Wednesday, 29 May 2013

وھابیوں کے لئے لاٹری

وھابیوں کے لئے لاٹری

اگر وہابی ، شیخ اسلام اموی ابن تیمیہ کے اس بات کو ثابت کردیں تو ہم انھیں 500 روپے کا انعام عطا کرینگے

وھابیت کے شیخ اسلام نے ابو بکر و عمر کی فضیلت میں ایک حدیث ذکر کی ہے تاکہ حدیث منزلت کی تاویل کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت کو کم کرسکے

وہ لکھتے ہیں بخاری و مسلم میں یہ حدیث ثابت ہے کہ ۔۔۔۔ ابوبکر مثل ابرہیم ہیں اور مثل عیسی ہیں اور عمر مثل نوح اور مثل موسی ہیں ۔۔۔ پس رسول کا فرمانا:اے ابوبکر تم مثل ابرہیم اور عیسی ہو اور اسکی [حضرت عمر] کی مثل نوح و موسی سیہے یہ رسول اکرم ص کے اس قول سے أنت مني بمنزلة هارون من موسى زیادہ افضل ہے اس لئے نوح اور ابراہیم ، موسی ، عیسی، تمام کے تمام ہارون سے افضل ہیں ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

ألا ترى إلى ما ثبت في الصحيحين من قول النبي صلى الله عليه و سلم في حديث الأسارى لما استشار أبا بكر و أشار بالفداء و استشار عمر فاشار بالقتل قال سأخبركم عن صاحبيكم مثلك يا أبا بكر كمثل إبراهيم إذ قال فمن تبعني فانه مني و من عصاني فإنك غفور رحيم و مثل عيسى إذ قال أن تعذبهم فانهم عبادك و أن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم و مثلك يا عمر مثل نوح إذ قال رب لا تذر على الأرض من الكافرين ديارا و مثل موسى إذ قال ربنا اطمس على أموالهم و اشدد على قلوبهم فلا يؤمنوا حتى يروا العذاب الأليم فقوله هذا مثلك كمثل إبراهيم و عيسى و لهذا مثل نوح و موسى اعظم من قوله أنت مني بمنزلة هارون من موسى فان نوحا و إبراهيم و موسى و عيسى اعظم من هارون
-----------------------------------------------
منهاج السنة النبوية ج 7 ص 235/ المحقق : د. محمد رشاد سالم/ الناشر : مؤسسة قرطبة ، الطبعة لأولى

سوال یہ ہے کہ ابن تیمیہ نے جو کہا ہے یہ حدیث بخاری و مسلم میں ثابت ہے اسے حوالے اور اسکین کے ساتھ ہمیں ارسال کریں اور انعام حاصل کریں ورنہ اپنے شیخ اسلام پر لعنت وصول کریں کہ اتنا بڑا جھوٹ کہتے ہوئے شرم نہیں آئی انھیں





رجم

رجم

رجم ایک عربی اصطلاح ہے جس کے معنی پتھر پھینکنے
 (stoning)
 کے آتے ہیں اور اس اصطلاح سے مراد ایک ایسی سزا کی لی جاتی ہے کہ جس میں زنا کے مرتکب اشخاص کا دھڑ زمین میں گاڑ کر ان پر پتھر برسائے جائیں یہاں تک کے موت واقع ہوجائے۔ رجم کے بارے میں عورت اور مرد کا حکم برابر ہے۔ البتہ عورت کے کپڑے باندھ دیئے جائیں تاکہ وہ بے پردہ نہ ہو۔ قرآن میں زنا کی سزا سو کوڑوں کے بیان کے ساتھ یہ بھی ہدایت ہے یہ اس کاروائی کو مومنوں کی ایک جماعت کے سامنے کیا جائے۔ فرمان الٰہی ہے:-


