کیا آسمان و زمین اور ارزاق کی خلقت چھ دنوں یا آٹھ دنوں میں ہوئی ہے ؟
زمین اور آسمانوں کی خلقت میں کتنے دن لگے ھیں ؟ قرآن مجید اس سلسله میں فرماتا ھے
بیشک تمھارا پروردگار وه ھے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ھے
سوره اعراف آیت ۵۴
بیشک تمھارا پروردگار وه ھے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا ھے
سوره یونس آیت ۳
اس نے آسمان و زمین اور اس کے درمیان کی مخلوقات کو چھ دنوں کے اندر پیدا کیا ھے
سوره فرقان آیت ۵۹
اور وھی وه ھے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا ھے
سوره ھود ، آیت ۷
مذکوره آیات واضح الفاظ میں بیان کرتی ھیں که خداوند متعال نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں کے اندر پیدا کیا ھے ۔
لیکن مندرجه ذیل آیات کے مطابق کچھ اور نتیجه نکلتا ھے
آپ کہدیجئے که کیا تم لوگ اس خدا کا انکار کرتے ھو جس نے ساری زمین کو دو دن میں پیدا کر دیا ھے
سوره فصلت آیت۹
اور اس نے اس زمین میں اوپر سے پہاڑ قرار دئے ھیں اور برکت رکھ دی ھے اور چار دن کے اندر تمام سامان معشیت کو مقرر کردیا ھے جو تمام طلبگاروں کے لئے مساوی حیثیت رکھتا ھے
۱۰ سوره فصلت آیت
اس کے بعد اس نے آسمان کا رخ کیا ۔ ۔ ۔ پھر آسمانوں کو دو دن کے اندر سات آسمان بنا دئے ۔ ۔ ۔
سوره فصلت آیت ۱۱ و ۱۲
اب ھم محاسبه کرتے ھیں

مشکل کھاں پر ھے
کیا محمد (ص ) بن عبدالله کے معجزه میں مشکل ھے یا ریاضیات میں ؟
اجمالی جواب
خداوند متعال نے رزق و روزی کے لئے “ قدر “ استعمال کیا ھے
جبکہ آسمان وزمین کی خلقت کے بارے میں لفظ “ خلق “ سے استفادہ کیا ھے۔
یعنی یہ چار دن ارزاق کی تقدیر ھے نہ کہ ان کی خلقت ۔
اس بیان سے شاید اصل اعتراض بالکل ختم ھوجائےگا ۔ کیونکہ اعتراض اس صورت میں ھے جب ھم رزق کی تقدیر کے ایام کو خلقت کی فھرست میں لائیں (جیسا کہ سوال کرنے والے نے انجام دیا ھے ) ، ورنہ اعتراض بنیادی طور پر ختم ھوتا ھے ۔
تفصیلی جواب
جواب کی ابتداء میں مناسب ھے کہ ھم نزاع والی آیات پر ایک نظر ڈالیں
ان ربکم اللہ الذی خلق السماوات وا لارض فی ستۃایام
بیشک تمھارا پروردگار وہ ھے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن (چھ دور) میں پیدا کیا ھے ۔
سورہ اعراف ، آیہ ۵۴
قل ا انکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین
آپ کھدیجئے کہ کیا تم لوگ اس خدا کا انکار کرتے ھو جس نے ساری زمین کو دو دن میں پیدا کر دیا ھے ۔
سورہ فصلت ، آیہ ۹
وجعل فیھا رواسی من فو قھا و بارک فیھا وقدر فیھا اقواتھا فی اربعہ ایام سواءً للسائلین
