مذہب اور سائینس کا ٹکراو: مسلم دنیا (حصہ دوم
امام دین؛
مغرب تو جاہلیت کی خرافات سے جان چھڑا کرعلوم و فنون سے مزیں ترقی کی اس راہ پر گامزن ہے جس کا ہر قدم اسے ہم سے سینکڑوں سال دور لیے جا رہا ہے۔ اہل مغرب نے اگرچہ مذہب کو مکمل طور پر خیر باد نہیں کہا لیکن اس کی اجارہ داری کو چرچ کی چار دیواری تک محدود کر کے ایک سیکولرمعاشرہ ترتیب دیا ہے۔ ہمارے ہاں سیکولر کو لادین، بے دین اور شیطانیت سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ اس لفظ کی غلط تشریح ہے۔
جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ہے کہ دین کے بیشتر رکھوالے اپنے تئیں کچھ باتیں گھڑ کہ ان کو مقبول عام کر دیتے ہیں اور سادہ لوح لوگ ان کو مذہبی پیشوا سمجھتے ہوئے اسے دین کا درجہ دیتے ہوئے اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ اسی طرح سیکولر معاشرے سے مراد ایسا معاشرہ ہے جس میں ہر شخص اپنے دین کے انتخاب اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہے لیکن وہ اپنے نظریات کسی پر تھونپ نہیں سکتا۔ مزید براں یہ کہ ریاست کی نظر میں تمام افراد خواہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق رکھیں یکساں ہیں اور ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جاتا جو کسی ایک مذہب یا فرقے کے حق میں اور دوسرے کے خلاف ہو نہ ہی کسی کو مذہبی بنیاد پر کوئی معافی یا رعایت دی جاتی ہے۔
مسلم دنیا میں کلیسا کا کردار ملاؤں نے بخوبی نبھایا اور یہ عمل آج بھی جاری ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ طبقہ ایسی ایسی پھلجڑیاں چھوڑتا ہے کہ تعلیم سے بہرہ مند کوئی بھی شخص ان کو باآسانی رد کر سکتا ہے لیکن جہاں عقیدت کی پٹی بندھی ہو وہاں صاف ستھرے دلائل بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیے جاتے ہیں اور مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں بھی رینگے۔
ہمارے اور یورپ کے سیاہ دور میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ یورپ کے اہل علم و دانش کو اپنے لوگوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور بعض اوقات انہیں شدید سزائیں بھی بھگتنی پڑیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اب تمام تر ایجادات اور دریافتیں مغرب سے آتی ہیں اور ملا ان کی مخالفت تو بڑے زور و شور سے کرتے ہیں کفر اور بدعات کے فتوے بھی سادر فرماتے ہیں اور ان ایجادات و دریافتوں کو یہودو نصاریٰ کی سازشیں بھی گردانتے ہیں لیکن بدلتے حالات میں آہستہ آہستہ خود بھی ڈھل جاتے ہیں کیونکہ جیسے پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے ویسے ہی کائناتی سچائیاں جنہیں دنیا سائینس کے نام سے جانتی ہے کو جھٹلانا ناممکن ہو گیا ہے۔
