتا ہے۔ راحت و مسرت، سکون و اطمینان اس کی فطرت میں داخل ہیں۔ انسان کواپنے مقصد تخلیق میں کامیاب ہونے عبادت میں یکسوئی و دلچسپی پیدا کرنے بندوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے اور اپنے متضاد جبلی اوصاف کو صحیح رخ پر لانے کے لیے نکاح انسان کے حق میں نہایت موٴثر ذریعہ اور کارآمد طریقہ ہے۔ اللہ نے نکاح میں انسان کے لیے بہت سے دینی ودنیاوی فائدے رکھے ہیں۔ مثلاً معاشرتی فائدے، خاندانی فائدے ،اخلاقی فائدے س،ماجی فائدے ،نفسیاتی فائدے غرضیکہ فائدوں اور خوبیوں کا دوسرا نام نکاح ہے۔
انسان کو نکاح کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون ذہنی اطمینان غرض کہ ہرطرح کا سکون میسر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا ﴾ اعراف ۱۸۹
وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنادیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے
اس آیت سے عورت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ ہے اورمرد کے لئے باعث سکون و اطمینان ہے لہٰذا جو مرد عورت کی قدر کرتا ہے وہ کامیاب اور پرسکون زندگی گزارتا ہے۔ اگر انسان نکاح سے جو انسانی فطری ضرورت ہے منہ موڑنے کی کوشش کرتا ہے تو انسان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نکاح کے بغیر سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ تاریخ میں چند استثنائی صورتوں اور چند مذہبی لوگوں کے افکار کے علاوہ دنیا میں ہمیشہ تمام انسان ہر زمانے میں شادی کو اہم ضرورت تسلیم کرتے آئے ہیں تاریخ کی روشنی میں شادی سے مستثنیٰ کبھی کوئی قوم مذہب اور ملت نہیں رہے ہیں۔ہر مذہب وملت میں مقررہ مراسم اور رواجات کے بغیر تعلقات مرد وعورت برے اوراخلاق سے گرے ہوئے سمجھے گئے ہیں اگرچہ ہر مذہب وملت میں شادی کے طور طریقے رسم و رواج الگ الگ رہے ہیں بحرحال شادی کی اہمیت پر سب متفق ہیں۔ ۱۵ ؎
٭٭٭٭٭
باب دوئم
دور جاہلیت اور دیگر مذاہب میں نکاح
فصل اول
اسلام سے قبل نکاح کی صورت حال
قبل از اسلام عرب میں نکاح کے مختلف طریقے رائج تھے۔ جن میں سے بعض کو تو نکاح کہنا ہی درست نہیں کیونکہ وہ سراسر زنا سے مشابہ تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ کی ایک روایت سے سے عرب کے دور جاہیت میں رائج نکاح کے طریقوں کا پتا چلتا ہے جو ان کی تہذیب کا حصہ تھے۔
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے۔ ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا۔
دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرا لے اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں۔ پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی، تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ ایسا اس لئے کرتے تھے تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو۔ یہ نکاح ”استبضاع“ کہلاتا تھا۔
تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے۔ پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکا ر نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہو جاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں! یہ بچہ تمہارا ہے۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا، وہ شخص اس سے انکار کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں جو نشانی سمجھے جاتے تھے۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا۔ اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کر دیتے اور وہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جا تا، اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔
پھر جب حضرت محمد ﷺحق کے ساتھ رسول ہو کر تشریف لائے آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔۱۶ ؎
مندرجہ بالا اقسامِ نکاح کے علاوہ بھی کئی اور اقسام کے نکاح بھی تھے ان سب کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ عام نکاح:
یہ نکاح اصولی طور پر آج بھی رواج میں ہے کہ ایک آدمی کی طرف سے دوسرے آدمی کو اس کی بیٹی یا اس کی زیر دست ولایت لڑکی کے لیے نکا ح کا پیغام دیا جاتا۔ پھر وہ مناسب مہر مقرر کر کے اس لڑکی کا نکاح اس آدمی سے کر دیتا۔
۲۔ زواج البعولۃ
یہ نکاح عرب میں بہت عام تھا۔ اس میں یہ تھا کہ مرد ایک یا بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا۔ بعولت (خاوند ہونا) سے مراد مرد کا ’’عورتیں جمع کرنا‘‘ ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی ہوتی۔
۳۔ زواج البدل
بدلے کی شادی، اس سے مراد دو بیویوں کا آپس میں تبادلہ تھا۔ یعنی دو مرد اپنی اپنی بیویوں کو ایک دوسرے سے بدل لیتے اور اس کا نہ عورت کو علم ہوتا، نہ اس کے قبول کرنے، مہر یا ایجاب کی ضرورت ہوتی۔ بس دوسرے کی بیوی پسند آنے پر ایک مختصر سی مجلس میں یہ سب کچھ طے پاجاتا۔
۴۔ نکاح متعہ
یہ نکاح بغیر خطبہ، تقریب اور گواہوں کے ہوتا۔ عورت اور مرد آپس میں کسی ایک مدت مقررہ تک ایک خاص مہر پر متفق ہو جاتے اور مدت مقررہ پوری ہوتے ہی نکاح خود بخود ختم ہو جاتا تھا طلاق کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی اور اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد ماں کی طرف منسوب ہوتی اسے باپ کا نام نہیں دیا جاتا تھا۔
۵۔ نکاح الخدن
دوستی کی شادی، اس میں مرد کسی عورت کو اپنے گھر بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے رکھ لیتا اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا اور بعد ازاں یہ تعلق باہمی رضا مندی سے ختم ہو جاتا کسی قسم کی طلاق کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اولاد پیدا ہو جاتی تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوتی۔ یہ طریقہ آج کل مغربی معاشرے میں بھی رائج ہے۔
۶۔ نکاح الضغینہ
جنگ کے بعد مال اور قیدی ہاتھ لگتے اور جاہلیت میں فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں، مال وغیرہ سب مباح تھا یہ عورتیں فاتح کی ملکیت ہو جاتیں اور وہ چاہتا تو انہیں بیچ دیتا چاہتا تو یونہی چھوڑ دیتا اور چاہتا تو ان سے مباشرت کرتا یا کسی دوسرے شخص کو تحفہ میں دے دیتا۔ یوں ایک آزاد عورت غلام بن کربک جاتی۔ اس نکاح میں کسی خطبہ، مہر یا ایجاب و قبول کی ضرورت نہ تھی۔
۷۔ نکاح شغار
وٹے سٹے کی شادی۔ یہ وہ نکاح تھا کہ ایک شخص اپنی زیرسرپرستی رہنے والی لڑکی کا نکاح کسی شخص سے اس شرط پر کر دیتا کہ وہ اپنی کسی بیٹی، بہن وغیرہ کا نکاح اس سے کرائے گا۔ اس میں مہر بھی مقرر کرنا ضروری نہ تھا اسلام نے اس کی بھی ممانعت فرما دی۔
۸۔ نکاح الاستبضاع
فائدہ اٹھانے کے لیے عورت مہیا کرنے کا نکاح۔ مراد یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے بھیج دیتا اور خود اس سے الگ رہتا تاکہ اس کی نسل خوبصورت پیدا ہو اور جب اس کو حمل ظاہر ہو جاتا تو وہ عورت پھر اپنے شوہر کے پاس آجاتی۔
۹۔ نکاح الرہط
اجتماعی نکاح۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دس آدمی ایک ہی عورت کے لیے جمع ہوتے اور ہر ایک اس سے مباشرت کرتا اور جب اس کے ہاں اولاد ہوتی تو وہ ان سب کو بلواتی اور وہ بغیر کسی پس وپیش کے آجاتے پھر وہ جسے چاہتی (پسند کرتی یا اچھا سمجھتی) اسے کہتی کہ یہ بچہ تیرا ہے اور اس شخص کو اس سے انکار کرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔
۱۰۔ نکاح البغایا
فاحشہ عورتوں سے تعلق، یہ بھی نکاح رہط سے ملتا جلتا ہے مگر اس میں دو فرق تھے، ایک تویہ کہ اس میں دس سے زیادہ افراد بھی ہو سکتے تھے جبکہ نکاح رہط میں دس سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان مردوں سے بچہ منسوب کرنا عورت کا نہیں بلکہ مرد کا کام ہوتا تھا۔
مذکورہ طریقہ ہائے زواج سے ثابت اور واضح ہوتا ہے کہ عورت کی زمانۂ جاہلیت میں حیثیت مال و متاع کی طرح تھی اسے خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ ۱۷ ؎
قدیم تہذیبوں میں شادی بیاہ کا تصور
نکاح انسانی تہذیب و تمدن میں سب سے مقدم اور اہم مسئلہ ہے۔ انسانی معاشرہ میں اس کی اہمیت تعارف کی محتاج نہیں ۔ مرد عورت کا رشتہ حضرت آدم اور حضرت حوا کے ملاپ سے شروع ہوا اور ہر زمانے میں مختلف طریقوں سے رائج رہا۔ ذیل میں قدیم معاشروں اور تہذیبوں میں شادی بیاہ کے تصورات کا مختصر جائزہ لیا جاتا ہے۔
یونانی تہذیب:
زمانہ قدیم میں جس قوم کی تہذیب سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ یونان کی تہذیب ہے۔ یہاں شادی کا ایک نظام رائج تھا، لیکن اس قوم کے ابتدائی دور میں اخلاقی ، قانونی اور معاشرتی لحاظ سے عورت کی حیثیت گری ہوئی تھی۔
بقول ڈاکٹر خالد علوی:
”اخلاقی بنیادوں پر عورت کی حیثیت بے بس غلام کی سی تھی اور مرد کو اس معاشرے میں ہر اعتبار سے فوقیت حاصل تھی بلکہ بداخلاقی کی اس فضا میں عورت صرف ہوس کا نشانہ تھی۔ عورت کو تمام مصائب کا سبب قرار دیا گیا تھا۔“ ۱۸ ؎
یونانی معاشرہ میں شادی کا طریقہ رائج تھا ، مگر اس کے قوانین بہت دقیانوس تھے۔ بقول محمد جعفر خان:
”لیکن یونان میں نکاح پر کوئی قدغن یا پابندی نہ تھی جو شخص جس سے چاہتا نکاح کر لیتا حتیٰ کہ دختر اور ہمشیرہ تک سے نکاح جائز اور بعض موقعوں پر ثواب سمجھا جاتا تھا۔“ ۱۹؎
انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:
”یونان میں نکاح کے بغیر عورت اور مرد کا تعلق بالکل ٹھیک اور معقول سمجھا جاتا تھا تاہم کچھ طبقہ ایسا بھی موجود تھا جو مذہبی نکتہ نگاہ ملحوظ رکھتے ہوئے ازدواجی تعلق کے لیے نکاح ہی کو موزوں خیال کرتا تھا۔ “ ۲۰ ؎
رومی تہذیب:
یونان کے بعد جس قوم کو دنیا میں عروج نصیب ہوا وہ اہل روم تھے۔ یہاں بھی عورت پستی کا شکار تھی اور بیوی کو کوئی حق حاصل نہ تھا۔ بقول مولانا جلال الدین عمری:
”غلاموں کی طرح عورت کا مقص بھی خدمت اور چاکری سمجھا جاتا تھا۔ مرد اس غرض سے شادی کرتا تھا کہ وہ بیوی سے فائدہ اٹھا سکے۔ وہ کسی عہدہ کی اہل نہیں سمجھی جاتی تھی حتیٰ کہ کسی معاملہ میں اس کی گواہی تک کا اعتبار نہیں تھا۔ رومی سلطنت میں اس کو قانونی طور پر کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ عورت کا مرتبہ رومی قانون نے ایک عرصہ دراز تک نہایت پست رکھا۔ افسرِخاندان جو باپ ہوتا یا شوہر ، اس کو اپنے بیوی بچوں پر پور اختیار حاصل تھا اور وہ عورت کو جب چاہے گھر سے نکال سکتا تھا۔ جہیز یا دلہن کے والد کو نذرانہ دینے کی رسم کچھ بھی نہ تھی اور باپ کو اس قدر اختیار حاصل تھا کہ جہاں چاہے اپنی لڑکی کو بیاہ دے، بلکہ بعض دفعہ تو وہ کی کرائی شادی توڑ سکتا تھا۔ زمانہ مابعد یعنی دور تاریخ میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہر کی طرف منتقل ہوگیا اور اب اس کے اختیارات یہاں تک وسیع ہوگئے کہ وہ چاہے تو بیوی کو قتل کر سکتا تھا۔“ ۲۱؎
رفتہ رفتہ رومی سلطنت میں نکاح و طلاق کے قوانین میں تغیر رونما ہوتا رہا اور نکاح محض ایک قانونی معاہدہ بن کر رہ گیا اور طلاق کی آسانیاں اس قدر بڑھ گئیں کہ بات بات پر ازدواج کا رشتہ توڑا جانے لگا۔ مشہور رومی مدبّر ”سینکا“ رومیوں کی کثرتِ طلاق پر ماتم کرتے ہوئے کہتا ہے:
”اب روم میں طلاق کوئی بڑی شرم کے قابل چیز نہیں رہی۔ عورتیں اپنی عمر کا حساب اپنے شوہروں کی تعداد سے لگاتی ہیں۔“
ایرانی تہذیب:
ایران کا شمار دنیا کے مشہور اور قدیم ملکوں میں ہوتا ہے۔ ان کی تہذیب ایشیا کے ہر ملک میں قابل تقلید اور ان کے اخلاق ایشیائی اقوام کے لیے قابل اقتدار سمجھے جاتے تھے۔ لیکن ظہور اسلام کے وقت ان کی حالت اس قدر خراب تھی کی زرتشت کو خدائی صفات دینے کے ساتھ ساتھ ان کا خاندانی نظام بہت خراب ہو چکا تھا اور ان میں زنا کار واج عام تھا۔
بقول مولانا اکبر شاہ:
”زنا کا رواج اس درجہ ترقی کر گیا تھا کہ مزدک ناہنجار نے سرِ دربار کسرائے ایران کی بانوئے سلطنت کو بے عصمت کرنے کی فرمائش کی اور فرمانراوائے ایران نے اس کی اس نامعقول و حیا سوز جرأت کی مخالفت ضروری نہ سمجھی۔“ ۲۲ ؎
ایران میں تعداد ازواج کا انوکھا قانون تھا۔ آمدنی کے حساب سے ہر شخص کو بیویاں رکھنے کی اجازت تھی ۔ پیر کرم علی شاہ ایران میں تعدد ازواج کے بارے میں رقم طراز ہیں:
”خاندان کی بنیاد تعدد ازواج پر تھی۔ ایک شخص کو متعدّد بیویوں سے نکاح کرنے کی اجازت تھی ۔ ہر شخص اپنی آمدنی کے مطابق بیویوں کی تعداد مقرر کر سکتا تھا۔“ ۲۳؎
ایران میں ایک اور عجیب و غریب رسم تھی کہ ایک شخص اپنی بیوی دوسرے شخص کو دے دیتا تاکہ وہ اس کو پنے روزگار کے کام میں استعمال کر ے ۔ بقول پیر کرم علی شاہ :