اور اس نے اس زمین میں اوپر سے پہاڑ قرار دئے ھیں اور برکت رکھ دی ھے اور چار دن کے اندر تمام سامان معشیت کو مقرر کردیا ھے جو تمام طبگاروں کے لئے مساوی حیثیت رکھتا ھے ۔
سورہ فصلت ، آیہ ۱۰
فقضاھن سبع سماوات فی یو مین
پھر ان آسمانوں کو دو دن کے اندر سات آسمان بنا دئے ۔ ۔ ۔
سورہ فصلت ، آیہ ۱۲
[1]
قرآن مجید کی نظر میں یوم ۔
مذکورہ آیات میں “ یوم “ سے مراد زمانہ کا ایک حصہ ھے ، نہ کہ وہ دن جو عام طور پر ھمارے ذھنوں میں ھوتا ھے ، کیونکہ ، ھم زمین کے ساکنوں کی نظر میں دن ، زمین کے گرد چکر لگانے کی حرکت کی مقدار ھے ، کہ اس کے ایک چکر کو ایک دن یا بہ الفاظ دیگر ، ایک دن رات کہتے ھیں ، زمانہ کے ایک حصہ کو دن کہنا بہت مشہور ھے ، من جملہ خداوند متعال کا کلام بھی ھے کہ ارشاد فرماتا ھے
ھم تو ان ایام ( زمانہ ) کو لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے رھتے ھیں ۔
[2]
مزید فرماتا ھے
اب کیا یہ لوگ انھیں برے دنوں کا انتظار کر رھے ھیں جو ان سے پہلے والوں پر گزر چکے ھیں ؟
[3]
ایسے مواقع پر لفظ “ ایام “، زمانہ کے ایک حصہ کے طور پر استعمال ھوا ھے۔
[4]
لیکن قابل توجہ بات ھے کہ اگر 6 دن کے یہ معنی ھیں، لیکن اس سے اعتراض دور نھیں ھوتا ھے ، اس لئے اس سوال کا جواب دیا جانا چاھئے
زمین کی روزی کی تقدیر 4 دن ھیں ۔
سوال یہ ھے کہ (سورہ فصلت کی ) مذکورہ آیات میں کیسے زمین کی خلقت کو 2 دن
اور پھاڑوں اور برکتوں اور غذاؤں کو 4 دن ذکر کیا گیا ھے
اور ان آیات کے ضمن میں آسمانوں کی پیدائش کو بھی 2 دن بیان کیا گیا ھے
کہ مجموعاً 8 دن بنتے ھیں ؟
جبکہ قرآن مجید کی بھت سی آیات میں آسمانوں اور زمین کی پیدائش کو مجموعی طور پر 6 دن یا بہ الفاظ دیگر 6 دور بیان کیا گیا ھے ۔
[5]
مفسرین نے اس سوال کے جواب میں کئی طریقے منتخب کئے ھیں
پھلا طریقہ : جو مشھور و معروف ھے ، وہ یہ ھے کہ جھاں پر “ اربعہ ایام “ ( چاردن ) کھا گیا ھے ، ان سے بقیہ چار دن مراد ھیں ، اس تر تیب سے کہ ان چار دنوں میں سے پھلے دو دن میں زمین پیدا کی گئی ھے اور بقیہ دو دنوں میں زمین کی دوسری خصوصیات پیدا کی گئی ھیں اور اس کے علاوہ آسمانوں کو دو دن میں پیدا کیاگیا ھے ، اس طرح مجموعاً چھ دن ( یا چھ دور ) ھوتے ھیں ۔
اس قسم کی تعبیریں عربی زبان اور فارسی میں بھی پائی جاتی ھیں ، مثال کے طور پر کھا جاتا ھے کہ : یھاں سے مکہ تک دس دن لگتے ھیں اور مدینہ تک پندرہ دن ، یعنی مدینہ اور مکہ کے درمیان فاصلہ ۵ دن کا ھے اور یھاں سے مکہ تک دس دن کا فاصلہ ھے ۔ البتہ اگر خلقت کے چھ دن کے بارے میں متعدد آیات نہ ھوتیں تو ایسی تفسیر قابل قبول نھیں تھی ، لیکن چونکہ قرآن مجید کی آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ھیں اور ایک دوسرے کے لئے قرینہ بنتی ھیں ، اس لئے مذ کورہ تفسیر قابل قبول ھے ۔