مسلم خلافت کے دور میں یورپ میں چھاپا خانہ ایجاد ہوا اور اس پر سب سے پہلے ڈکشنری شائع کی گئی۔ اس چھاپہ خانے کے آنے سے مسلم علما کی آمدن متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہوا، کیونکہ مسلم علما جو کہ خطاط بھی تھے، قرآن و احادیث کی کتابوں کو باوضو ہو کر ہاتھ سے تحریر کرتے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ شیطانی مشین ہے اور ہماری مذہبی کتابیں اس بے وضو مشین پر نہیں چھپ سکتی اس لیے اس کے حرام ہونے کا فتویٰ صادر فرمایا گیا۔ نتیجتاً یورپ میں علم کی ایسی مہمیز لگی کہ آج تک وہ ہم سے آگے ہیں جبکہ ہم ابھی تک وضو کا پانی کیسا ہو کی بحثوں میں مصروف ہیں۔
اسی طرح اس ہر چیز پر کفر اور حرام کے فتوے لگتے رہے جو نام نہاد علما کی فہم سے بالاتر تھے۔ لاؤڈ سپیکر آیا تو اس کی آواز کو گدھے کی آواز سے مشابہ قرار دے کر شیطانی آلہ گنا گیا اور حرام ٹھہرا۔ لیکن بدلتے حالات نے اور اس شے کی آفادیت نے ثابت کیا کہ یہ آلہ آج کسی گھر میں تو نہیں ہے البتہ ہر مسجد و ممبرکا لازمی جز ہے اور اس کے بغیر ہمارے ملا اور ذاکر اپنے فن خطابت کے جواہر دکھانے سے قاصر ہیں۔
ریل گاڑی کو انگریزوں نے برصغیر میں متعارف کروایا تو ہمارے علما کی رگِ فتویٰ پھڑکی اور اس پر بھی فتویٰ لگایا کہ نبیؐ کی حدیث ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ لوہے پر لوہا چلے گا۔ آج اگرچہ ہمارے ملک میں ریل کا سفر عام الناس نہیں لیکن جہاں بھی یہ سہولت میسر ہے اسے ایک نعمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ہوائی جہاز کا جب چرچا عام ہوا تو اس پر بھی فتویٰ صادر ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوہا ہوا میں اڑے؟ جو بھی یہ یقین رکھتا ہو اس کا نکاح فاسق ہو جائے گا۔ اس لحاظ سے تو سب مسلمانوں کو بالخصوص سول ایوایشن کے ملازمین ، ایئر پورٹ کے اردگر رہنے والے افراد کو دن میں کئی کئی بار تجدید نکاح کی ضرورت ہے۔
جب انگریزوں نے برصغیر میں اپنی ادویات کو مروج کیا تو ان میں سے ٹیکے پر بھی فتویٰ لگ گیا۔ اس پر بہت لمبی لمبی بحثیں ہوئیں اور ایسی ایسی موشگافیاں سننے کو ملیں جو آج کے کسی بچے کو پڑھائی جائیں تو وہ اسے کوئی لطیفوں کی کتاب سمجھ کر محفوظ ہو گا۔
بات یہیں تک محدود نہیں چونکہ مذہب زندگی کے ہر شعبے میں اپنی ٹانگ گھسیڑے بیٹھا ہے تو ان ملاؤں نے مرغیوں پر بھی فتوے دیے۔ ایسی گھریلو مرغی جو گھر کے باہر سے دانا چگ آئی ہو، کو حلال نہیں کیا جا سکتا ۔ پہلے اسے تین دن تک ڈربے میں بند رکھا جائے پھر حلال کیا جائے۔
لئیر مرغی آئی تو اس کے انڈوں پر فتویٰ لگا کہ یہ حرام ہیں کیونکہ یہ مرغی بنا مرغے کے انڈے دیے جا رہی ہے، ان انڈوں کا تو کوئی باپ ہی نہیں ہے۔ ہاں البتہ کیلا اور انگور حلال ہیں کیونکہ ان علما کو یہ معلوم نہیں کہ فارمی مرغیوں اور ان پھلوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں ایک ہی سائینسی تکنیک سے تیار ہوتے ہیں۔