”پروفیسر آرتھر لکھتے ہیں شوہر مجاز تھا کہ اپنی بیوی یا بیویوں میں سے ایک کو خواہ وہ بیاہتا بیوی ہی کیوں نہ ہو، کسی دوسرے شخص کو جو انقلابِ روزگار سے محتاج ہو گیا ہو اس غرض کے لیے دےدے کہ وہ اس سے کسبِ معاش کے کام میں مدد لے۔ اس عورت کی رضامندی کا حاصل کرنا ضروری نہیں ہوتا ۔ اس عارضی ازدواج سے جو اولاد ہوتی تھی وہ پہلے شوہر کی سمجھی جاتی تھی۔ یہ مفاہمت ایک قانونی اقرار نامے کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس قسم کا معاہدہ انسانی ہمدردی کے ذیل میں شامل کیا جاتا تھا یعنی یہ کہ ایک شخص نے اپنے ایک محتاج ہم مذہب کی مدد کی۔“ ۲۴؎
مصر کی تہذیب:
مصر کی قدامت کاتصور اور مصری تمدن کی عظمت کا ندازہ کرنے کے لیے اہرامِ مصر اور ابوالہول کے مجسمے اور موجودہ زمانہ میں تہہ خانوں سے برآمد ہونے والی اشیاء سے بہت کچھ مدد مل سکتی ہے ۔ مصر پر ایرانیوں ، یونانیوں اور رومیوں نے بار بار حملے کیے اور بہت دنوں تک قابض و متصرف رہے۔ قیاس چاہتا ہے کہ ان حملہ آوراوں کی تہذیب و تمدن نے بھی مصر پر اپنا اثر ڈالا ہو گا۔ مصر میں بھی باقی معاشروں کی طرح زنا کی کثرت دیکھنے کو ملتی ہے۔ بقول اکبر شاہ:
”زنا کاری اور غارتگری کے لیے ترغیب دہ اصول و قواعد بنالیے گئے تھے۔ قتل انسان معمولی تفریح گاہوں کے لیے سامانِ تفریح سمجھا جاتا تھا۔ عورتون کو خودکشی کی ترغیب دی جاتی تھی۔ غرض کہ مصر کی تاریکی بھی کسی ملک کی تاریکی سے کم نہ تھی اور تہذیب و شائستگی کے علامات مصریوں کے اعمال و اخلااق سے بکلی معدوم تھے اور جہالت و تاریکی جس قد چاہو موجود تھی۔“ ۲۵؎
مصری بادشاہوں کے لیے محرمات سے نکاح کرنے پر کوئی قدغن نہیں تھی ۔ بادشاہ اپنی بہن یا بیٹی سے بھی بیاہ کر لیتا تھا۔ پیر کرم علی شاہ لکھتے ہیں۔
”عہد قدیم میں مصری بادشاہ اپنی بہن سے شادی کر لیا کرتا اور بسا اوقات اپنی بیٹی کو اپنی بیوی بنا لیا کرتا تھا اور اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ شاہی خاندان کے خون کی بیرونی عناصر کے خون کی آلودگی سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ بادشاہوں کی یہ عادت ان کے شاہی محلات تک محدود نہ تھی بلکہ ان کی رعایا میں بھی اس قبیح فعل کو قبول عام حاصل ہو گیا تھا ۔ یہاں تک کہ دوسری صدی عیسوی میں ارسینوئی کے دو تہائی باشندے اس طریقہ کار پر عمل پیرا تھے۔“۲۶؎
ہندو تہذیب :
یونانی ، رومی اور ایرنی تہذیبوں کی طرح ہندوستانی تہذیب بھی شادی بیاہ کے معاملے میں افراط و تفریط کا شکار تھی ۔ ایک طرف ذات پات کا نظام رائج تھا کہ صرف اپنی ذات کی لڑکی سے شادی کرنے کی پابندی تھی تو دوسری طرف عورت کو داسی یعنی بتوں کے عقد میں دے دیا جاتا تھا۔ عورت ہمیشہ مردکےتابع بن کر ہی زندگی گزرا سکتی تھی۔ ہندوؤں کے مشہور قانون دان منو مہارج لکھتے ہیں:
”عورت لڑکپن میں اپنے باپ کے اختیار میں رہے اور جوانی میں شوہر کے اختیار میں اور بیوہ ہونے کے بعد اپنے بیٹوں کے اختیار میں۔ خود مختار ہو کر کبھی نہ رہے۔“۲۷؎
بیاہ کی مختلف اقسام رائج تھیں جن میں سے بعض صورتیں ایسی تھیں جن کو بیاہ کہنے کے بجائے ”زنا بالجبر“ کہنا زیادہ صحیح ہے۔ بیاہ کی یہ اقسام ہندوؤں کی تمام کتابوں میں موجود ہیں۔ انعام الرحمٰن سحری اپنی کتاب میں ہندوؤں کے بیاہ کی اقسام کی پیچیدگیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
” ہندو مذہب میں شادیوں کی اتنی اقسام ہیں کہ غیر ہندو طابعلم کے لیے ان کا یاد رکھنا ، ان میں تفریق کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ ان کی اولاد کے مسائل تو شاید ان کے اپنے عالموں کی سمجھ میں بھی نہیں آتے ہوں گے ۔ ذرا ذہن میں لائیے کہ چار ذاتوں کے مردوں کی چار ذاتوں کی عورتوں سے شادی اگر ریاضی کے چلیپائی کے اصول کے مطابق ہی کی جائے تو ہر ایک سے ہونے والی اولاد کی درجہ بندی مختلف ہوگی۔ پھر بیوہ، گھر سے بھاگنے والی عورت، بغیر مہر کے لائی جانے والی عورت، بکنے والی عورت، لڑکے پیدا کرنے والی عورت، بے اولاد عورت، جڑواں پیدا کرنے والی عورت، گویا ہر قسم کی عورت الگ قسم کی شادی میں رہے گی۔“ ۲۸؎
عورت ہمیشہ اپنے شوہر کے تابع رہ کر زندگی گزارتی ۔ شوہر اس پر جس طرح مرضی چاہے ظلم کرتا رہے مگر وہ اس کی پوجا اور خدمت گزار بن کی ہی رہ سکتی ہے۔ شوہر کے مر جانے کے بعد اس عورت کے پاس دو اختیار تھے، یا تو شوہر کے ساتھ زندہ جل جائے جسے ستی کی رسم کا نام دیا گیا ہے یا پھر وہ جانوروں سے بھی بدتر زندگی اختیار کرلے اور پھر اس کو زندگی بھر بیوہ بن کر زندہ رہنا ہے اور یہ کسی سے شادی نہیں کرسکتی۔ اس کے علاوہ بھی ہندوؤں میں بہت سے غیر انسانی قانون رائج تھےمثلاً عورت کی مندر کے بُت سے شادی کردینا، نیوگ کے ذریعے اولاد حاصل کرنے کا ناجائز طریقہ اور محرمات شادی کرنے کا قانون بھی ہندوؤں میں موجود تھا۔
عراق (جنوبی نصف میپوٹیما) :
قدیم عراقی تہذیب میں عورتیں مردوں کی محکوم اور کنیزیں تھیں۔ حسب ضرورت ایک مرد سے دوسرے مرد کو منتقل ہوجاتیں یا تین سال تک گروی رکھی جاسکتی تھیں، گویا کہ یہ جسم فروشی کی ایک شکل تھی۔ عورتیں دیوتاؤں سے منسوب کی جاتیں جن کو دیوداسیاں کہا جاتا۔ شوہر کو بیوی پر ظلم کا اختیار حاصل تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس تہذیب میں بھی پردہ موجود تھا، پردہ کے ذریعہ لوگ جان لیتے تھے کہ کون سی عورت مرد کی حفاظت میں ہے اور کون سی عورت نمائش کے لیے کھلونا۔
چینی تہذیب:
قدیم مصر اور سمریہ کی تہذیب کے بعد اس کا آغاز ہوا۔ یہ تہذیب دریائے ’سی کیانگ‘ اور ’ہوانگ ہو‘ کے کناروں پر پروان چڑھی۔ اس تہذیب میں عورتوں کو منحوس سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ بعض اوقات لڑکیاں اس خیال سے کہ ان کی بدقسمتی یا نحوست کا اثر والدین پر نہ پڑے اپنے آپ کو ختم کردیتیں۔ لڑکیوں کی پیدائش کو نحوست سمجھا جاتا اور ایسی عورتیں منحوس تصور کی جاتیں جن کے پاس نرینہ اولاد نہ ہوتی۔ غریب لوگ چھوٹی بچیوں کو جنگل وغیرہ میں چھوڑ آتے۔ لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھا جاتا۔ جسم فروشی کے اڈے قائم تھے۔ ۲۹؎
فصل سوئم
یہودیت اور عیسائیت میں شادی بیاہ کا تصور
یہودیت میں شادی بیاہ کی تعلیمات:
یہودیت ایک آسمانی مذہب ہے اور اس کے پیروکاروں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایات و تعلیمات سے نوازا گیا، لیکن ان کے پیروکاروں نے اللہ تعالیٰ کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا اور ان میں تحریفات کر ڈالیں۔
یہودیت کے ازدواجی نظام پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں عورت کا مقام نہایت پست ہے اور ااس کی وجہ خود ساختہ نظریہ ہے کہ حضرت حوا نےحضرت آدم کو ممنوعہ پھل کھانے پر اُکسایا اور اس وجہ سے وہ جنت سے نکالے گئے ۔ اس کی وجہ سے عورت کو مرد کی غلامی، حیض جیسی ناپاکی اور حمل کے درد کی سزا ملی۔ کتاب مقدس میں ہے:
”میں تیرے دردِ حمل کو بڑھاؤں گا۔ تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔“ ۳۰؎
”تمدّنِ عرب “ میں یہودی معاشرہ میں عورت کی حیثیت ان سخت الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
”گھوڑا اچھا ہو یا برا اسے مہمیز کی ضرورت ہے اور عورت اچھی ہو یا بری اسے مار کی ضرورت ہے۔“ ۳۱ ؎
نکاح کے قانون کی طرح طلاق کا قانون بھی یہودی روایات میں عورت کی مظلومیت کی داستان سناتا ہے۔ یہودی مرد جب چاہے چھوٹی سے لغزش پر طلاق دے دیتے اور ان کو یہ حق مذہب نے دیا تھا۔ اگر عورت کا شوہر مر جاتا تو اسے دوسری شادی کا حق تو تھا، مگر صرف اپنے شوہر کے بھائی سے۔ اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی تھی اور اسے اس شادی پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یہودیت مین تعدد ازدواج کی اجازت بھی تھی ، لیکن اس کی کوئی حدمقرر نہیں تھی۔ ایک مرد جتنی چاہتا شادیاں کر سکتا تھا۔ ۳۲؎
عیسائیت میں شادی بیاہ کی تعلیمات:
عیسائی معاشرہ میں بھی ازدواجی زندگی کا تصور بہت تاریک ہے اور عورت کی حیثیت مرد سے کم تر ہے ۔ عیسائیت کی تعلیمات ازدواجی زندگی کے متعلق پوری رہنمائی نہیں کرتیں، بلکہ مزید معاشرتی ، مذہبی اور اخلاقی اُلجھنوں میں گرفتار کر دیتی ہیں ۔
بقول سید سلمان ندوی:
”اسلام سے پہلے جو اخلاقی مذاہب تھے ان سب میں مرد اور عورت کے ازدواجی تعلقات کو اخلاقی و روحانی ترقی کی راہ میں حائل سمجھا جاتا تھا۔ عیسائی مذہب میں رہبانیت اور ازدواجی زندگی سے گریز کو ہی روحانی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔“ ۳۳؎
عیسائیت میں عمومی طور پر شادی بیاہ سے اجتناب کا تصور ملتا ہے اور ازدواج سے پرہیز کو تقویٰ اور بلند اخلاق کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ حضرت عیسیٰ کی خود کی شادی نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ یورپ میں ازدواجی تعلق کے نجس ہونے کا خیال بہت سے طریقوں سے مسیحوں کے دل و دماغ میں بیٹھایا جاتا ہے ۔
اس بارے میں سید مودودی فرماتے ہیں:
”جس روز چرچ کا کوئی تہوار ہو اس سے پہلے کی رات میاں بیوی نے یکجا گزاری ہو وہ تہوار میں شریک نہیں ہو سکتے۔ گویا انہوں نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے جس سے آلودہ ہونے کے بعد وہ کسی مقدس مذہبی کام میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہے۔“ ۳۴؎
چرچ کے نظریات عورتوں کے بارے میں بہت توہین آمیز رہے ہیں:
مشہور عیسائی مصنفین آگسٹائین (Augustine) اور ٹرٹلین (Tertulline)۔
آگسٹائین: اللہ نے عورت کیوں پیدا کی؟ اس نے عورت کو مرد کے جوڑ کی حیثیت سے پیدا نہیں کیا کیوںکہ ایک ساتھی کی حیثیت سے تو یہ کردار ایک مرد بھی نبھا سکتا ہے، نہ اس کو مرد کی مددگار کی حیثیت سے پیدا کیا کیونکہ ایک مرد اس سے اچھا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا میں سمجھنے سے قاصرہوں کہ اس انسانی معاشرہ میں عورت مرد کے کس کام آسکتی ہے سوائے بچے جننے کے۔
ٹرٹلین: عورت شیطان کی باپ ہے، وہ شجر ممنوعہ کو ظاہر کرنے والی ہے۔ پہلے پہل قانون الٰہی سے انحراف کس نے کیا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ ”عورت“ اس پر شیطان کا بس بھی نہیں چلتا، یہ اسے اپنے بس میں کرلیتی ہے، اسے بے بس کردیتی ہے۔ انہی خیالات اور تصورات نے عیسائیت میں رہبانیت اور تجرد کو فروغ دیا۔
انسانی اور با الخصوص عورتوں کے حقوق کا دعویٰ کرنے والے یورپ میں تیرھویں اور سولہویں صدی عیسوی میں جادوگری کے خلاف تحریک چلی جس میں جادوگری کے الزام میں ۹ لاکھ عورتوں کو زندہ جلادیا گیا۔ ۳۵؎
فصل چہارم
اسلام میں شادی بیاہ کی تعلیمات
دین اسلام کی بے شمار خصوصیت میں سے ایک یہ ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں مکمل اور تفصیلی احکام اسلامی تعلیمات میں نہ ہوں۔ باقی نظاموں کی طرح اسلام کا ازدواجی نظام بھی ایک مکمل ، مفصل اور افراط و تفریط سے پاک نظام ہے جس کی تمام شقیں انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں اور عمل کرنے کے لیے بھی بہت آسان ہیں۔بقول ڈاکٹر خالد علوی:
”اسلام کا ادارہ ازواج ایک مرتب نظام ہے اس میں نکاح ، طلاق ، خلع ، ایلاء، ظہار اور لعان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کی ہر ایک شق انسانی مزاج اور اس کی فلاح کے عین مطابق ہے۔ یہ ادارہ انسانی اجتماعیہ کی بنیاد ہے۔ اگر اس کی تنظیم صحیح طریق پر ہو تو یوں سمجھیے کہ کوئی معاشرتی فساد رونما نہیں ہوگا۔“ ۳۶؎
عبدالمجید دہلوی بنی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی کے متعلق رقم طراز ہیں:
”سرکار عالم ﷺ کی حیات ازدواجی بھی اپنے اندر پوری کشش رکھتی ہے اور آپ ﷺ کی حیات ِ مبارکہ کا یہ پہلو بھی اتنا روشن اور منور ہے کہ دنیا آج بھی اس نور کے ضیاء سے اپنے گھروں کے ازدواجی اندھیروں کو دور کر سکتی ہے۔“ ۳۷؎
اسلام کے علاوہ باقی مذاہب ، چاہے آسمانی ہوں یا غیر آسمانی ، میں عورت اور مرد کے ازدواجی تعلقات کو بہت حد تک اخلاقی و روحانی ترقی کے لیے مانع تسلیم کیا گیا ہے، عورت اور مرد کے درمیان عدم مساوات کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے اور عورت کو مرد سے کمتر حتیٰ کہ جانور سے بھی بدتر سمجھا گیا ہے۔ لیکن اسلام نے مردوزن میں مساوات کے تصور کو رائج کیا اور عورت کے وقار اور عزت کو مرد کے مساوی قرار دے کر نہ صرف اس کے حقوق کی حفاظت کی بلکہ اسے معاشرہ مین ایک عزت کا مقام بھی دلوایا جس کی بجا طوپرحوا کی بیٹی حق دار تھی۔