دوسرا طریقہ : جسے بھت کم مفسرین نے منتخب کیا ھے یہ ھے کہ : اربعہ ایام ( چار دن ) خلقت کی ابتداء سے متعلق نھیں ھیں بلکہ سال کی چار فصلوں کی طرف اشارہ ھے کہ جو انسانوں اور حیوانات کی غذائی اجناس کی پرورش کا سر چشمہ ھیں ۔[6]
تیسراطریقہ : رزق و روزی کے بارے میں لفظ “ قدر “ سے استفادہ کیاگیا ھے ، جبکہ آسمان و زمین کی خلقت کے بارے میں لفظ “ خلق “ سے استفادہ کیا گیا ھے ، یعنی یہ چار دن رزق کی تقدیر کے ھیں نہ کہ اس کی خلقت کے ۔ اس بیان سے شاید اعتراض بالکل ختم ھوجائےگا ، کیونکہ اعتراض وھاں پر ھے ، کہ روزی کی تقدیر کے ایام کو خلقت کے ایام کی فھرست میں لائیں ( جو کام سوال کرنے والے نے انجام دیا ھے ) ورنہ ، اعتراض بنیاد سے ھی ختم ھوتا ھے ۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر ، جو “ایام “ ان آیات میں آسمانوں اور زمین کے بارے میں ذکر ھوئے ھیں ، وہ چار دن ھیں ، ان میں سے دو دن زمین کی پیدائش کے لئے ھیں اور دو دن سات آسمانوں کو بلند کرنے کے لئے ، اس کے بعد جن دنوں روزی وجود میں آئی وہ ان کی تقدیر کے ایام تھے ، نہ کہ روزی کی خلقت کے ایام ، اور جو کچھ خدا کے کلام میں مکرر بیان ھوا ھے کہ خداوند متعال نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ھے ، وہ مجموعی خلقت اور تقدیر و روزی نھیں ھے ، پس حقیقت یہ ھے کہ مذکورہ ظرف صرف آخری جملہ کی قید ھے اور نہ کسی قسم کے حذف کی ضرورت ھے اور نہ تقدیر کی ، زمین کی تقدیر ارزاق کے بیان سے مراد سال کی چار فصلیں ھیں ۔
[7] “
اس بناپر نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزہ میں کوئی مشکل ھے اور نہ ریاضیات میں کوئی نقص ھے !! بلکہ مشکل اس میں ھے کہ ھم علم میں مھارت حاصل کئے بغیر اور ماھرین سے رجوع کئے بغیر فیصلہ کریں ۔
[1]
۔ مکارم شیرازی ناضر ، ترجمھ قرآن ( مکارم ) دار القرآن الکریم ( دفتر مطالعات تاریخ و معارف اسلامی ) ۔ قم طبع دوم ، ۱۳۷۳ ھ۔ ش ۔
[2]
۔ آل عمران ، ۱۴۰ ۔
[3]
۔ یونس ، ۱۰۲ ۔
[4]
۔ طباطبائی سید محمد حسین ، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۱۷ ، ص ۳۶۲ و ۳۶۳ ، دفتر انتشارات اسلامی جامعھ مدرسین حوزہ علمیہ قم ۔ قم ،طبع پنجم ، ۱۴۱۷ ھ۔ ۔
[5]
۔ اعراف ، ۵۴ ۔
[6]
۔ مکارم شیرازی ، ناصر ، تفسیر نمو نھ ، ج ۲۰ ، ص ۲۲۵ ۔
[7]
۔ طباطبائی سید محمد حسین ، المیزان فی تفسیر القرآن ، ایضاً ، ج ۱۷ ، ص ۳۶۳ و ۳۶۴
منبع : اسلام کوئسٹ ڈاٹ نٹ
No comments:
Post a Comment