خون کے مختلف گروپوں کو نہ صرف سمجھا گیا بلکہ سائینسدانوں نے ایک انسان کے خون کو دوسرے کو لگا کر انسانیت کو ایسا تحفہ دیا جس سے ہر شخص کو زندگی میں کم و بیش ایک بار ضرور واسطہ پڑ جاتا ہے۔ لیکن علما کے محدود علم میں صرف یہ بات تھی کہ سو لقمے خوراک کےکھائیں تو ایک قطرہ خون کا بنتا ہے۔ خون کے سو قطرے ملیں تو مرد کی مردانہ طاقت کا ایک قطرہ بنتا ہے۔ اس لیے انتقالِ خون بھی حرام ٹھہرا کہ اس سے وراثت ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہو جائے گی۔ یہ فتویٰ بھی اپنی موت آپ مرا ، اور آج پاکستان کا کوئی ہسپتال بھی ملاؤں کے اس فتوے پر عمل درامد کر کے پکا اور سچا ہونے کا ثبوت نہیں دے رہا اور دن دہاڑے دھڑلے سے انتقالِ خون کیا جا رہا ہے۔ چاروناچار ملاؤں نے انتقالِ خون کو نہ صر ف جائز قرار دیا بلکہ خون عطیہ کرنا ایک نیکی کا کام بھی ٹھہرا۔
تصویر کشی حرام ہے اس پر ملاؤں نے جو ادھم مچایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس بات کو لے کر اس قدر مخالفت کی کہ آج ہر شخص اس کو اسلام کا بنیادی جز سمجھتا ہے لیکن حالات کے تقاضوں کے سامنے ایک بار پھر مولویوں کو سر جھکانا پڑا۔ آج کسی مولوی کو اس وقت تک شہری حقوق میسر نہیں جب تک وہ نادرا کے دفتر میں اپنی ایک تصویر نہ بنوا لے۔ پاسپورٹ پر بھی تصویر لازمی جز ہے اور اسے سعودی عرب جیسا کٹر ملک بھی اس سے انکاری نہیں۔ تصویر بنوائے بنا حج اور عمرے کا بھی کوئی تصور نہیں۔ ملاؤں کی سب سے محبوب تصاویر ملکہ وکٹوریہ اور جارج واشنگٹن کی ہیں جو کہ پاؤنڈ اور ڈالر پر نقش ہیں۔ اب تو یار لوگوں نے اسلامی زیارتوں کی تصاویر کو عقیدت مندوں کو بیچ کر ایک باقائدہ کاروبار بنا لیا ہے۔
ٹی وی تو حرام سے بھی آگے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے شیطانی ڈبہ کہ کر پکارا گیا۔ جماعت الدعوة کے ماہنامہ ‘مجلہ’ میں باقاعدہ سلسلہ وار ایک مضمون شائع ہوتا تھا کہ کتنے مومن بھائیوں نے اس ماہ ٹی وی ملعون کو جہنم واصل کیا۔ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی کی کتاب “ٹی وی ملعون کی تباہ کاریاں” بھی موجود ہے۔ لیکن آج جماعت الدعوة کے حافظ سعید ٹی وی پر برجمان بھی ہوتے ہیں اور اپنے نادر خیالات کے اظہار سے قوم کو نوازتے ہیں۔قادری صاحب تو نان سٹاپ چوبیس گھنٹے ٹی وی پر اپنے مریدین کو کشف سے نوازتے ہیں۔ یہ دونوں حضرات اپنی زندگی میں ہی اپنے ہی دیے گئے فتوں سے پھر گئے تو کیونکہ ٹی وی کو انہوں نے اپنے دینی کاروبار کو مہمیز دینے کا ایک آلہ پایا۔
- ٹی وی کی تباہ کاریاں از محمد الیاس قادری رضوی کا سرورق
- مجلہ الدوۃ میں ٹی وی ملعون کو جہنم واصل کرنے کا منظر
یہی صورتحال وی سی آر (ویڈیو کیسٹ ریکارڈر) کے ساتھ بھی پیش آئی، تاہم سی ڈی (کمپکٹ ڈسک) اور ڈی وی ڈی نے تیزی سے اس کی جگہ لے اور سب کے سب فتنہ قرار پائے۔ مسلمانوں کے دین اور پردے کو اس سے سخت خطرات لاحق ہوئے۔ لیکن مثبت تبدیلی کے آگے بندھ نہ باندھا جا سکا۔
ڈش انٹینا آیا تو اس پر بھی بہت اعتراضات ہوئے تاہم اسے جلد ہی کیبل نے بدل دیا تو کیبل کی نشریات بھی فتوں کی زد میں آگئیں۔ ملاؤں نے ان گھروں میں رشتہ کرنے کی حوصلہ شکنی کردی جہاں کیبل لگی ہوتی تھی تاہم اب اس پر پڑنے والا شوروغوغا کچھ تھم سا گیا ہے۔