آیت1  
 الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
ترجمہ: زانیہ اور زانی، کوڑے مارو ہر ایک کو ان دونوں میں، سوسو کوڑے اور نا دامن گیرہوتم کو ان کے سلسلہ میں ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں اگر رکھتے ہو تم ایمان اللہ پر اور روزِ آخرت پر اور چاہیے کہ مشاہدہ کرے ان کی سزا کا ایک گروہ مومنوں کا
[1]
اس جرم كے قبيح اور شنيع ہونے كى بنا پر ہى اسلام میں اس کی سخت سزا رکھی گئی ہے لیکن اس سخت سزا کے ساتھ ہی اس سزا کا اطلاق کرنے کے لیئے شرائط بھی انتہائی سخت ہیں۔ عام حالات میں دو مردوں یا ایک مرد دو عورتوں کی گواہی کے بجائے یہاں چار ایسے گواہ ہونا لازم ہیں کہ جنہوں نے اس جماع یا زنا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور ناصرف یہ بلکہ بیک وقت دیکھا ہو۔ قرآن ، حدیث ، گواہ اور سزا کی حکمت کے بارے میں مزید تفصیل مضمون کے متعدد قطعات میں درج ہے۔

فہرست 

بیان

قرآن میں زنا کی سزا

2.1 
رجم کا دفاع

احادیث میں زنا کی سزا

4
 انتقاد بر قرآن

4.1 
تجاوب بر انتقاد

4.1.1 
رجم کے اقراری

4.1.2 
رجم کے انکاری

5
 احصان كى کی شرائط

حوالہ جات

بیان

رجم کا ذکر احادیث میں آتا ہے لیکن قرآن میں زنا کی سزا کے طور پر اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس سزا کی موجودگی قرآن سے مثبوت نہیں ہے؛ مزید یہ کہ کم از کم چار صالح اور مقتدر گواہ ایسے ہونا لازم ہیں کہ جو اس واقعہ کا مفصل اور آنکھوں دیکھا حال بیان کر کے اس کی شہادت دے سکتے ہوں؛ یعنی ان گواہوں نے متعلقہ افراد کو زنا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو (اور زنا کی تعریف کے مطابق مرد کے قضیب 
(penis)
 کا عورت کے مہبل 
(vagina)
 میں ادخال لازم ہے، گویا گواہوں کا اس ادخال کو دیکھنا رجم کی گواہی کی شرط بنتا ہے) اور اگر ان میں سے کسی کی بھی گواہی غلط ثابت ہوتی ہو تو ان گواہوں پر خود سخت سزا لازم ہوتی ہے۔ رجم پر آج بھی مسلم دنیا میں متنازع افکار پائے جاتے ہیں جبکہ غیرمسلم دنیا میں مسلم علماء کی جانب سے بھی رجم کی سزا کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی کوئی فرد رجم کی سزا دینے کا مستحق قرار دیا جاتا ہے
[2]
 پتھروں سے مارنے کے عمل (رجم) کا ذکر ناصرف اسلامی ، بلکہ قدیم یونانی ، یہودی اور عیسائی دستاویزات میں بھی ملتا ہے۔

قرآن میں زنا کی سزا 

زنا کی اصطلاح میں محصن (شادی شدہ زانی یا زانیہ) اور غیرشادی شدہ زانی یا زانیہ دونوں ہی شامل ہیں اور زنا کے بارے میں قرآن کی سورت النور کی ابتدائی آیات نہایت واضح ہیں ، جن میں سے آیت 2 ابتدائیہ میں درج ہے ، کہ زنا کی سزا سو کوڑوں کی شکل میں بیان ہوئی ہے

آیت 
 الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ
ترجمہ: زانیہ اور زانی، کوڑے مارو ہر ایک کو ان دونوں میں، سو سو کوڑے
[3]
مسلم محققین میں زنا کی سزا رجم کے بارے میں یہ افکار بھی ملتے ہیں کہ شریعت (یعنی قرآن اور سنت) میں قرآن کا درجہ اول ہے اور اگر کوئی بات ان میں متصادم ہو تو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے
[4]
 مسلمانوں کا ایمان ہے اور قرآن میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ قرآن کے الفاظ کامل ہیں اور ان میں ترمیم ممکن نہیں اور یہ کہ قرآن مکمل طور پر اس حالت میں ہے جیسا کہ حضرت محمد پر نازل ہوا تھا ، نا تو اس میں کوئی اضافہ ہوا ہے نا کوئی کمی اور نا ایسا کیا جانا ممکن ہے

آیت 3 
  وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
ترجمہ: اور کامل ہے بات تیرے رب کی سچائی اور انصاف کے اعتبار سے۔
نہیں کوئی بدلنے والا اس بات کو اور وہی ہے سب کچھ سننے والا، ہر بات جاننے والا
[5]

سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ سے ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ
حدیث 1
 لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا
رجم کی آیت اور دس بار چھاتی چوسنے کی آیت نازل ہوئی تھی اور صحیفہ پر میرے بستر کے نیچے رکھی تھیں پھر جب رسول اللہ کی وفات ہوئی اور ہم صدمے میں تھے تب ایک گھریلو جانور اسے کھا گیا
 [6]
مسلم محققین اس بات کی وضاحت نسخ (قرآن) کے نظریئے سے کرتے ہیں اور ان کے مطابق نسخ تین اقسام کی ہوسکتی ہے اول؛ آیت اور اس کی ہدایت دونوں کی منسوخی۔ دوم؛ آیت کی منسوخی پر اس کی ہدایت کی بقا۔ سوم؛ آیت باقی پر اس کی ہدایت کی منسوخی
[7]
؛ کہا جاتا ہے کہ چونکہ قرآن ناصرف متعدد افراد کے پاس نقل (صحیفوں کی شکل) میں تھا اور حفظ بھی تھا اور رجم کی آیت کی منسوخی کے بعد کیونکہ یہ حضرت عائشہ کے صحیفے میں لکھا ہوا رہ گیا تھا اور اسی وجہ سے حضرت عثمان یا حضرت ابوبکر کے صحیفوں میں نہیں ملتا اور اسی وجہ سے موجودہ قرآن میں شامل نہیں۔ قرآن میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے

آیت 4
 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
بے شک ہم نے ہی نازل کی ہے یہ کتابِ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں 
[8]

بین المذاہب کی سطح پر قرآن میں سے کسی آیت کا غائب ہو جانا یا نسخ ہو جانا غیرمسلموں کے سامنے قرآن کی حفاظت اور استحکام کے دعووں کو متزلزل کر دیتا ہے اور اس بات کو نہایت تمسخر اور مضحکہ خیز بنا کر بھی پیش کیا جاتا ہے
[9]
۔ نا صرف بین المذاہب بلکہ خود اسلام کے ایک بڑے فرقے شیعہ کی جانب سے بھی حضرت عمر کی جانب منسوب صحیح بخاری کی آیت رجم کے بارے میں حدیث کو درون المذہب بنیادوں پر بھی زیر بحث لایا جاتا ہے
 [10]
  نہایت عجیب صورتحال تب دیکھنے میں آتی ہے کہ پھر بعض سنیوں کی جانب سے شیعاؤں پر غیرمسلم ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جیسے دیوبندی وغیرہ
[11]

رجم کا دفاع
شریعت کی رو سے رجم کا دفاع کرنے والے مسلم محققین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رسول اللہ کی جانب سے کیئے جانے والے اعمال بھی وحی کا حصہ ہوتے ہیں؛ اور اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت عموماً بیان کی جاتی ہے

آیت 5: ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاء الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اس کے بعد اے نبی قائم کیا ہے ہم نے تمہیں شریعت پر دینی معاملہ میں۔
سو تم اسی پر چلو اور نا اتباع کرو ان لوگوں کی خواہشات کا جو علم نہیں رکھتے 
[12]
اس آیت کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ نے شریعت کو نازل شدہ (وحی یا الہام) قرار دیا ہے
 [13]
؛ شریعت کی فقہی تعریف کے مطابق شریعت قرآن اور سنت سے مل کر بنتی ہے اور صرف سنت (حدیث سے تفریق ضروری ہے) کو شریعت نہیں کہا جا سکتا۔

احادیث میں زنا کی سزا

غالباً سب سے مشہور حدیث جو کہ صحیح بخاری سے رجم کا دفاع کرنے والے مسلم محققین پیش کرتے ہیں وہ کچھ یوں بیان ہوئی ہے