دنیا کے مختلف مذاہب نے شادی بیاہ کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ یہودی معاشرہ نے اسے سوشل کنٹریکٹ قرار دیا کہ جب چاہے توڑ دیا، کسی نے اسے اٹوٹ قرار دے کر اس میں مظلومیت کا عنصر شامل کر دیا اور عیسائیت نے تو نکاح اور ازدواجی زندگی سے دور رہنے اور رہبانیت اور تجرد کی زندگی اختیار کرنے کو ہی اعلیٰ اخلاق کا ذریعہ اور روحانیت کی معراج قرار دے کر اس سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔
اسلام نے ازدواجی زندگی کے متعلق صاف ستھرا اور قابلِ عمل تصور پیش کیا جس کی تکمیل سے انسانی زندگی بہاروں کی مانند اور پُر سکون زندگی بسر کر سکتی ہے۔
بقول ایم عبد الرحمٰن:
”اسلام سے پہلے بعض مذاہب نے عورت و مرد کے ازدواجی تعلق کو اخلاقی اور روحانی ترقی کے لیے مانع قرار دیا۔ اسلام نے اس نظریے کو قبول نہیں کیا اور بتایا کہ اخلاقی و روح کی بالیدگی جس قدر مجرد کے ساتھ ممکن ہے اس سے کہیں زیادہ ازدواجی تعلق میں ممکن ہے۔ اخلاق تو نام ہی حسنِ معاملہ اور حسنِ سلوک کا ہے۔ اگر کسی کا شوہر نہ ہو، کسی کی بیوی نہ ہو، کسی کا باپ نہ ہو، کسی کی ماں نہ ہو، کسی کے بھائی نہ ہوں اور کسی کی بہن نہ ہو ، اور نہ کسی سے رشتہ ناطہ ہو، تو اس پر دنیا کی کیا ذمہ داریاں عائد ہو سکتی ہیں اور پاکیزہ اخلاق کی تکمیل کے لیے اسے کون سے فطری مواقع مل سکتے ہیں۔ اسلام نے نکاح کو صاحبِ استطاعت مرد و عورت کے لیے بہتر اور خیر و برکت کا سبب بتایا ہے۔“ ۳۸؎
اسلام نے نکاح کو انسانی زندگی کی اکائی قرار دے کر اسے لازمی قرار دیا ہے اور قرآن پاک میں کئی مقامات پر استطاعت رکھنے والے مردوں کو نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللهُ مِن فَضْلِهِ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴾ (النور۳۲)
اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو (عمرِ نکاح کے باوجود) بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی (نکاح کر دیا کرو)، اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے۔ (النور۳۲)
احادیث میں بھی بے نکاحون کو نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے فوائد بھی احادیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے:
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال حدثني إبراهيم، عن علقمة، قال كنت مع عبد الله فلقيه عثمان بمنى فقال يا أبا عبد الرحمن إن لي إليك حاجة. فخليا فقال عثمان هل لك يا أبا عبد الرحمن في أن نزوجك بكرا، تذكرك ما كنت تعهد، فلما رأى عبد الله أن ليس له حاجة إلى هذا أشار إلى فقال يا علقمة، فانتهيت إليه وهو يقول أما لئن قلت ذلك لقد قال لنا النبي صلى الله عليه وسلم ” يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء “.
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ، مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے علقمہ بن قیس نے بیان کیا کہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ تھا، ان سے حضرت عثمان نے منیٰ میں ملاقات کی اور کہا اے ابوعبدالرحمن! مجھے آپ سے ایک کام ہے پھر وہ دونوں تنہائی میں چلے گئے۔ حضرت عثمان نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن! کیا آپ منظور کریں گے کہ ہم آپ کا نکاح کسی کنواری لڑکی سے کر دیں جو آپ کو گزرے ہوئے ایام یاد دلا دے۔ چونکہ حضرت عبد اللہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے اس لئے انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور کہا علقمہ! میں جب ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ کا یہ مشورہ ہے تو رسول کریم ﷺنے ہم سے فرمایا تھا اے نوجوانو! تم میں جو بھی شادی کی طاقترکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا۔
ایک روایت میں نبی کریم ﷺ نے نکاح کو افزائشِ نسل کا سبب قرار دے کر نکاح کی ترغیب دی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَزَ وَّ جُو االْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَفَاِنِّی ْ مُکَاثِر ٌ بِکُمُ الْاُمَمَ
” محبت کرنے والی، زیادہ بچے جننے وا لی عورت سے تم بیاہ کرو اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر سابقہ اُمتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا۔ “
اسلام سے پہلے جتنے مذاہب تھے ان سب میں معیارِ رشتہ کے حوالے سے ایک بات عام تھی کہ انہوں نے دینوی جاہ و منصب اور ظاہری خوبصورتی کو ترجیح دی، جبکہ اسلام نے شکل و صورت ، مال و دولت ، جاہ و منصب ، ذات برادری کے مقابلہ میں دین داری، خوش اخلاقی اور تقویٰ کو ترجیح دی تاکہ شادی کے بعد شروع ہونے والی نئی زندگی کا آغاز بھی اسلام پر ہو اور انجام بھی ۔ نبی کریم ﷺ کے بہت سے ارشادات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دین دار بیوی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور شادی بیاہ میں دین داری کو ہی ترجیح دینی چاہیے، مثلاً رسول اللہ ﷺ نے نیک بیوی کو خوش بختی اور بری بیوی کو بدبختی کی علامت قرار دیا:
مَنْ سَعَادَۃِ ابْنِ آدَمَ: اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ وَ الْمَسْکَنُ الصَّالِحُ وَالْمَرْکَبُ الصَّالَحُ وَمِنْ شَقْوَۃِ ابْنَ آدَمَ: اَلْمَرْأَۃُ السُّوْءُ وَالْمَسْکَنُ السُّوْءُ وَالْمَرْکَبُ السُّوْءُ ۳۹؎
”بنی آدمی کی خوش بختی کی علامت یہ ہیں: نیک بیوی، کشادہ گھراور اچھی سواری۔ اور بنی آدمی کی بدبختی کی علامات یہ ہیں : بری بیوی، تنگ گھراور بُری سواری۔“
پیغام نکاح:
اسلام میں پیغام نکاح مرد کسی عورت کو بھیج سکتا اور کوئی عورت بھی مرد کو پیغام نکاح بھیج سکتی ہے۔ پیغام نکاح دیتے وقت بالکل صریح الفاظ کی بجائے اشارہ کنایہ سے بات کرنا زیادہ افضل ہے ، کیونکہ اشارہ کنایہ سے بات کرنے میں شرم وحیا کا لحاظ رہتا ہے ۔
شای کی عمر:
اسلام نے شادی کے لیے کوئی خاص عمر مقرر نہیں کی بلکی ایک اصول اور ٖ ضابطہ مقرر کر دیا کہ کہ شادی کے لیے ”بلوغت “ ضروری ہے ۔ اب ہر علاقے اور ہر ملک میں بالغ ہونے کا دورانیہ ایک سا نہیں ہے۔ کسی علاقے کا موسم گرم ہوتا ہے اور وہاں لڑکا لڑکی جلد بالغ ہو جاتے ہیں، جبکہ کسی علاقے کا موسم سرد ہوتا ہے اور وہاں بالغ ہونے میں زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے ۔ سورۃ النسا میں ارشاد ربانی ہے۔
﴿وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ﴾
اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔
محمد صدیق خان شبلی قرآن کی ان اصطلاحات کے بارے میں لکھتے ہیں :
”قرآن کی دو اصطلاحیں رُشد اور بلوغ ہیں جس کے حوالے سے مسلمان فقہاء نے شادی کی عمر کے مسئلے پر بحث کی ہے۔ رُشد جیسا کہ اس آیت میں ہے: ” یتیموں کی تربیت کرو یہاں تک کہ وہ شادی کی عمر کو پہنچ جائیں اور اگر تم ان میں رُشد (پختہ قوتِ فیصلہ) پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کردو۔“ (النساء: ۶) اس آیت میں قرآن رشد یا پختگی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے، لیکن قانون کے بیشتر مکاتب نے بلوع (تولیدی نظام کے آغاز) کو شادی کی کم از کم عمر قرار دیا ہے۔ بلوغ لڑکیوں کے لیے نو سال سے پندرہ سال کی عمر کا زمانہ ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں ذہنی اور جسمانی پختگی میں کافی فرق ہو سکتا ہے۔ لڑکوں کے لیے بلوغت کی عمر بارہ سال ہو سکتی ہے۔“ ۴۰؎
منگیتر کو ایک نظر دیکھنے کی اجازت:
اسلام چونکہ ایک فطری دین ہے اس لیے اسلام نے مرد کو نکاح سے پہلے لڑکی کو ایک نظر دیکھنے کا اختیار دیا ہے۔ اس طرح دیکھنے سے نکاح میں رغبت پیدا ہوگی ۔ شریعت کے احکامات کے مطابق منگنی اور نکاح سے قبل عورت کو دیکھنے کا جواز و استحباب ہے۔ یہ امر معاہدہ نکاح کی کامیابی کے لیے اہم سبب ہے کہ بعض اوقات بغیر دیکھے نکاح کرنے کی صورت میں فوری طلاق یا خلع کی نوبتآجاتی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے : ﴿فا نکوا ما طاب لکم من النساء ﴾ تم اپنی پسند کی خواتین سے نکاح کرو۔ (النساء ، ۴) اس آیت سے بھی نکاح سے قبل عورت کو دیکھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺکی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ اس نے ایک انصاری عورت سے نکاح کا ارادہ کیا ہے۔ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا تو نے اسے دیکھ لیا ہے؟ عرض کیا نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ دیکھ لو کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ عیب ہوتا ہے۔۴۱؎
اس حدیث میں مرد و عورت کے باہم دیکھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کے دل میں کسی عورت کو پیغام نکاح دینے کی بات ڈال دے تو اس عورت کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ) ان احادیث سے منگنی اور نکاح سے قبل عورت کو دیکھنے کااستحباب ثابت ہوتا ہے۔ ۴۲؎
ہم پلہ (کفو)ہونا:
کفو کا لغوی معنی ہے برابری۔ اصطلاح میں اس کے معنی یہ ہیں کہ مر اور عورت کی حیثیت میں برابری ہو۔ ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن نے کفو کی تعریف کرنے کے بعد ان اجزاء کا بھی تذکرہ کیا ہے جن میں مرد کا عورت کے ہم پلہ ہونا ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”کفو وہ شخص کہلاتا ہے جو مذہب ، نسب، آزادی، پیشہ، دیانت اور تمول میں ہم سر ہو۔ امور کفائت حسب ذیل ہیں جن میں مرد کا عورت کے ہم سر ہونا ضروری ہے : (۱) اسلام (۲) نسب (۳) آزادی (۴) پیشہ (۵) دیانت (۶) تمول (مال کی برابری)۔“ ۴۳؎
والدین کی رضا مندی:
اسلام کے علاوہ تمام مذاہب میں والدین کی رضامندی کے بارے میں افراط و تفریط سے کام لیا گیا ہے کہیں نکاح کا سارا دارومدار فریقین کی رضا مندی پر ہے اور والدین کی اجازت کو بالکل چھوڑ دیا گیا جیسے یہودیت اور عیسائیت میں اس کے ثبوت ملتا ہے اور کہیں نکاح کو والدین کی اجازت پر موقوف کر دیا اور فریقین کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں رکھا گیا جیسے ہندو مت میں اس کی مثال ملتی ہے۔
اسلام نے والدین اور فریقین کی اجازت میں درمیانی راہ پر عمل کیا ہے کہ دونوں کی اجازت کو نکاح میں ضروری قرار دیا باین معنی کی شادی بیاہ میں اصل اہمیت تو فریقین کی اجازت کی ہے مگر معاشرہ میں امن و سکون اور خاندانی نظام کی بقا کے لیے والدین کی رضامندی بھی ضروری ہے۔
نکاح کے ارکان:
احناف کے نزدیک نکاح کا بس ایک ہی رکن ہے ”۔صیغہ“ یعنی ایجاب و قبول۔ باقی گواہوں اور مہر کا ہونا نکاح کی شرائط میں سے ہے۔
مالکیہ کے نزدیک نکاح کے پانچ ارکان ہیں۔
۱: صیغہ یعنی ایجاب و قبول
۲: ولی یعنی ولی کا مجلسِ نکاح میں موجود ہونا
۳: مہر یعنی مہر چاہے معجل ہو یا غیر معجل
۴: مرد یعنی وہ شخص جو نکاح کا اردہ رکھتا ہو
۵: عورت یعنی وہ جس کا نکاح مرد کے ساتھ ہو رہا ہے
جن سے نکاح جائز نہیں ہے:
۱۔ محرمات :
اسلام میں محرمات کا جامع اور شفاف تصور ملتا ہے۔ کچھ رشتے خون یعنی نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں اور کچھ رشتے رضاعت کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْوَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ النساء۲۳
تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں، اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں)، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں، اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بیشک اللہبڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ النساء ۲۳
ا۔ نسبی محرمات:
قرآن پاک کی اس آیت میں براہ راست حرام ہونے والے ۷ رشتوں کا تذکرہ ہے، لیکن ۱۶ بالواسطہ رشتے ہیں جو نسبی محرمات میں شامل ہیں ۔ ہم یہاں براہ راست اور بالواسطہ حرام ہونے والے رشتوں کی فہرست بیان کرتےہیں:
براہ راست بالواسطہ حرام ہونے والے رشتے
ماں نانی، دادی
بیٹی نواسی، پوتی
بہنیں سوتیلی بہن ماں کی طرف سے ، سوتیلی بہن باپ کی طرف سے
پھوپھی سوتیلی پھوپھی باپ کی طرف سے، سوتیلی پھوپھی ماں کی طرف سے ، باپ کی پھوپھی
خالہ سوتیلی خالہ باپ کی طرف سے، سوتیلی خالہ ماں کی طرف سے ، ماں کی خالہ
بھتیجی بھائی کی نواسی، بھائی کی پوتی
بھانجی بہن کی نواسی، بہن کی پوتی
ب۔ رضاعی محرمات:
اسلام میں رضاعت سے بھی کچھ رشتے حرام ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں رسول ﷺ نے ایک قاعدہ بیان کر دیا ہے۔
ويحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب.
رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔
ج۔ سسرالی محرمات:
سسرالی یا دامادی کی بنا پر بھی چند رشتے حرام ہوتے ہیں ، جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
بیوی کی ماں یعنی ساس اور بیوی کی دادی اور نانی
مدخولہ بیوی کی بیٹی لیکن اگر صحبت (ہم بستری) سے پہلے طلاق دے دی تو پھر اس عورت کی بیٹی سے نکاح حرام نہیں ہے۔
باپ کی بیوی یعنی سوتیلی ماں، سوتیلی نانی یا سوتیلی دادی۔
بیتے کی بیوی یعنی بہو، پوتے کی بیوی اور نواسے کی بیوی
د۔ سببی محرمات
ما قبل بیان کردہ محرمات ، محرمات ابدیہ ہیں کہ جن کے ساتھ کسی حال میں کسی بھی وقت شادی نہیں ہو سکتی، البتہ کچھ محرمات عارضی ہوتے ہیں یعنی ان کی حرمت کسی سبب کی بنا پر ہے اور جب وہ سبب ختم ہو جائے گا تو حرمت بھی ختم ہو جائے گی۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
٭ مرد کا اپنی سالی سے نکاح حرام ہے مگر اس وقت تک جب اس کی بہن اس مرد کے نکاح میں ہے۔ اگر یہ شخض اپنی بیوی کو طلاق دے دے یا وہ مر جائے تو اب یہ حرمت ختم ہو جائے گی۔ اب اگریہ مرد چاہے تو اپنی سالی سے نکاح کر سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن میں مجید میں اس اصول کو ان الفاظ سے بیان کیا ہے:
﴿ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ﴾ (النساء ۲۳)
اور (یہ بھی تم پر حرام کر دیا گیا ہے ) کہ تم بیک وقت دو بہنوں کا نکاح میں جمع کرو سوائے اس کے جو گزر چکا ہے۔
٭ مرد کا بیوی کی خالہ ، پھوپھی ، بھتیجی اور بھانجی سے نکاح کرنا اس وقت تک حرام ہے جب تک وہ اس کے عقد نکاح میں ہے۔
جیسا کہ فرمان رسول اللہ ﷺہے:
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ” لا يجمع بين المرأة وعمتها، ولا بين المرأة وخالتها “
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں ابوالزناد نے ، انہیں اعرج نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا، کسی عورت کواس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں جمع نہ کیا جائے۔
٭کسی کی بیوی سے نکاح کرنا اس وقت تک حرام ہے جب تک وہ کسی کے عقد نکاح میں ہے ۔
٭کسی عورت سے اس کی عدت کےدوران نکاح کرنا بھی حرام ہے۔
٭مرد کا بیوی کو طلاق دینے کے بعداُس سے دوبارہ نکاح اُس وقت ہو سکتا ہے جب تک وہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کے بعد شوہر سے نہ بننے پر طلاق نہ لے۔
۲: مشرک سے نکاح حرام ہے:
ایک مسلمان مرد کسی مشرک عورت اور ایک مسلمان عورت کسی مشرک مرد سے نکاح نہیں کرسکتی۔ اس کا حکم قرآن و سنت دونوں میں موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿وَلاَ تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلاَ تُنكِحُواْ الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُواْ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُوْلَـئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللهُ يَدْعُوَ إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴾ (البقرہ ۲۲۱ )
اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بیشک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے، اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقیناً مشرک مرد سے مؤمن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے، وہ (کافر اور مشرک) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
تعد د ازواج:
اگر ہم باقی مذاہب کا مطالعہ کریں تو ان میں بھی تعدد ازواج کا تصور ملتا ہے مگر وہ تصور اسلام کی طرح شفاف نہیں ہے اور زیادہ بیویوں کی صورت میں عدل کا تصور اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب یا معاشرہ میں موجود نہیں ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىوَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْ ﴾
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو (النساء۳)
اسلام میں مرد کو ایک وقت میں چار عورتوں کو عقد نکاح میں رکھنے کی اجازت ہے۔
٭٭٭٭٭
باب سوئم
نکاح سے گریز کی راہیں اور ان کے نتائج
فصل اوّل
موجودہ مغربی طرزِ معاشرت:
اٹھارویں صدی کے آخر میں یورپ میں صنعتی انقلاب برپا ہو تو بڑی تیز رفتاری سے کارخانے اور فیکٹریاں بننی شروع ہو گئیں۔ ان فیکڑیوں او کارخانوں میں کام کرنے کے لئے جب مردوں کی تعداد کم پڑ گئی تو مزید ہاتھ مہیا کرنے کے لئے سرمایہ دارنے عورت کو چادر اور چاردیواری سے نکال کر صنعتی ترقی کے لئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے لئے ”مساوات مرد و زن“،”آزادی نسوں“ اور ”حقوق نسواں “ خوبصورت نعرے اور فلسفے تراشے گئے۔ ناقص العقل عورت مساوات مردوزن کے دلفریب جال کو ہی اپنی بلند درجات خیال کرتے ہوئے مردوں کے دوش بدوش میدان معیشت میں کود پڑی جس کا اصل فائدہ تو سرمایہ دار ہی کو ہوا لیکن اس کا ضمنی فائدہ یہ بھی ہوا کہ پہلے جہاں صرف ایک مرد کی کمائی سے گھر کے چار یا پانچ افراد کو محض وسائل زندگی مہیا ہوتے تھے وہاں اس گھر کے دو یا تین افراد برسر روزگار ہونے سے وسائل زندگی کی دوڑ کا آغاز ہوگیا اور یوں مردوں ، عورتوں کا فیکڑیوں اور کارخانوں میں شب و روز مشینوں کی طرح کام کرنا ہی مقصد حیات ٹھہرا۔
دفاتر، فیکٹریوں اور کارخانوں میں عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کا دائرہ صرف وہیں تک محدود رہنا ممکن ہی نہ تھا۔ آہستہ آہستہ یہ دائرہ ہوٹلوں، ریسٹورانوں، کلبوں ، ناچ گھروں، مارکیٹوں، بازاروں سے لے کر سیاست کے اکھاڑوں ، سیر گاہوں، تفریح کے پارکوں اور کھیل کے میدانوں تک وسیع ہو گیا۔ پوری سوسائٹی میں مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے شرم وحیا کی اقدار کو ایک ایک کرکےپامال کردیا۔ مردوں کے دوش بدوش چلنے والی عورت میں آرائش حسن ، نمائش جسم، جلوہ نمائی، پُرکشش، دلربا اور جاذب نظر آنے کا جذبہ فزوں سے فزوں تر ہونا بالکل فطری بات تھی جس کے لئے باریک ، تنگ، بھڑکیلے، نیم عریاں لباس پہننا، نیز بناؤ سنگھار کرنا مردوں کے ساتھ نیم عریاں حالت میں سوئمنگ کرنا، عریاں تصویریں اتروانا، کلبوں ، سٹیج ڈارموں ، ناچ گھروں اور فلموں میں عریاں کردار ادا کرنا پوری سوسائٹی کا جزو حیات بن گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مغرب میں ”آزادی نسواں“ اور ”حقوق نسواں“ کے نام پر عورتوں کو سر بازار عریاں ہونا اور بن بیاہی ماں بننا، کوئی عیب کی بات نہیں رہی۔ گزشتہ دنوں ایک امریکی سکول میں دو خاتون اساتذہ نے اناٹومی کی آٹھویں جماعت میں برہنہ ہو کر پڑھانے کا انوکھا طریقہ استعمال کیا۔ دونوں خواتین اساتذہ کا استدال یہ تھا کہ اس خشک مضمون میں اس طرح طلباء و طالبات کی دلچسپی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ ۴۴ ؎
اٹلی میں مسولینی کی پوتی نے اسمبلی کی ممبر شپ کے لئے برہنہ ہو کر حاضرین سے خطاب کیا اور ووٹ مانگے۔ ۴۵؎
دنیا میں حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبردار اور امریکہ کی ریاست انڈیانا میں نیکڈسٹی کے نام سے ایک شہر آباد ہے جس کے باشندوں کے جسم پر زمین و آسمان نے لباس نام کی کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی، وہاں ہر سال پوری دنیا کی مادرزاد برہنہ ہونے کی شوقین عورتوں کے ”ویمن نیو ورلڈ“ مقابلے ہوتے ہیں۔
۱۹۹۶ء میں فرانش کے صدر شیراک کی بیٹی کلاڈ کے ہاں شادی کے بغیر بچی کی پیدائش ہوئی تو کلاڈ نے بچے کے والد کا نام بتانے سے انکار کر دیا لیکن باپ کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی۔ ۴۶؎
امریکہ کے صدر بل کلنٹن کے جنسی اسکینڈلز اب تک لوگوں کے ذہن میں ہیں۔ امریکہ کے بشپ اعظم اور دنیائے عیسائیت کے عظیم مبلغ ”جمی سواگرٹ“ نے امریکی ٹیلی ویژن میں بیوی کی موجودگی میں اپنے جنسی گناہوں کا اعتراف کیا۔ ۴۷ ؎
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مغربی طرز معاشرت میں بدکاری اور فحاشی کے سامنے اخلاقی اور مذہبی اقدار بالکل غیر موثر ہو چکی ہیں ۔ عام آدمی تو کیا بڑی سے بڑی مذہبی شخصیت کا بھی اس طرز معاشرت میں پارسا رہنا ممکن نہیں رہا۔ ۴۸ ؎
امریکی محکمہ صحت کے اعداد و شمار:
امریکہ محکمہ صحت کی طرف سے جاری کردہ مختلف مغربی ممالک کی بن بیاہی ماؤں کا چارٹ درج ذیل ہے جس میں مختلف ممالک کی شرح فیصد بتائی گئی جو منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہاں پر نکاح کا تصور نہ ہونے کے برابر ہے۔
۴۹؎
مغربی طرز معاشرت میں مساوات مردوزن کا نعرہ سننے میں بڑا دلکش محسوس ہوتا ہے لیکن کیا مغرب میں واقعی خواتین کو عملاً مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں یا محض ایک فریب ہے ۔ ذیل میں اس کا مختصر جائزہ لیا جاتاہے۔
مساوات مردو زن کی مغربی حقیقت:
روزنامہ آگ ۵ اکتوبر ۲۰۱۲ء کے شمارہ کے مطابق
برلن :جرمنی میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو اجرت کم ملتی ہے۔یہ فرق فی گھنٹہ اجرت پر کام کرنے والوں تک محدود نہیں بلکہ کسی بھی کمپنی میںانتظامی عہدوں پر فائز مردوں کو بھی خواتین کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ اجرت ملتی ہے۔ یہ انکشاف ایک جائزے میں کیا گیا ہے۔ اعدادوشمار کے وفاقی دفتر کے مطابق انتظامی یا ایگزیکٹو عہدوں پر فائز مرد اوسطا ۳۹۵۰ یورو فی گھنٹہ کماتے ہیں جبکہ انہی عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کی اجرت ۲۷۶۴ یورو فی گھنٹہ ہوتی ہے۔
خواتین اور مردوں کے درمیان کام کے فی گھنٹہ معاوضے کا یہ فرق تیس فیصد ہے۔ ۲۰۱۰ء میں آمدنی کے حوالے سے تیار کئے جانے والے ٹیبل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ صرف انتظامی عہدوں پر ہی نہیں بلکہ تکنیکی شعبے میں بھی مردوں اورخواتین کی اجرتوں میں فرق تیس فیصد ہی ہے۔ اس کے علاوہ تدریس کے شعبے میں ۲۸فیصد جبکہ دستی کاریگری کے شعبے میں یہ فرق ۲۵ فیصد ہے۔ ۵۰؎
اسی طرح امریکہ کی سپریم کورٹ میں آج تک کوئی خاتون جج نہیں بن سکی۔ فیڈرل ایپلٹ کورٹ کے ۹۷ ججوں میں سے صرف ایک خاتون جج ہے امریکہ بار ایسوسی ایشن میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی۔ امریکہ میں جس کام کے لئے مرد کو اوسطاً پانچ ڈالر ملتے ہیں ، عورت کو اسی کام کے تین ڈالر ملتے ہیں۔ ۵۱ ؎
۱۹۷۸ میں ہوسٹن امریکہ میں تحریک آزادی نسواں کی کانفرنس میں خواتین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایک ہی طرح کے کام کے لئے مردوں اور عورتوں کو برابر معاوضہ ملنا چاہیے۔ ۵۲؎
جاپان میں ڈیڑھ کروڑ عورتیں مختلف جگہوں پر کام کرتی ہیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین مرد افسروں کے ساتھ معاون کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ۵۳ ؎
کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ مساوات مردوزن کا نعرہ لگانے والے ممالک نے اپنی افواج میں کمانڈر انچیف کے عہدے پر کسی عورت کو آج تک کیوں تعین نہیں کیا یا کم از کم جرنیل کی درجہ پر ہی عورتوں کو مردو ں کے مساوی عہدے کیوں نہیں دئیے؟
مغرب اور آزادئ نسواں:
مغرب میں عورت ملکی قوانین کی اسی طرح پابند ہے جس طرح مرد پابند ہیں۔ عورت کو مغرب میں اتنی آزادی بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ ڈیوٹی کے اوقات میں اپنی مرضی کا لباس ہی پہن سکے۔( ناروے ، سویڈن اور ڈنمارک ) کی ائیر لائنز کی ہوسٹس نے ایک مرتبہ شدید سردی کی وجہ سے منی سکرٹ کی بجائے گرم پاجامے استعمال کرنے کی اجازت چاہی تو انتظامیہ نے خواتین کی یہ درخواست مسترد کر دی۔ ۵۴؎
مغربی عورت کو جن باتوں کی آزادی حاصل ہے وہ صرف یہ سر بازار مادر زاد برہنہ ہوناچاہے تو ہو سکتی ہے، اپنی عریاں تصویریں اخبار اور جرائد میں شائع کروانا چاہے تو کرواسکتی ہے۔ ساری زندگی اولاد پیدا نہ کرنا چاہے تو کرسکتی ہے، بوائے فرینڈ جتنی مرتبہ بدلنا چاہے بدل سکتی ہے۔ گویا مغرب میں عورت کو ہر اس کام کی آزادی ہے جس سے مردوں کے جنسی جذبات کو تسکین حاصل ہوسکے۔
مغرب کے اِس آزاد جنسی طرز معاشرت نے اہل مغرب کو کیا کیا تحفے عنایت کئے ہیں ، ان تحائف میں خاندانی نظام کی بربادی، امراض خبیثہ کی کثرت ، شرح پیدائش میں کمی اور خودکشی کے رجحان میں اضافہ سر فہرست ہیں۔ ۵۵؎
خاندانی نظام کی بربادی:
یورپ کے صنعتی انقلاب نے عورت کو معاشی استقلال تو عطا کر دیا لیکن خاندانی نظام پر اس کے اثرات بڑے دور رس مرتب ہوئے۔ عورت جب مرد کی کفالت اور مالی اعانت سے بے نیاز ہوگئی تو پھر قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوا کہ جو عورت خود کمائے وہ مرد کی خدمت کیوں کرے؟ گھر کی ذمہ داریاں کیوں سنبھالے؟ برطانیہ کی نیشنل وویمنز کونسل کی ایک خاتون رکن کا کہنا ہے کہ ” یہ خیال مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ شادی کر کے شوہر کی خدمت کے جھمیلے میں کیوں پڑا جائے بس زندگی کے مزے اڑالئے جائیں بہت سی خواتین یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ ان کی بقا کے لئے مردوں کے سہارے کی ضروت نہیں۔ “ ۵۶؎
امریکہ میں تحریک نسواں کی علمبردار شیلا کروئن کہتی ہیں ”عورت کے لئے شادی کے معنی غلامی ہیں اس لئے تحریک نسواں کو شادی کی روایت پر حملہ کرنا چاہیے۔ شادی کی روایت کو ختم کئے بغیر عورت کو آزادی نصیب نہیں ہو سکتی۔“ تحریک نسواں کی عورتوں کا کہنا ہے کہ ” عورت کا مرد کو چاہنا اور اس کی ضروت محسوس کرنا عورت کے لئے باعث تحقیر ہے۔ عورتوں کا بچوں اور گھر بار کی دیکھ بھال کرنا، ان کو کم تر بنا دیتا ہے۔“ ۵۷؎
امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی امریکی معاشرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”نئی نسل میں نکاح کا رواج نہیں رہا اس کے بغیر ہی لڑکی لڑکا یا مرد عورت اکٹھے رہتے ہیں، بچے بھی پیدا کرتےہیں اور ہر چار سال بعد اپنا شریک زندگی بھی تبدیل کر لیتے ہیں، جس طرح لباس تبدیل کیا جاتا ہے۔ بوڑھے والدین سوشل سکیورٹی یعنی بڑھاپے کی پنشن پر گزر بسر کرتے مر جائیں تو عام طور پر بے مروت اولاد دفنانے بھی نہیں آتی۔“ ۵۸؎
امراض خبیثہ کی کثرت:
زنا ، بدکاری اور ہم جنس پرستی کی کثرت کے نتیجہ میں امراض خبیثہ (سوزاک ، آتشک اور ایڈز وغیرہ ) کی کثرت نے پورے امریکہ اور مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ڈنمارک میں ہونے والی میڈیکل کانفرنس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں ہر سال سولہ کروڑ تیس لاکھ افراد سوزاک اور آتشک میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں عورتوں کی اموات کی دوسری وجہ آتشک اور سوزاک ہے۔ ۵۹ ؎
۱۹۷۵ ء میں برطانیہ کے ہسپتالوں میں جنسی امراض کی تعدا ۴ لاکھ ۳۰ ہزار نوٹ کی گئی جن مں سے ایک لاکھ ۶۰ ہزار عورتیں اور ۲ لاکھ ۷۰ ہزار مرد تھے۔ ۶۰؎
شرح پیدائش میں کمی:
مغرب میں آزادی شہوت رانی کے کلچر نے عالمی سطح پر مغربی ممالک کی آبادی پر کس قدر منفی اثرات مرتب کئے ہیں، اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے ”برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں کے میتھوڈسٹ فرقہ سے بڑھ گئی ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی ایکسپریس کے مطابق اس کی وجہ مسلمانوں کا مستحکم خاندانی نظام ہے جبکہ انگریز لوگ گرل فرینڈ بنا کر جوانی گزار دیتے ہیں۔ مانع حمل ادویات استعمال کرتے ہیں، شادی کرتے ہیں لیکن بیشتر شادیاں طلاق پر منتج ہوتی ہیں۔ یوں ان کی تعداد مسلمانوں سے کم ہو رہی ہے۔“ ۶۱ ؎
شرح پیدائش میں کمی کے باعث تمام یورپی ممالک جس اضطراب اور تشویش سے دوچار ہیں اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رومانیہ کی حکومت نے قانون جاری کیا ہے کہ ۵ سے کم بچوں والی عورتیں اور جن کی عمر ۵۴ سال سے کم ہو، اسقاط حمل نہیں کراسکیں گی نیز جن جوڑوں کے ہاں کوئی بچہ نہیں ہے ان پر ٹیکس بڑھا دیا جائے گا نیز زیادہ بچوں والے گھرانوں کو زیادہ مراعات دی جائیں گی۔ ۶۲؎
کاش مسلمان اس حقیقت کو جان سکیں کہ امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے انہیں خاندانی منصوبہ بندی کے لئے بے دریغ دی جانے والی مدد کااصل مقصد مسلم ممالک کی بھلائی یا خیر خواہی نہیں بلکہ اس کا اصل ہدف مسلم ممالک کی اسی عذاب یعنی شرح پیدائش کی کمی میں مبتلا کرنا ہے جس میں وہ خود مبتلا ہیں۔ مسلمانوں کے دین اور دنیا کی بھلائی رسول اکرم ﷺ کا اسی ارشاد مبارک میں مضمر ہے ”زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو، قیامت کے روز میں دوسرے انبیاء کرام کے مقابلے میں تمہاری وجہ سے اپنی امت کی کثرت چاہتا ہوں۔“(احمد، طبرانی) ۶۳؎
خودکشی کے رجحان میں اضافہ:
تسخیر کائنات کے جنون میں مبتلا ، لیکن رب کائنات کی باغی اقوام کو رب العالمین نے زندگی کی سب سے بڑی دولت ”سکون“ سے محروم کر رکھا ہے۔ عیش پرست ، شراب اور زنا میں غرق، حسب نسب سے محروم اقوام مغرب کی نئی نسلیں جرائم پیشہ ، مایوس اور ڈپریشن کا شکار ہو کر خود کشی میں اپنی نجات تلاش کر رہی ہیں۔ ۶۴ ؎
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکہ میں ۲۰ لاکھ نوجوان ایسے ہیں جو اپنے جسم زخمی کرکے سکون حاصل کرتے ہیں ان میں سے ۹۹ فیصد لڑکیاں ہیں۔ ماہرین کے مطابق نوجوان کی یہ عادت شدید مایوسی اور ڈپریشن کے باعث ہے۔ ۶۵؎
یہ ہے وہ طرز معاشرت او راس کے ثمرات جس کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہمارے ارباب حل و عقد اور دانشور طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اس طرز معاشرت کو اختیار کر کے خاتون مشرق کی مشکلات اور مسائل حل کئے جاسکتے ہیں اور معاشرے میں اسے باعزت اور با وقار مقام دلایا جا سکتا ہے؟
٭٭٭٭٭
باب چہارم
نکاح کے انسانی زندگی پر اثرات
فصل اوّل:
اسلام اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مزاج اور فطرت کے عین مطابق بنایا ہے۔ اس میں افراط ہے نہ تفریط، انسان کے اندر موجود حیوانی اور انسانی جذبات دونوں سےاسلام اس طرح بحث کرتا ہے کہ انسان ، انسان ہی رہے، حیوان نہ بننے پائے۔ اسلام طرز معاشرت کو سمجھنے کے ہم نکاح کے مختلف فوائدو ثمرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
۱۔ انس و محبت کا ذریعہ: ۔
اس پر آشوب زندگی میں ہر انسان کو ایک گھر اور راحت و آرام کے ساتھ انس و محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ ایسے ساتھی کا خواہشمند ہوتا ہے جو اس کے رازوں کا محافظ، اس کا خیر خواہ ، حامی و مددگار ہو۔تاکہ اس سے انس و محبت حاصل کرے اور اس کی مخلصانہ مدد اور حمایت سے فائدہ اٹھا سکے۔ نیز وہ ایسے انسان کا محتاج بھی ہے جسے وہ اپنا شریک زندگی بنا سکے۔ صحت مندی اور بیماری، عزت و ذلت، خوشی اور غمی، فقیری و امیری، آسائش و تنگ دستی اور ہر حالت میں اس کے لئے وفادار، مہربان اور خیر خواہ ہو، اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے شریک حیات سے بہتر کون ہو سکتا ہے اور کون سی جگہ گھر سے زیادہ مناسب ہو سکتی ہے؟
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہیں میں سے پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اوررحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لئے بہت ساری نشانیاں پائی جاتیہیں ۔“
۲۔ پاکدامنی کا وسیلہ اور گناہوں سے بچنے کا سبب: ۔
انسان کو فطرتاً جنسی عمل کی ضرورت ہوتی ہے اوروہ اس خواہش کی تسکین کا محتاج ہوتا ہے لہٰذا گمراہی میں پڑ جاتا ہے۔ اس بنا پر جنسی خواہش کو پورا کرنے اور گناہوں سے بچنے کے لئے شادی بہترین اور سالم ترین ذریعہ ہے۔ رسولاللہﷺ نے فرمایا:
” جو شخص خدا سے پاک و پاکیزہ ملاقات کرنا چاہتا ہے وہ شادی کرلے۔“
حضرت امام جعفر صادق نے رسول اللہﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
” جس شخص نے شادی کرلی اس نے اپنے آدھے دین کو محفوظ کرلیا۔“
حضرت امام موسیٰ کاظم نے اپنے والد اور انہوں نے رسول اللہ ﷺسے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
” جو شخص جوانی کے شروع میں ہی شادی کرلے تو شیطان یہ فریاد کرتا ہے ، ہائے افسوس اس جوان نے اپنے دوتہائی دین کو محفوظ کرلیا ہے۔ پس اس کے لئے ضروری ہے باقی ایک تہائی دین کو تقویٰ کے ذریعہ محفوظ رکھے۔“
۳۔ جسمانی اور نفسیاتی تندرستی کا ذریعہ: ۔
جنسی عمل اور اس کی انجام دہی ایک فطری ضرورت ہے کہ جس سے جسم اور اعصاب، صحت مند اور تندرست رہتے ہیں۔ لہٰذا اس کو کنٹرول کئے رہنے یا بالکل ختم کردینے سے انسان کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اور وہ معتدل حالت سے خارج ہو جاتا ہے اور ممکن ہے کہ متعدد نفسیاتی بیماریوں جیسے: مسلسل غمزدہ رہنا، ناامیدی ، اضطراب ، ڈر، بدظنی، بے کاری، بے اعتمادی اور غصہ کی اصل بنیاد جنسی خواہش کو نابود کرنا ہی ہو۔ اسی بناءپر صحیح عمر میں شادی کرنا اور شرعی طریقہ سے جنسی خواہش کو پورا کرنا بھی انسانی اعصاب اور جسم کی صحت و تندرستی کا ایک ذریعہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”غیر شادی شدہ مردوں اور عورتوں کی شادی ایک دوسرے سے کردو تاکہ خداان کے اخلاق کو نیک بنا دے ان کے رزق میں وسعت دے دے اور ان کی مروت میں اضافہ کردے۔“
۴۔ اجتماعی ماحول کو سالم بنانے میں مددگار: ۔
اگر انسان آغاز جوانی میں ہی شادی کر لے اور گھریلو زندگی سے وابستہ ہو کر اسی میں مشغول رہے تو وہ بے راہ روی اور اخلاقی برائیوں سے دور رہے گا۔ جس کے نتیجہ میں زنا بالجبر، لڑکیوں اور عورتوں کا غائب ہو جانا، لواط، استمناء، یہاں تک کہ نشہ، قتل اور چوری جیسے جرائم میں بھی کمی ہو جائے گی۔ وقت پر شادی کرنا ماحول اور معاشرہ کی سلامتی اور امنیت کے لئے بہت ہی موثر ہے، اسی وجہ سے اسلام نے بچوں کے سرپرستوں اور مربیوں کو یہ تاکید کی ہے کہ جن جوانوں کی شادی نہیں ہوئی ہے ان کی شادی کا انتظام کریں ۔
جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:
” اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا انتظام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں مالدار بنا دے گا۔ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے۔“
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”بیٹے کے تین حق باپ کے ذمہ ہیں: اس کا اچھا نام رکھے ، اس کو لکھنا پڑھنا سکھائے اور جب سن بلوغ تک پہنچ جائے تو اس کے لئے شادی کے وسائل فراہم کرے۔“