میوزک کو لمبے عرصے سے حرام قرار دے کر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اورنگزیب نے تو آلات موسیقی بھی دفن کروا دئے۔ ڈاکٹر فاروق خان نے ٹی وی پر ایک ملا سے مباحثے میں ثابت کیا کہ موسیقی حلال ہے۔ جب شدت پسند ان دلائل کو جھٹلانے اور دلیل سے رد کرنے میں ناکام رہے تو ڈاکٹر فاروق کو شہید کر کے میوزک کو حرام کرنے کی اپنی سی کوشش کی گئی۔
اب جبکہ ساری دنیا مانتی ہے کہ زمین گول ہے ملا ابھی بھی ضد کر رہے ہیں کہ یہود ونصاری کی سازش ہے زمین چپٹی ہے حالانکہ ناسا کے ایک پروگرام میں ایک سعودی بھی خلا میں جا چکا ہے، وہاں جا کر بھی وہ کعبے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا رہا اگر غور سے دیکھ لیتا تو اپنے ملک کے ان علما کو تو جا کر بتا دیتا کہ ان کی بات درست نہیں۔
کلونگ کی تکنیک کا چرچا ہوا تو اس کو بھی باطل کہا گیا۔ اگرچہ سائینسدان اس معراج ہر پہنچ گئے ہیں کہ وہ ایک انسان کا کلون بنا سکتے ہیں لیکن اخلاقیات اور معاشرتی رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے وہ ابھی تک اس قدم سے باز ہیں البتہ محدود اور اعضا کی کلونگ پر تحقیقات کا کام جاری ہے۔
اسی طرح ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی بھی بھرپور مخالفت کی گئی لیکن اس تکنیک سے پہلا کامیاب بے بی بنانیوالے سائینسدان اب تک نو ہزار بے بی بنا چکے ہیں ۔ چونکہ یہ علوم تو آج کے علما کے سر کے اوپر سے گزر جاتے ہیں اس لیے ان کی ہلکی سی مخالفت کر کے یہ حضرات پہلو تہی کر جاتے ہیں اور ماضی کی طرح ادھم نہیں مچاتے۔
ایک اور دور حاضر کا فتویٰ ائیر پورٹ سکین کا ہے۔ اس پر تو تمام مسلم علما یکجان ہو کر اس کے خلاف فتویٰ دے رہے ہیں۔ حالانکہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنے گھر پر ہر قسم کا پہرہ لگا سکے۔ پہلے تو مسلمان ان ممالک کو دارالحرب کہتے ہیں پھر وہاں ان کےحفاظت کی غرض سے کیے گئے اقدامات پر اپنے تحفظات کا اظہاربھی کرتے ہیں۔ دشمن کے گھر جاؤ تو اس سے اچھے سلوک کی امید تو نہ رکھو!۔ اس سکین کی اخلاقی قباحتیں تو ہوں گی لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان ممالک میں افراد سب سے مقدم ہیں نظریات نہیں۔ اس لیے اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے وہ ہر کام کر گزرنے پر راضی ہیں۔
ایک اہم ویکسین جو کہ پولیو جیسے خطرناک مرض کو اس دنیا سے مٹانے کے قریب ہے بھی حرام کہی جا رہی ہے کیونکہ یہ مسلم مردوں کو نامرد بنانے کی ذمہ دار ہے۔ اس فتوے پر تو مسلمان اتنا یقین کرتے ہیں کہ آئے دن پولیو کی ویکسین پلانیولی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ہی گولی سے آڑایا جا رہا ہے۔
ایک ممکنہ فتویٰ لیبارٹری میں تیار شدہ گوشت پر مستقبل قریب میں متوقع ہے۔ اس تحقیق کی روشنی میں اب یہ ممکن ہو سکے گا کہ فیکٹریوں میں بیکٹریا گوشت پیدا کریں گے۔ سننے میں کافی عجیب لگ رہا ہے اور امید ہے کہ ہمارے علما خم ٹھونک کر اس کی مخالفت کریں گے۔ لیکن جس تکنیک سے یہ گوشت تیار ہو گا اسی تکنیک سے تیار شدہ انسولین مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ گوشت تو حرام ہو لیکن انسولین حلال۔ تو یار لوگ گوشت نہیں کھائیں گے لیکن “حرام” انسولین تو استعمال کرتے ہی رہیں گے کیونکہ مجبوری اور بیماری میں سب حلال ہے۔
کلیسا کی طرح مسلمان سائینس دانوں سے ملاؤں نے بھی بہت بغض رکھا جب تک ان کی چلتی تھی ان سائینسدانوں کو ملح، کافر اور پاگل قرار دے کر نہ صرف ان کی تذلیل کی گئی بلکہ ان کی جان بھی اس بغض میں کام آئی۔
سائینس کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی ان فتویٰ ساز فیکٹریوں نے خوب لچ تلا ہے اور ایسے ایسے فتوے دیے ہیں جن پر عمل تو کچا مسلم دنیا اس کے برخلاف عمل کر رہی ہے۔
ان میں تازہ ترین اور مسلمانوں کی رسوائی کا سبب بننے والا ایک فتویٰ یہ ہے جو کہ شام کے شعیوں کے خلاف جہاد کرنیوالے وہابی جہادیوں کے لیے زنا کو جائز قرار دیتا ہے اس پر بات کرنے کو بھی دل نہیں کر رہا۔
اب اسلامی بھائیوں سے ان کی کس کس موشگافی کا گلا کروں۔ ان کے نذدیک تو سموسہ بھی حرام ہیں۔ جی ہاں کسی اور نے نہیں اپنے برادر اسلامی ملک سومالیہ کے جہادی حضرات نے سموسے کے حرام ہونے اور بزور طاقت اس کی فروخت پر دو سال قبل پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ تو شکر ہے کہ یہاں کے کسی ملا کو خبر نہیں ہوئی نہیں تو سکول کالج کی کنٹینز پر تو ڈرون حملہ ہو گیا ہوتا اور ہماری قوم اپنے ایک من بھاتا کھا جا سے محروم ہو جاتی۔
مسلم علما کے نزدیک فٹبال کھیلنا بھی خلاف شریعت ہے کیونکہ اس میں پہننے والی نیکر کا سائز اسلامی سائز سے کم ہے۔ لیکن تقریباً تمام عرب دنیا کی فٹبال ٹیمیں ہیں اور ان کے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ان حکومتوں نے بھی اسے طاقت سے مسلط نہیں کیا کیونکہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلمان ایسے ہی پسماندہ رہیں تاکہ انکا اقتدار قائم دائم رہے۔
کتاب سے دشمنی کی کوئی نئی نہیں تاہم پہلے اس کا ہدف علم و دانش کی کتب تھیں لیکن اب رومانوی ناولوں بھی اس کی زد میں آگئے ہیں۔ علما کے نزدیک اس کی اجازت صرف ایک مخصوص طبقے کو ہے دوسرے لوگ خصوصاً خواتین کو ایسے ناول نہیں پڑھنے چاہیے۔ لیکن ہمارے اس خطہ عرض میں اس فتوے کو من چلے کی کہی سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔
صرف یہ ہی نہیں بچوں کی تفریح یعنی کارٹون بھی فتوے کی توپ سے محفوظ نہیں رہے۔ مکی ماؤس کارٹون اس فتوے کے مطابق شیطان کے سپاہی ہیں۔ تو دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ آپ کتنے مزے لے کر اسلام کی اس فتوے پر ہنستے رہیں ہیں؟
اسی پر بس نہیں بلکہ ویڈیو گیمز بھی فتوے کیے نشانے پر ہیں۔ ملاؤں نے پوکی مین کی ویڈیو گیم کو اس لیے ممنوع قرار دیا کیونکہ پوکی مین گنوارہے۔ اس لحاظ سے تو علما کو بھی ممنوع ہونا چاہیے۔