۵۔ انسانی نسل کو آگے بڑھانے کا سبب:۔
اسلام کی نظر میں تولید نسل اور آبادی بڑھانا ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور اسے شادی کے اہم مقاصد میں قرار دیا گیا۔
امام محمد باقر نے رسول اللہﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
” کیا حرج ہے کہ اگر کوئی مومن شادی کرے تو شاید اللہ اسے ایسا فرزند عطا کردے کہ جو زمین کو لا الہ الا اللہ کے بوجھ سے سنگین بنا دے۔“
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” شادی کرو تاکہ تمہاری تعداد زیادہ ہو جائے ، کیونکہ میں قیامت کے دن سبامتوں کے مقابلہ میں تم پر فخر و مباہات کروں گا، یہاں تک کہ ان بچوں کے ذریعہ بھی جو ساقط ہو چکے ہیں ۔“
۶۔ حصول لذت:۔
شادی کا ایک فائدہ لذت حاصل کرنا اور جنسی خواہش کو شرعی طریقہ سے پورا کرنا ہے۔ جنسی لذت دنیا کی لذتوں کے درمیان ایک اہم لذت ہے اور اسلام کی نگاہ میں نہ صرف یہ کہ یہ مذموم نہیں بلکہ یہ ایک شرعی کام ہے اور اگر قصد قربت کے ساتھ انجام پائے تو اس کا ثواب بھی ہے بلکہ بعض اوقات تو یہ عمل واجب بھی ہو جاتا ہے۔
فصل دوئم:
معاشرتی اثرات:
بنی نو ع انسان کے لیے شادی ایک فطرتی ضرورت ہے اسی طرح شادی کا اگلا مرحلہ معاشرتی مصلحت بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے تخلیق انسان کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کیا جو قیامت پر منتج ہو گا۔ اسلامی نکاح کی حدودو قیود میں زندگی گزرانے پر جو انسانی معاشرے پر اثرات و ثمرات مرتب ہوتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
مضبوط معاشرتی اکائی:
انسانی معاشرے کی بنیاد اور اکائی خاندان ہے اور یہ مرد و زن کے ملاپ یعنینکاح کے ذریعے ہی وجود میں آتا ہے۔نسل انسانی کی بقاء ،بچوں کی تربیت اور قومی تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی کا تعلق مستحکم و پائیدار ہو۔اسی لیے اسلام نے زن و شوہر کے تعلق کو ٹوٹنے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور حتی الامکان صلح صفائی،تحمل اور عفو و درگزر کا حکم دیا ہے۔
عزت و ناموس کی حفاظت:
مغربی معاشرے میں عورت کو کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے۔ جہاں پر عورت کی عزت و ناموس کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسلام نے نکاح کے ذریعے مردو زن کی عزت و ناموس کی حفاظت کی جس سے عورت ایک کھلونہ کی بجائے ایک اہم فرد کی حیثیت سے معاشرہ میں اہم مقام رکھتی ہے۔ نکاح سے نہ صرف عزت و ناموس کی حفاظت ہوتی بلکہ عورت کو ایک بلند مقام عطا کیا جس کی مثالیں دوسری اقوام میں ملنا محال ہیں۔
خاندانی پہچان:
ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡاؕ﴾الحجرات ۱۳
اے لوگو! بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھارے خاندان اور قبیلے بنا دئیے تاکہ آپس میں شناخت کر سکو
زوجین کے حقوق و فرائض کا تعین:
نکاح کے بعد شوہر کے حقوق کی ادائیگی عورت پر واجب ہے۔ یہ اس کے لیے فرائض ہیں یعنی شوہر کے جو حقوق ہیں وہ عورت کے لیے فرائض کا درجہ رکھتے ہیں اگر عورت یہ حق ادا نہیں کرتی تو وہ گناہگار ہو گی اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتے گی اسی طرح بیوی کے حقوق کی ادائیگی مرد پر واجب ہے اور یہ مرد کے لیے فرائض کا درجہ رکھتے ہیں یعنی بیوی کے حقوق مرد کے فرائض میں سے ہیں مرد پر ان حقوق کی ادائیگی واجب ہے اگر ادا نہیں کرتا تو گناہگار ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ۶۶؎
﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالْمَعْرُوۡفِ۪ ﴾ البقرۃ ۲۲۸
اور عورتوں کا حق مردوں پر ویسا ہی ہے جیسا مردوں کا حق عورتوں پر ہے۔
اسلام نے زوجین کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا ہے جن کو بروئے کار لاتے ہوے ہوے زوجین اپنی زندگی اسلام اصولوں پر احسن طریقہ سے انجام دے سکتاہے۔
ملت اسلامیہ کے افراد میں اضافہ کا سبب:
نکاح کا ایک بڑا مقصد کثرت نسل ہے شادی عمدہ اولاد کا بہترین ذریعہ ہے اس سے نسل زیادہ ہوتی ہے زندگی کا تسلسل رہتا ہے ان اسباب کی محافظت بھی ہوتی ہے جن کی سر پرستی اسلام نے بڑے عمدہ طریقے سے کی ہے۔
امت محمدیہ قیامت کے دن سب امتوں سے بڑی ہوگی اور اس پر ہمارے پیغمرﷺ فخر کریں گے ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ امت میں اضافے کی فکر کریں اور اسی عورتوں سے شادی کریں جن سے بکثرت نسل پھیلے بلکہ مرد کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں گی اورسب سے اولاد ہو تو مرد کی نسل کس قدر زیادہ ہو گی کم از کم چار گنا زیادہ بنسبت اس شخص کے جس کی صرف ایک ہی بیو ی ہو۔
نکاح کے اس مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے بنی کریم ﷺنے فرمایا:
جاء رجل إلنبیﷺ فقال أنی أصبت ذات حسب و جمال و إنھا لا تلد أفأتز وجھا قال لا ثم أاتاہ الثانیۃ فنھاہ ثم أتاہ الثالثۃ فقال تزوجو الولود فانی مکاثر بکم الأمم
”ایک آدمی بنی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو اور عرض کیا، ایک خوبصورت اور حسب و نسب والی عورت ہے لیکن اس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی کیا میں اس سے نکاح کر لوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”نہ کرو“پھر وہ دوسری مرتبہ حاضر ہو آپ ﷺنے فرمایا ”نہ کرو“ پھر وہ تیسری مرتبہ (اجازت لینے) حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا ”محبت کرنے والی اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت سے شادی کرو کیونکہ میں تمھاری کثرت سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔“
فصل سوئم:
معاشی یا اقتصادی اثرات
عورت معاشی ذمہ داریوں سے بر ی الذمہ:
اسلام نے عورت کو معاشی ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دیا ہے عورت جب ماں ہوتی ہے تو اس کی کفالت اولاد کے ذمے ہوتی ہے اور جب بیٹی ہوتی ہے تو اس کی کفالت باپ کے ذمے ہوتی ہے اور جب بیوی کی حیثیت اختیار کرتی ہے تو اس کی نہ صرف کفالت خاوند کے ذمے ہوتی ہے بلکہ اسے حق مہر کی صورت میں معاشی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ اسلام نے بچوں اور بیوی کا سارا معاشی بوجھ خاوند پر ڈالا ہے ۔ گھر اور بیوی بچوں کے تمام اخراجات کا ذمہ دار ہے عورت کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور خوشی سے خاوند کی معاشی مدد کرنا چاہے تو کرسکتی ہے لیکن خاوند اسے مدد کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ہے۔ ۶۷ ؎
وراثت میں حصہ:
اسلام نے عورت کو میراث میں ہر حیثیت سے حصہ دار ٹھہرایا ہے چاہے وہ ماں کی حیثیت سے ہو یا بیوی یا بیٹی یا بہن کی حیثیت سے ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
﴿يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ﴾
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے،
اسلام کا عورت پر یہ احسان ہے کہ اسے میراث میں باقاعدہ حصہ دار بنایا اور اسے ذاتی جائیداد و ملکیت رکھنے کا حق دیا ہے۔ ۶۸ ؎
مال و جائیداد رکھنے کا حق:
اسلام نے عورت کو ذانی مال اور جائیداد رکھنے کا حق دیا ہے خواتین کو اپنی کمائی یا اپنا ورثہ یا اکتسابی جائیداد میں تصرف کا ویسے ہی حق حاصل ہے جیسے کہ مرد کو، یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں ہندو عورت کو ۱۹۵۶ء تک جائیداد رکھنے کا حق نہ تھا جب کہ اسلام نے یہ حق چودہ سو سال قبل عورت کو دے دیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْوَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللهَ مِن فَضْلِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾
اور تم اس چیز کی تمنا نہ کیا کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ ۶۹ ؎
باب پنجم
نتائج وحاصلات
بے راہ روی سےنجات
بلاشبہ جنسی خواہش ، تمام خواہشات انسانیہ پر حاوی ہے جو کہ فرد سے تکمیل و تسکین کا تقاضا کرتی ہے اور اگر اسے اسباب تسکین مہیا نہ کیے جائیں تو وہ نہ صرف فرد کو شدید قلق و اضطراب میں مبتلا کر دیتی ہے بلکہ بسا اوقات ہلاکت کی اتھا گہرائیوں میں غوطہ زن ہوے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اور اس کی تکمیل کا فطری اور عمدہ ترین ذریعہ نکاح ہے جس سے حواس خمسہ کی افزائش کے ساتھ ساتھ نظر حرام سے بچ جاتی ہے اور دل حلال پر قانع ہو جاتا ہے ۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
”إن المرأۃ تقبل فی صورۃ شیطان و تدبر فی صورۃ شیطان فإذا أبصر أحد کم امرأۃ فلیأت أھلہ فإن ذلک یرد ما فی نفسہ“ ۷۰؎
”عورت شیطان کی صورت میں آتی ہے اور شیطان کی صورت میں جاتی ہے جب تم میں سے کسی کو ایسی عورت نظر آئے جو اسے اچھی لگے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے اہل کے پاس آئے ۔ یہ عمل اس چیز کو ختم کر دے گا جو اس کے نفس میں ہے۔“
اسی طرح ارشادی باری تعالیٰ ہے:
﴿نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُواْ حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُواْ لِأَنفُسِكُمْ ﴾؎البقرۃ:۲۲۳
” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ، اور اپنے لئے آئندہ کا کچھ سامان کرلو، “
الغرض مسلم نوجوان کے لئے جنسی خواہش کی تسکین کا واحد ذریعہ نکاح ہے جو کہ خاندان و معاشرہ کی بقاء کا ضامن بھی ہے اور جنسی خواہش کی تکمیل بھی اس کا بنیادی مقصد ہے۔
ایمان کی تکمیل
نکاح کا بنیاد ی مقصد تکمیل ایمان ہے۔ گویا شادی کرنا عبادت ہے جس سے انسان اپنے نصف ایمان کو مکمل کرتا ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :
”من رزقہ اللہ امراءۃ صالحۃ فقد أعانہ اللہ علی شطر دینہ فلیتق اللہ فی الشطر الثانی“
”جسے اللہ کریم نیک بیوی عطا کردے تو اس نے اسے نصف دین پر مدد دی اسے چاہیے کہ باقی نصف میں بھی اللہ سے ڈرے۔“ ۷۱ ؎
ابو حاتم فرماتے ہیں کہ آدمی اپنے بطن اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت پر کاربند ہوتا ہے۔ اور شادی و نکاح سے میاں بیوی ان دونوں کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ۷۲؎
شرم و حیا کا حصول
بلا شبہ ہر ایک سلیم الفطرت شخض عفت و عصمت اور پاکدامنی کو پسند کرتا ہے اور اس کا مکمل حصول تو نکاح کی ذریعہ سے ہی ممکن ہے اس لئے مقاصد نکاح میں اس (عفت و عصمت) کو ممتاز مقام حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ مرد کی عزت گوارا نہیں کرتی کہ اس کی بیوی کس اور مرد کے ساتھ بھی مزے لے لے کر باتیں کرے کسی اور کے حسن و جمال کے تذکرے کرے ۔ یا کسی بھی طرح کی دلچسپی کا مظاہرہ کرے یا غیر محرموں کے سامنے اپنے حسن کا اظہار کرے۔ ویسے بھی اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت کا اپنے خاوند کے علاوہ کسی اور کے سامنے بناؤ سنگھار کر کے آنا درست نہیں ہاں غیر محرم سے ضرورت کے موقع پر سنجیدگی سے بات کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ایک سمجھ دار خاتون وہی ہے جو اپنی تمام دلچسپیوں کا محور اپنے شوہر کو بنالے اور اس کے ساتھ تمام قسم کی پیار بھری باتیں کرے ، اس کے سامنے اپنے حسن و جمال کا مظاہرہ کرے اور کبھی اپنے بارے میں شک کا موقع پیدا نہ ہونے داے۔۷۳؎