ایک اور فتوی انٹرنیٹ اور موبائل فون پر چیٹ میں استعمال ہونیوالے ایموشن آئیکانز کے ممنوع ہونے کا ہے کیونکہ ملا کے نزدیک یہ بھی بتوں کی ہی ایک جدید شکل ہے۔ چلو اب آپ منہ نہ بسوریں کریں۔
شخصیات کے خلاف بھی کفر اور واجب القتل کے فتوے عام ہیں۔ لیکن علما نے کسی بھی پروگریسو سوچ رکھنے والے کو بھی نہیں چھوڑا ،علامہ محمد اقبال پر شکوہ لکھنے پر فتویٰ لگا وہ ذہین آدمی تھے فوراً جواب شکوہ لکھ کر گلو خلاصی کروائی۔ اسی طرح محمد علی جناح بھی ان فتوں کی زد سے محفوظ نہ رہ سکے اور ان کو مرتد اور خارج از اسلام کہا گیا۔
- علامہ اقبال کیخلاف فتوی
- محمد علی جناح کیخلاف فتوی
- مودودی کا فتویٰ
عورتوں سے تو علما کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ اسے فاترالعقل اور نہ جانے کون کون سے القابات سے نوازا گیا ہے۔ اس کے گھر سے نکلنے، اپنا کاروبار کرنے، اپنی مرضی سے نکاح کرنے اور مردوں کو زنا پر ابھارنے جیسے ہزاروں فتوے لگے ہیں اور آئے دنوں ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کل سعودی عرب میں عورت کو اپنا کاروبار نہ کرنے کی اجازت اور ماضی میں سائیکل اور اب گاڑی چلانے پر پابندی بھی موضوع عام ہے۔ تازہ ترین پابندی عورت کے لائبریری جانے پر لگی ہے۔
ایک جنس زدہ ذہن کا فتویٰ یہ بھی ہے کہ عورتیں کیلے کو ہاتھ نہ لگائیں کیونکہ اس کی شکل مرد کے عضو مخصوص سے ملتی ہے۔ ایسے فتووں پر تو کوئی پھبتی کسنے کو بھی دل نہیں کرتا۔
اسی بغض کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے حالیہ فیصلے کو دیکھیں تو کوئی حیرت ہیں ہوتی جس کے فتوے کے مطابق زنا کے کیس میں ڈی این اے کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ڈی این اے کی شہادت کو قبول نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے قتل کے کیس میں فنگر پرنٹ کو قبول نہ کرنا۔ فنگر پرنٹ کو بھی مذہبی طبقات نے اس لیے قبول کیا کیونکہ اس کیوجہ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ قیامت کے دن تمہارے ہاتھ اور زبان تمہارے خلاف گواہی دیں گے۔ لیکن جب بات اور بھی شفاف اور مدلل شہادت ڈی این اے کی آئی تو اسے ناقابل قبول قرار دیا گیا۔
ملا حضرات کا اس کی مخالفت کرنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ ان کی فہم ہی اتنی ہے کہ وہ اس تکنیک کو سمجھنے سے قاصر ہیں لیکن عدالت نے جس وجہ سے مزار قائد پر زنا بالجبر کی شکار کے ملزموں کو ڈی این اے کے واضح ثبوتوں کے باوجود بری کر دیا ، ایک افسوسناک امر ہے۔ عدالت عالیہ کا فرمان ہے کہ کسی نے جرم ہوتے نہیں دیکھا لہذا بری کیا جاتا ہے۔ اس اصول کے مطابق تو پھر تو سائبر کرائمز کے تو کسی ملزم کو سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ جرم اس نے اپنے گھر میں اکیلے صرف کمپیوٹر پر بیٹھ کر کیا ہے۔ اسی طرح یحییٰ خان کو تو محمود الرحمٰن کمیشن نے ایسے ہی دل پشوری کے لیے غدار قرار دیا کسی نے اس کو یہ جرم کرتے تو نہیں دیکھا۔ اسی طرح کرکٹروں کو سٹا لگاتے بھی کوئی نہیں دیکھتا۔
علما نے صرف فتوے دیے ہیں عام مسائل کا حل نہیں دیا۔ آج بھی آپ بیشتر مکتبہ ہائے فکر کی لائبریریوں میں ان کے جاری کیے فتاویٰ کی فہرست دیکھیں تو پتا چلے کا کہ ان فتاویٰ میں سےاسی فی صد کے قریب مباشرت، جنابت اور اس کو دور کرنے کے نادر فتاویٰ پر مشتمل ہے۔ باقی کے فتاویٰ کا بیشتر حصہ پانی کو پاک کرنے اور چلتے اور کھڑے پانی کے مسائل پر مشتمل ہے۔ ان فتاویٰ سے ہماری جان بھی سائینس نے چھڑوائی ہے۔ پانی کو کیسے صاف کرنا ہے اور کیسے جوہڑوں اور تالابوں کی بجائے پانی پہلے شہر اور پھر گھر کی ٹنکی میں محفوظ کرنا ہے، کیسے اس کی کلورینشن کر کے اسے جراثیم سے پاک کرنا ہے۔ یہ راز سائینس نے کھولے اور گھر گھر پہنچا دیے ہیں۔ اس لیے اب ان مسائل کے فتاویٰ کا ذکر ہمیں نہیں ملتا۔
یہ خوش آئند ہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈی این اے کو ثبوت کے طور استعمال کرنیکی قانون سازی کر کے اپنے لبرل تشخص کو اجاگر کیا ہے جو پچھلے کچھ سالوں میں مصلحت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ملک کے دوسرے صوبوں کو بھی ایک اچھا کام کر دکھانے کی ترغیب دی ہے امید ہے اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے دیگر صوبے اور وفاق بھی اسی طرز کی قانون سازی کر کے ملک میں اس نوعیت کے جرائم میں ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دیگا اور بے گناہوں کو بھی سکھ کا سانس نصیب ہوگا۔
ایک بات بہرحال ہے ماننا پڑے گی کہ انسداد عقل و شعور کی اِن باریش فیکٹریوں نے ایسی تمام ایجادات اور نظریات کو مکمل طور پر رد کیا ہے جن کا تعلق انسانی دماغ و سوچ، انسانیت کی فلاح اور ترقی کی نئی جہتوں سے رہا ہے، لیکن ایسی کسی نئی سہولت یا ایجاد کی مخالفت کبھی نہیں کی جس کا تعلق جسمانی طاقت خصوصاً جنسی طاقت سے ہو۔مثال کے طور پر باریشوں نے کبھی ویاگرا یا دوسری افزائش قوت مجامعت ادویات اور نسخوں کو نہ صرف دھڑلے سے استعمال کیا بلکہ انہیں عین اسلامی سمجھا۔
ہمارے معاشرے نے عموماً علما کے فتووں کو سنجیدہ نہیں لیا۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم زندگی کے ہر مسلے کا حل علما کے پاس تلاش کرنے کی بجائے اس شعبے کے ماہر افراد سے لیں۔ اگر یورپ کے لوگ خود سے اجتہاد کرکے اپنے مسائل کے قانون و ضوابط خود نہ بناتے تو وہ آج بھی کلیسا کی خرافات کا شکار ہوتے۔ اسی طرح ہماری پسماندگی بھی تبھی دور ہو گی جب ہم علما کومسجد تک محدود کریں گے۔ ملک میں ایک پارلیمنٹ ہے اور عوام کو اپنے نمائندوں پر زور دینا چاہیے کہ وہ ان علما کی بلیک میلنگ سے متاثر ہوئے بنا اپنی عقل و فہم کے استعمال بہترین قوانین بنائیں اور اگر کبھی رائے کی ضرورت پڑے تو اس شعبے کے ماہرین سے ہی لیں یا پھر دیگر مغربی ممالک کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر جگ ہنسائی سے بچنا ہے تو ہمارے اس معاشرے میں اب فتووں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
http://pakashmir.blogspot.co.uk/2015/02/blog-post.html حصہ اول
No comments:
Post a Comment