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
جو عورت پانچ وقت نماز پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ (عزت و عصمت) کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے اسے (روز قیامت) کہا جائے گا کہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔ ۷۴ ؎
سنت رسولﷺ پر عمل
نکاح کا ایک اور مقصد رسول اللہﷺ کی سنت مطہر ہ پر عمل پیرا ہونا ہے۔ امت مسلمہ تو درکنار غیر مسلموں کے ہاں بھی رسول اللہﷺ کی حیثیت مسلم ہے اور نبی اکرم کی حیات طیبہ ہمارے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے تو بعض لوگ شادی و نکاح کی خواہش نہ رکھتے ہوئے بھی اس لیے نکاح کر لیتے ہیں کہ یہ حضور نبی کریم ﷺکی سنت مبارکہ ہے۔
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
“عن أنس أن نفراً اصحاب النبی ﷺ سألو أزواج النبی ﷺ عن عملہ فی السر فقال بعصھم لا أتزوج النساء وقال بعضیھم لا آکل اللحم وقال بعضھم لا أَنام علی فراش فحمد اللہ وأثنی علیہ فقال م بال أقوام قالو ا کزالکنی أصلی و أنام وأصوام و أفطر وأتزوج النساء فمن رغب عنی سنتی فلیس منی” ۷۵ ؎
“حضرت ا نس روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت نے رسولاللہﷺ کی ازواج مطہرات سے نبی کریم ﷺ کے خفیہ اعمال کے بارے میں سوال کیا ان میں بعض نے کہا میں شادی نہیں کروں گا اور بعض نے کہ کہ میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور کسی نے کہا کہ میں آج کے بعد آرام نہیں کروں گا تو آپ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا میں نماز بھی پڑھتا ہوں ، سوتا بھی ہوں اور روزہ رکھتا بھی ہوں، افطار بھی کرتا ہوں میں نے عورتوں سے شادی بھی کی ہے (خبردار) جس نے میر سنت سے رو گردانی کی تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
مضبوط معاشرتی اکائی
خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی یونٹ ہے جو مرد اور عورت کے درمیں رشتہ ازدوج سے وجود میں آتا ہے۔ معاشرے کی ترقی و نشوونما کا انحصار جہاں خاندان پر ہے وہاں معاشرے کی تنزلی و انتشار کا انحصار بھی اسی خاندان پر ہے ۔ کیونکہ خاندان ہی معاشرے کی اساسی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی سے معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ جس قدر خاندان کی اکائی مضبوط اور مستحکم ہو گئی اس قدر ہی معاشرہ اور ریاست مضبوط اور مستحکم ہوں گے ۔ خاندان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خاندان کی بقاء اور تحفظ کو شریعت کے بنیادی مقاصد مین شمار کیا گیا ہے۔ اور اسلامی تعلیمات کا ایک مکمل شعبہ جو مناکحات یا اسلام کے عائلی نظام سے موسوم ہے۔اس مقصد کے لئے وجود میں لایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ایک تہائی سے زائد احکام، عائلی نظام کو منضبط کرنے کے لئے آئے ہیں۔ ۷۶؎
اسلامی معاشرے میں خاندان اس قدر اعلیٰ کردار ادا کرتا ہے کہ جس قرد اپنے آپ کو تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ کہنے والا اپنی ترقی پر فخر کرنے والا مغربی خاندان بھی اعلیٰ کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اسلام تمام برائیوں سے اجتناب کا درس دیتا ہے اور ہر ایک کے حقوق کو پورا کرتا ہے یہی وجہ اے کہ اسلامی معاشرے میں خاندان کے بہتریں کردار کو کوئی غیر معاشرہ چیلنج نہیں کر سکتا ۔
نسل انسانی کی بقاء ، کثرت امت
نکاح کا ایک بڑا مقصد کثرت نسل ہے شادی عمدہ اولاد کا بہترین ذریعہ ہے اس سے نسل زیادہ ہوتی ہے زندگی کا تسلسل رہتا ہے ان اسباب کی محافظت بھی ہوتی ہے جن کی سرپرستی اسلام نے بڑے عمدہ طریقے سے کی ہے۔
امت محمدیہ قیامت کے دن سب امتوں سے بڑی ہوگی اور اس پر ہمارے پیغمر فخر کریں گے ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ امت میں اضافے کی فکر کریں ایسی عورتوں سے شادی کریں جن سے بکثر نسل پھیلے بلکہ مرد کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں گی اور سب سے اولاد ہوتو مرد کی نسل کس قدر زیادہ ہوگی کم از کم چار گنا زیادہ بنسبت اس شخص کے جس کی ایک ہی بیوی ہو۔ ۷۷ ؎
عائلی زندگی کا تحفظ
زوجین کی ازدواجی زندگی کے ہر معاملہ اور ہر حال کی جو ہدایتیں قرآن وسنت میں مذکور ہیں، ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے اور ٹوٹنے نہ پائے، چنانچہ اس تعلق کو تلخیوں اور رنجشوں سے پاک وصاف رکھنے کی ہدایت ہے ، اگر کبھی رنجش پیدا ہو جائے تو اس کے ازالے کی پوری کوشش کی گئی ہے اور شریعت نے دونوں کو اپنے اپنے فرائض کا احساس دلاتے ہوئے مردوں سے کہا کہ عورت تیری باندی ، محکومہ نہیں ہے، وہ تیری برابر کی شریک زندگی ہے ، جو تیرا حق ہے وہی اس کا بھی حق ہے ، تمہارے ہی جیسی ایک انسان ہے ، ایک ہی جان سے پیدا ہوئی ہے ، چنانچہ فرمایا گیا:
﴿عاشروھن بالمعروف﴾
”یعنی عورت کے ساتھ معروف طریقہ پر اچھا سلوک کرو“
اسی کے ساتھ یہ ارشاد فرمایا:
﴿ ولھن مثل الذین علیھن بالمعروف﴾
”کہ جس طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں کہ جن کی ادائیگی ضروری ہے، اسی طرح مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں کہ جن کی ادائیگی ضروری ہے۔“
یہ آیت حقوق باہمی کی ادائیگی پر شرعی ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے، ارشاد خداوندی ہے:
﴿ وللرجال علیھن درجة﴾
” عورتوں پر مردوں کو ایک گونہ فضیلت حاصل ہے “
مردوعورت میں درجہ کا تفوق دنیوی معاملات میں ہے، آخرت کی فضیلت میں اس کا کوئی اثر نہیں۔ حکم ربانی ہے:
﴿ ان اکرمکم عندالله اتقاکم﴾․
”کہ اللہ کے نزدیک آخرت میں سب سے زیادہ مکرم تم میں سے بڑے متقی ہیں۔“ ۷۸؎
ذہنی ،جسمانی اور نفسیاتی تسکین کا ذریعہ
بلا شبہ راحت و سکون کے حصول کا فطری طریقہ نکاح ہے ، جس سے روحانی، جسمانی اضطرب سے نجات ملتی ہے اور نہ صرف نظر حرام کی طرف جھانکنے سے بچ جاتی ہے بلکہ دل حلال پر قانع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾ ؎ الروم :۲۱
“اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں”
مذکورہ آیت نکاح کے ذریعہ راحت و سکون ہونے پر واضح دلیل ہے اسی طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
“حبب إلی النساء و الطیب و جعلت قرۃ عینی لی فی الصلوٰۃ” ۷۹ ؎
“(میرے دل میں) عورتوں اور خوشبو کی محبت ڈالی گئی ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔”
٭٭٭٭٭
باب ششم
سفارشات
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو کی بڑی واضح او ر تفصیل کے ساتھ معلومات بہم پہچاتا ہے۔ نکاح کے تمام پہلوں معاشرتی ، نفسیاتی، مذہبی اور عائلی پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سفارشات کی جاتی ہیں۔
بالغ و عاقل ہوتے ہی نکاح
موجودہ دور میں بے راہ روی کا ایک سبب شادی دیر سے ہونا بھی ہے اس لیےلڑکی جب بالغ اور صاحب شعور ہوجائے تواُس کی شادی جلد از جلد کر دی جائے، اسی طرح جب لڑکا بالغ ہو جائے اور وہ کفالت کرنے کے قابل ہو جائے تو اُس کی شادی کردی جائے۔ کیونکہ شادی جلد ہونے کی صورت میں انسان کئی قسم کی اخلاقی و معاشرتی برائیوں سے بچ جاتا ہے۔
منگنی اور نکاح میں مختصر ترین عرصہ
واضح رہے کہ شادی سے پہلے منگنی کرنا محض جواز کی حد تک ہے ورنہ یہ کوئی شادی کا ضروری حصہ نہیں کہ پہلے منگنی ہی کی جائے پھر ایک عرصہ کے بعد نکاح و رخصتی عمل میں لائی جائے۔ عہد رسالت میں منگنی کی بجائے نکاح کا رواج زیادہ تھا اور خود نبی اکرمﷺ نے بھی سیدھا نکاح کا راستہ اختیا کیا۔آپ ﷺکے بعض نکاحو ں میں ازواج مطہرات کی رخصتی فوراً ہی ہو گئی جبکہ بعض کی رخصتی قدرے تاخیر سے ہوئی۔ ۸۰؎
منگنی کے عرصہ کے دوران دونوں خاندانوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور جانچنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ جس سے لڑکے اور لڑکی کے بارے میں ضروری معلومات کی تصدیق بھی کی جا سکتی ہے۔ جس کی وجہ سے نکاح کے بعد خانگی زندگی کی پچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ تاہم منگنی کے بعد بلا وجہ مہینوں اور سالوں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور زوجین کو جلد از جلد شادی کے بندھن میں باندھ دینا چاہیے۔
نکاح میں فضول رسومات کی حوصلہ شکنی
نکاح ایک مقدس فریضہ ہے جس کو سادگی اور احسن طریقہ سے سر انجام دینا سُنت نبوی ﷺہے۔ اس موقع بلا وجہ مختلف رسومات پر دولت خرچ کرنا تصرف کے زمرہ میں آتا ہے۔ شادی میں رسومات جیسے ناچ گانا،غیر محرم مرد و زن کی کی مخلوط مجالس، لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو انگوٹھیاں پہنانا، مائیوں بٹھانا، لڑکے لڑکی کو ”گانّا“ باندھنا، سہرہ بندی، دولہا اور دلہن کو سلامیاں دینا، سوا بتیس روپے یا ساڑھے بتیس روپے حق مہر مقرر کرنا، بارات میں لوگوں کی کثیر التعداد لے کر جانا، بینڈ باجا لے کر جانا، بھانڈ اور مسخروں کا ناچ گانا، آتش بازی پر ہزاروں روپے ضائع کرنا، ”بِد“اور”وَری“ لے کرجانا، دودھ پلائی کی رسم، لڑکے والوں کا قیمتی جہیز کا مطالبہ کرنا، چاول پھینکنے کی رسم، دولہا کے گھر داخلے سے پہلے چوکھٹ پر تیل انڈیلنا، منہ دکھائی کی رسم،گود بٹھائی کی رسم، جوتا چھپائی کی رسم اور اسی طرح سندھ میں قرآن سے شادی کرنا سب غیر شرعی ہیں۔ ان سب کی ایک مسلمان کی حیثیت سے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور اسلام کے رہنما اصولوں کو اپنانا چاہیے۔
معقول حق مہر
حق مہر کی وہی مقدار تسلیم کی جائے گی جس پر فریقین راضی ہو جائیں حق مہر دس درہم سے زیادہ ہونا چاہیے دس درہم سے زیادہ ، یہ ایک ہزار ، ایک لاکھ اور ایک کروڑ بھی ہو سکتا ہے لڑکے کی مالی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیےمہر نہ اتنا کم ہو کہ اس کی اہمیت ، حیثیت اور قدر و قیمت ہر نہ رہے اور نہ ہی اتنا زیادہ ہونا چاہیے کہ یہ لڑکے کے لیے ادا کرنا ہی محال ہو جائے۔ ۸۱ ؎
نکاح کی شرائط کا کم سے کم کرنا
نکاح میں بعض اوقات عورت یا مرد کی طرف سے چند شرائط عائد کر دی جاتی ہیں جیسے عورت کو طلاق کا حق، طلاق کی صورت میں مخصوص رقم دینے کا مطالبہ، ماہانہ مقرر کردہ خرچہ کا مطالبہ وغیرہ وغیرہ۔ اسلام میں ان شرائط کو نکاح پر مقرر کرنا جائز ہے اور زوجین اس کو ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔ مگر ایسی شرائط جو حرام ہیں ان کی پابندی کا حکم نہیں جیسے سوروں کی تجارت کی شرط وغیرہ۔ تاہم ایسی شرائط بعض اوقات خانگای زندگی میں مسائل کا سبب بنتی ہیں اس لیے نکاح کے وقت شرائط کم سے کم ہونا چاہیے تاکہ کسی کے لیے مشکل کا باعث نہ بنے۔
زوجین کی رضا مندی کی شمولیت
ولی کی شرط کے ساتھ ساتھ اسلام نے بالغ لڑکی کی رضامندی بھی صحت نکاح لیے ویسے ہی شرط قرار دی ہے جیسے کہ خود ولی کی اجازت۔ اس لیے لڑکی خواہ باکرہ ہو یا شوہر دیدہ، شادی کے لیے مطلوبہ شوہر کے حوالہ سے اس کی اجازت لینا بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر لڑکی ایسا نکاح فسخ کرانے کے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کی مجاز ہے۔ ۸۲؎
والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی پسند اور نہ پسند کو سامنے رکھتےہوئے اُن کی شادی اسلامی اصولوں کے مطابق کریں۔ اس سے نہ صرف زوجین میلان کے ساتھ زندگی گزاریں گے بلکہ والدین کے لیے بھی راحت کا باعث بنیں گے۔ اگر اولاد غلطی پر ہو تو اُن کو پیار اور محبت و حکمت کے ساتھ سمجھایا جائے تا کہ آئندہ زندگی اُن کے لیے آسان رہے۔
تعدّد ازواج کی حوصلہ افزائی
عورتوں کو ازواج مطہرات l کی زندگیوں کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ ان کے لیے دین ہمیشہ ہر چیز پر مقدم رہا ہے۔ تعدد ازواج کے خلاف منفی ردعمل کے اظہار کے بجائےعورتوں کے لیےیہ بہتر ہوگا کہ اللہ کی طرف سے فریضہ خیال کرتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے تعدد ازواج کی حکمتوں کو قبول کرنا چاہیے اور معاشرے میں منفی ہندوانہ سوچ کا خاتمہ کرنا چاہیے اور تعدد ازواج کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ موجودہ دور میں مزید بھی دیکھا جائے تو لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے نسبت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس مسئلہ کا حل صرف تعد ازواج کی صورت میں نکلتا ہے۔
نکاح میں سادگی کا عنصر
نکاح مسجد میں ہونا چاہئے، جہیز اور بَری وغیرہ کی نمائش بالکل نہیں ہونی چاہئے، گھروں کی تزئین و آرائش اور بالخصوص روشنی وغیرہ پر اسراف سے بچنا چاہئے اور دعوتِ طعام صرف ایک ضیافت ہونی چاہئے، یعنی دعوتِ ولیمہ(اور اس میں بھی حد سے زیادہ تکلف اور اسراف اور تفاخر نہ ہو) ۔ لڑکی والوں کی جانب سے نکاح کے موقع پر دعوتِ طعام کا سلسلہ بالکل بند ہونا چاہیے ۔
۸۳؎
٭٭٭٭٭
حواشی
۱؎ تاریخ ہندوستان، ابوریحان البیرونی ، صفحہ نمبر ۲۰۳
۲؎ پردہ ، سید ابو الاعلیٰ مودودی ، صفحہ نمبر ۱۰، اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ، لاہور، ۱۹۸۹
۳؎ القاموس المحیط صفحہ نمبر ۲۲۳ بیروت، لبنان: الموسۃ العربیہ
۴؎ کتاب الفقہ ،عبد الرحمٰن الجزیری ، مترجم منظور احسن عباسی، جلد نمبر ۴ صفحہ نمبر ۱
۵؎ القاموس لغتہ و اصطلاحا، صفحہ نمبر ۳۶۰۔
۶؎ کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ، عبد الرحمٰن الجزیری، مترجم منظور احسن عباسی، جلد نمبر ۴، صفحہ نمبر۱،۲۔
۷؎ مظاہرِ حق، محمد قطب الدین، جلد نمبر ۳ ، صفحہ نمبر ۲۴۶۔
۸؎ اسلام کے عائلی قوانین،مولانا مجاہد الاسلام ، صفحہ نمبر ۳۲۔
۹؎ صحیح البخاری، کتاب النکاح ، باب الترغیب فی النکاح۔
۱۰؎ مشکوٰۃ المصابیح کتاب النکاح۔
۱۱؎ الرعد ۳۸
۱۲ ؎ ترمذی، بحوالہ اسلامی معاشرہ ،مولانا یوسف اصطلاحی ، صفحہ نمبر۶
۱۳ ؎ بخاری ، کتاب النکاح، باب قول النبی ﷺ مَنِ السْتَطَاعَ مِنْکُمْ
۱۴؎ بخاری ، بحوالہ اسلامی معاشرہ ،مولانا یوسف اصطلاحی ، صفحہ نمبر ۶۳
۱۵ ؎ اسلام میں نکاح کی اہمیت، از: سید کمال اللہ بختیار ندوی، لکچرر شعبہٴ عربی دی نیوکالج چینائی۔
http://www.pakstudy.com/forum/index.php?topic=1913.0 بحوالہ
۱۶ ؎ صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب من قال لا نکاح الا بولی،حدیث نمبر ۵۱۲۷۔
۱۷ ؎ اسلام میں خواتین کے حقوق،ڈاکٹرطاہر حمید تنولی، صفحہ نمبر۱۶۔۱۸، منہاج القرآن پبلیکشنز
1. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، کتاب النکاح، 9 : 182. 185
2. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب من قال : لا نکاح إلا بولي 5 : 1970، رقم : 4834
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب في وجوه النکاح 2 : 281، رقم : 2272
۱۸ ؎ اسلام کا معاشرتی نظام ، ڈاکٹر خالد علوی، صفحہ نمبر ۹۴
۱۹؎ ازدواجی زندگی کے لیے اہم قانونی تجاویز ، مولانا جعفر خان ندوی، صفحہ نمبر۷
۲۰ ؎ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس، جلدہشتم،صفحہ نمبر۴۴۴
۲۱؎ عورت اسلامی معاشرہ میں، سید جلال الدین عمری ، صفحہ نمبر ۲۱
۲۲ ؎ تاریخ اسلام،مولانا اکبر شاہ، جلد اول و دوئم ، صفحہ نمبر۲۸
۲۳؎ ضیاء النبی ﷺ، پیر کرم علی شاہ ، جلد اوّل ،صفحہ نمبر ۷۹۔ ۸۰
۲۴؎ ایران بعہدِ ساسانیاں ، صفحہ نمبر ۴۳۶۔ ۴۳۷۔ بحوالہ: ضیاء النبی ﷺ، پیر کرم علی شاہ ، جلد اوّل، صفحہ نمبر ۸۲۔
۲۵؎ تاریخ اسلام، مولانا اکبر شاہ، جلد اوّل و دوئم ، صفحہ نمبر ۷۰۔
۲۶؎ ضیاء النبی ﷺ، پیر کرم علی شاہ، جلد اوّل، صفحہ نمبر ۱۶۱۔
۲۷؎ منوسمرتی،منو، باب ۵، ۱۵۵ تاا۱۵۷ ۔
۲۸؎ شادی ایک مطالعہ، انعام الرحمٰن سحری، صفحہ نمبر ۲۶۳
۲۹؎ الطاہر شمارہ نمبر 43 ڈاکٹر غلام یاسین طاہری
http://www.islahulmuslimeen.org/urdu/attahir/attahir_43/attahir_43_05.htmبحوالہ
۳۰؎ پیدائش ، باب ۱۷:۳، صفحہ نمبر ۷۔
۳۱ ؎ تمدنِ عرب، صفحہ نمبر ۳۷۳
۳۲؎ مذاہب عالم میں شادی بیاہ کی تعلیمات ، حافظ میں زاہد، صفحہ نمبر ۱۰۴
۳۳ ؎ سیرت النبیﷺ، سید سلمان ندوی، جلد نمبر ۴، صفحہ نمبر ۲۴۸
۳۴؎ پردہ، ابو الاعلی مودودی ،صفحہ نمبر ۲۶
۳۵؎ الطاہر شمارہ نمبر 43 ڈاکٹر غلام یاسین طاہری
http://www.islahulmuslimeen.org/urdu/attahir/attahir_43/attahir_43_05.htmبحوالہ
۳۶؎ اسلام کا معاشرتی نظام ، ڈاکٹر خالد علوی، صفحہ نمبر ۱۳۴
۳۷؎ سیرتِ محبوبِ کائنات، عبد الحمید دہلوی، صفحہ نمبر ۵۶
۳۸؎ آداب شہریت ، ایم عبد الرحمٰن، صفحہ نمبر ۹۸۔۹۹
۳۹؎ مسند احمد، کتاب مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ، راوی: سعد بن ابی وقاص
۴۰؎ جدید دنیا میں اسلامی قوانین اور خواتین ، محمد صدیق خان شبلی ،صفحہ نمبر ۶۹۔
۴۱؎ صحیح مسلم۸۰۱
۴۲؎ http://narowal.org/mazameen/arshad_mangni_ke_ahkam.html
۴۳؎ مجموعہ قوانین اسلام، ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن، جلد اوّل صفحہ نمبر ۲۶۳، ۲۲۴۔
۴۴ ؎ ہفت روزہ تکبیر ۱۹ دسمبر ۱۹۹۶
۴۵؎ مجلّہ الدعوۃ، ستمبر ۱۹۹۵ء
۴۶؎ ہفت روزہ تکبیر ۶ستمبر ۱۹۹۷
۴۷ ؎ ہفت روزہ تکبیر ۱۷ مارچ ۱۹۸۸ء
۴۸؎ نکاح کے مسائل ، محمد اقبال کیلانی، صفحہ نمبر۱۴۔۱۵
۴۹؎ بحوالہ http://www.cdc.gov/nchs/data/databriefs/db18.htm
۵۰؎ بحوالہ http://dailyaag.com/phase2/index.php/component/content/article?id=4320
۵۱ ؎ خاتون اسلام، مولانا وحید الدین خان، صفحہ نمبر 73
۵۲؎ ہفت روزہ تکبیر، ۱۳ اپریل ۱۹۹۵ء
۵۳ ؎ خاتون اسلام ، مولانا وحید الدین خان، صفحہ نمبر ۹۳
۵۴؎ نوائے وقت ۲۶ جون ۱۹۹۶
۵۵؎ نکاح کے مسائل ، محمد اقبال کیلانی، صفحہ نمبر ۲۱۔۲۲
۵۶؎ ہفت روزہ تکبیر ، ۴ ستمبر ۱۹۹۷ء
۵۷؎ ہفت روزہ تکبیر ، ۱۳ ستمبر ۱۹۹۵ء
۵۸؎ اردو ڈائجسٹ (امریکہ بہادر کا اصلی چہرہ) جون ۱۹۹۶ء
۵۹ ؎ نوائے وقت ، ۷ اگست ۱۹۹۷ء
۶۰؎ الامراض الخبیثیہ، ڈاکٹر سیف الدین شاہین، صفحہ نمبر ۴۳
۶۱ ؎ نوائے وقت، ۲ اپریل ۱۹۹۶ء
۶۲؎ جنگ ، لاہور، ۲۵ جون ۱۹۸۶
۶۳؎ نکاح کے مسائل ، محمد اقبال کیلانی، صفحہ نمبر ۲۴
۶۴ ؎ نکاح کے مسائل ، محمد اقبال کیلانی، صفحہ نمبر ۲۴
۶۵؎ روزنامہ نوائے وقت، لاہور اگست ۱۹۹۷ء
۶۶؎ شادی کا انسائیکلوپیڈیا،فیاض احمد فیاض ، صفحہ نمبر ۱۲۳، نوریہ رضویہ پبلیکیشنز، گنج بخش روڈ لاہور، دسمبر ۲۰۰۹ء
۶۷ ؎ شادی کا انسائیکلو پیڈیا ، فیاض احمد فیاض ، صفحہ نمبر ۴۴، نوریہ رضویہ پبلی کیشنز ، گنج بخش روڈ لاہور، دسمبر ۲۰۰۹ء
۶۸ ؎ شادی کا انسائیکلو پیڈیا ، فیاض احمد فیاض ، صفحہ نمبر ۴۴، نوریہ رضویہ پبلی کیشنز ، گنج بخش روڈ لاہور، دسمبر ۲۰۰۹ء
۶۹ ؎ شادی کا انسائیکلو پیڈیا ، فیاض احمد فیاض ، صفحہ نمبر ۴۵، نوریہ رضویہ پبلی کیشنز ، گنج بخش روڈ لاہور، دسمبر ۲۰۰۹ء
۷۰؎ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب ندب من رأی امرأۃ فوقعت فی نفسہ إلی أن یأتی امرأتہ أو جاریتہ فیواقعھا:۱۴۳۰
۷۱ ؎ شعب الایمان :۲/۴۶۵
۷۲؎ فیض القدیر :۶/۱۲۸
۷۳؎ اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار،حافظ حسین ازہر، صفحہ نمبر ۵۳۔۵۴
۷۴ ؎ مسند احمدبن حنبل، احمد بن حنبل ، ۱۶۶۴
۷۵ ؎ صحیح مسلم ، کتاب النکاح، باب استجاب النکاح، ۳۴۰۳
۷۶؎ اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار،حافظ حسین ازہر، صفحہ نمبر ۳۵۳
۷۷ ؎ اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار،حافظ حسین ازہر، صفحہ نمبر۵۰
۷۸؎ اسلام اور ازدواجی زندگی، مولانا محمد شاہد جونپوری،
http://www.farooqia.com/ur/lib/1431/11/p30.php بحوالہ
۷۹ ؎ مسن احمد بن حنبل، احمد بن حنبل ، المکتب الاسلامی، بیروت :۱۲۶۴۴
۸۰؎ ھَدیۃ ُالعروس ،حافظ مبشر حسین لاہوری ، صفحہ نمبر ۱۱۳ ، مبشر اکیڈمی لاہور، جون ۲۰۰۳ء
۸۱ ؎ شادی کا انسائیکلوپیڈیا،فیاض احمد فیاض ، صفحہ نمبر ۱۱۸، نوریہ رضویہ پبلیکیشنز، گنج بخش روڈ لاہور، دسمبر ۲۰۰۹ء
۸۲؎ ھَدیۃ ُالعروس ،حافظ مبشر حسین لاہوری ، صفحہ نمبر ۱۳۴ ، مبشر اکیڈمی لاہور، جون ۲۰۰۳ء
۸۳؎ ایک اصلاحی تحریک، ڈاکٹر اسرار احمد، صفحہ نمبر۸ ۔
مصادر و مراجع
1. آداب شہریت ، ایم عبد الرحمٰن
2. اردو ڈائجسٹ
3. ازدواجی زندگی کے لیے اہم قانونی تجاویز ، مولانا جعفر خان ندوی
4. اسلام کا معاشرتی نظام ، ڈاکٹر خالد علوی
5. اسلام کے عائلی قوانین،مولانا مجاہد الاسلام
6. اسلام میں خواتین کے حقوق،ڈاکٹرطاہر حمید تنولی
7. اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار،حافظ حسین ازہر
8. اسلامی معاشرہ ،مولانا یوسف اصطلاحی
9. الامراض الخبیثیہ، ڈاکٹر سیف الدین شاہین
10. الرعد ۳۸
11. القاموس المحیط
12. القاموس لغتہ و اصطلاحا
13. انجیل مقدس
14. انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس
15. ایک اصلاحی تحریک، ڈاکٹر اسرار احمد
16. پردہ ، سید ابو الاعلیٰ مودودی
17. تاریخ اسلام، مولانا اکبر شاہ
18. تاریخ ہندوستان، ابوریحان البیرونی
19. تمدنِ عرب
20. جدید دنیا میں اسلامی قوانین اور خواتین ، محمد صدیق خان شبلی
21. خاتون اسلام ، مولانا وحید الدین خان
22. روزنامہ جنگ ، لاہور
23. روزنامہ نوائے وقت
24. سیرت النبیﷺ، سید سلمان ندوی
25. سیرتِ محبوبِ کائنات، عبد الحمید دہلوی
26. شادی ایک مطالعہ، انعام الرحمٰن سحری
27. شادی کا انسائیکلوپیڈیا،فیاض احمد فیاض
28. صحیح البخاری، محمد اسماعیل
29. صحیح مسلم
30. ضیاء النبی ﷺ، پیر کرم علی شاہ
31. عورت اسلامی معاشرہ میں، سید جلال الدین عمری
32. فیض القدیر
33. کتاب الفقہ ،عبد الرحمٰن الجزیری ، مترجم منظور احسن عباسی
34. مجلّہ الدعوۃ
35. مجموعہ قوانین اسلام، ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن
36. مذاہب عالم میں شادی بیاہ کی تعلیمات
37. مسند احمد
38. مشکوٰۃ المصابیح
39. مظاہرِ حق، محمد قطب الدین
40. منوسمرتی،منو
41. نکاح کے مسائل ، محمد اقبال کیلانی
42. ھَدیۃ ُالعروس ،حافظ مبشر حسین لاہوری
43. ہفت روزہ تکبیر
44. http://dailyaag.com/phase2/index.php/component/content/article?id=4320
45. http://narowal.org/mazameen/arshad_mangni_ke_ahkam.html
46. http://www.cdc.gov/nchs/data/databriefs/db18.htm
47. http://www.farooqia.com/ur/lib/1431/11/p30.php
48. http://www.islahulmuslimeen.org/urdu/attahir/attahir_43/attahir_43_05.htm
49. http://www.islahulmuslimeen.org/urdu/attahir/attahir_43/attahir_43_05.htm
50. http://www.pakstudy.com/forum/index.php?topic=1913.0
No comments:
Post a Comment