حدیث 2 
 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ الْيَهُودَ، جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلاً مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ ‏"‏‏.‏ فَقَالُوا نَفْضَحُهُمْ وَيُجْلَدُونَ‏.‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ‏.‏ فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَا، فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، فَقَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا‏.‏ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ ارْفَعْ يَدَكَ‏.‏ فَرَفَعَ يَدَهُ فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ‏.‏ فَقَالُوا صَدَقَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ‏.‏ فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَرُجِمَا‏.‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ‏
[14]
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر نے کہ یہود، رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ ان کے یہاں ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا، رجم کے بارے میں تورات میں کیا حکم ہے؟ وہ بولے یہ کہ ہم انہیں رسوا کریں اور انہیں کوڑے لگائے جائیں۔ اس پر عبداللہ بن سلام نے کہا کہ تم لوگ جھوٹے ہو۔ تورات میں رجم کا حکم موجود ہے۔ تورات لاؤ۔ پھر یہودی تورات لائے اور اسے کھولا۔ لیکن رجم سے متعلق جو آیت تھی اسے ایک یہودی نے اپنے ہاتھ سے چھپا لیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ اب وہ سب کہنے لگے کہ اے محمد! عبداللہ بن سلام نے سچ کہا بے شک تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ چناچہ رسول اللہ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ میں نے رجم کے وقت دیکھا، یہودی مرد اس عورت پر جھکا پڑتا تھا، اس کو پتھروں کی مار سے بچانا چاہتا تھا
[15]

محصن یعنی شادى شدہ زانى (صرف نكاح چاہے اس سے خلوت بھى ہوئى ہو سے محصن نہيں ہو جائيگا، اس ميں فقھاء كرام كا كوئى اختلاف نہيں، بلكہ وطئ اور مجامعت ضرورى ہے، يعنى نكاح كے بعد اگر مجامعت كرنے كے بعد كوئى زنا كرے تو وہ محصن كہلائيگا) کی سزا رجم کے بارے میں مسلم شريف كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے

 حدیث 3   
عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، اللہ سبحانہ و تعالى نے ان عورتوں كے ليے راہ نكال دى ہے، كنوارہ كنوارى ( سے زنا كرے تو ) اسے سو كوڑے اور ايك برس تك جلاوطن كيا جائيگا، اور شادى شدہ شادى شدہ عورت ( كے ساتھ زنا كرے ) تو سو كوڑے اور رجم ہو گا
[16]

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں؛ اہل علم كا اجماع ہے كہ رجم صرف محصن شادى شدہ كو ہى كيا جائيگا۔ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے؛ کسی بھى مسلمان شخص كا خون بہانا جائز نہيں، مگر تين اسباب ميں سے ايك كى بنا پر يا پھر وہ شادى شدہ ہونے كے بعد زنا كرے

صحیح بخاری میں حضرت عمر کی جانب سے رجم کی آیت (دیکھیے قطعہ بعنوان انتقاد بر قرآن) کی موجودگی کے بارے میں دو احادیث درج ہیں جو کتاب المحاربین میں بیان ہوئی ہیں۔

 حدیث 4
 حضرت عمر نے کہا میں ڈرتا ہوں کہ کہیں زیادہ وقت گزر جائے اور لوگ یہ کہنے لگیں کہ کتاب اللہ سے رجم نہیں ہے اور وہ اس فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں جسے اللہ نے نازل کیا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ رجم کا حکم اس شخص پر فرض ہے جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا اگر صحیح شرعی گواہیوں سے ثابت ہو یا حمل ہو یا خود اقرار کرے
 [17]

دوسری حدیث حضرت عمر کے آخری حج کے قریب زمانے سے آتی ہے اور یہ بالائی حدیث سے مفصل واقعہ بیان کرتی ہے؛ حدیث طویل ہے جسے اصل ربط پر جا کر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

حدیث 5  یا امیر المومنین کیا آپ فلاں سے تفتیش کریں گے کہ جو کہے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا کیونکہ ابو بکر کی بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر مکمل ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ (بیان جاری: حضرت عمر نے لوگوں سے خطاب کر کہ انہیں ڈرانے کا کہا جس پر حضرت عوف نے ایسا نا کرنے کا مشورہ دیا کہ حج پر کم سمجھ لوگ بھی جمع ہیں اور حضرت عمر کی بات (اپنی سمجھ کے مطابق) غلط انداز میں پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں؛ حضرت عمر نے خطبہ میں انتباہ دیا کہ جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی تو اس کے لیئے مجھ سے غلط بات منسوب کرنا جائز نہیں ہے) ۔۔۔۔۔۔۔ 

کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ بھی آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد کیا تھا۔ رسول اللہ نے خود رجم کرایا، پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یونہی بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ دعویٰ نا کر دے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں جسے اللہ نے نازل کیا تھا [17]۔

انتقاد بر قرآن 

 سانچہ میں معلومات درست طور پر نہیں درج کی گئی ہے 
(دستاویز ملاحظہ فرمائیں)
 : معلومہ 1 (اول) لازمی ہے۔
انتقاد بر قرآن اور انتقاد بر اسلام

قرآن سے رجم کی آیت کے غائب ہو جانے والی بات کہنا کوئی معمولی بات ہرگز نہیں کہی جاسکتی اور نا ہی قرآن کے ناقابل تحریف ہونے اور کامل کلام الٰہی پر جوں کا توں بلا کسی اضافہ یا کمی کے موجود ہونے پر غیر متزلزل ایمان کی اسلامی شرط کے ساتھ اس قسم کی بات کی تشریح نسخ (قرآن) کی دلیل یا تاویل میں ہو سکتی ہے
[18]

 رجم کا دفاع کرنے والے مسلم محققین تو ہر صورت یہ بات ثابت کرنے پر ضرور دیتے ہوئے نظر آتے ہی ہیں کہ رجم کی آیت نازل ہوئی تھی اور اس سلسلے میں جلیل القدر صحابہ اکرام (حضرت عائشہ و حضرت عمر فاروق اور دیگر) سے منسوب احادیث بھی پیش کرتے ہیں؛ لیکن یہ شاید واحد نہیں تو ان چند نایاب مواقع میں سے ایک موقع ہے کہ جب اسلام پر تنقید کرنے والے غیر مسلم اس آیت کے قرآن سے غائب ہوجانے والی بات کے حق میں (رجم کی آیت کے نزول کا دفاع کرنے والے) مسلم علماء کے مکمل ساتھ نظر آتے ہیں۔ یہ مسلم علماء نسخ کی وجود کو ثابت کرنے کے لیئے خود قرآن کی ایک آیت پیش کرتے ہیں

آیت 6 
 مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
نہیں منسوخ کرتے ہیں ہم کسی آیت کو یا بُھلا دیتے ہیں کسی آیت کو تو عطا کرتے ہیں بہتر اس سے یا ویسی ہی۔ کیا نہیں جانتے تم کہ بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
[19]

مسلم محققین کے مطابق مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے فرمان میں سے کسی آیت کو بھلا (نسخ) کرسکتا ہے اور اس سے بہتر ہدایت نازل کرتا ہے جو نسخ کی گئی ہو۔ اب یہاں منطقی طور پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آخر وہ نسخ ہونے والی آیت تھی کیا ؟ کہ جس کو منسوخ کیا گیا۔ جب حضرت عمر کے بارے میں حدیث منسوب ہے کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس آیت کی تلاوت کیا کرتے تھے تو ظاہر ہے کہ اس آیت کے الفاظ کو تلاش کیا جانا بھی اہم ہے۔ موطاء امام مالک میں اس منسوخ شدہ آیت کے بارے میں آتا ہے

الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ
شیخ اور شیخہ (یعنی بڑی عمر کا مرد اور عورت) اگر زنا کرے تو انہیں رجم کرو
[20]

غیرمسلموں کی جانب سے متعدد سوالات اس بارے میں اٹھائے جاتے ہیں
[21]

اول تو یہ کہ اگر نسخ کی آیت کو تسلیم کیا جائے تو پھر اس منسوخ شدہ آیت کے بدلے میں کونسی بہتر (یا ویسی ہی) آیت نازل ہوئی؟

 دوم یہ کہ آیا یہ آیت منسوخ ہونے کے بعد کوڑوں کی سزا کی آیت نازل ہوئی؟ ظاہر ہے کہ ایسا ثابت ہوتا ہے تو پھر اس کوڑوں کی آیت کو جو رجم کی مذکورہ بالا آیت کے بعد آئی ، قرآن کی رو سے بہتر تسلیم کیا جائے گا۔ پھر اس آیت میں شیخ یا شیخیہ کی قید یا غیرشادی شدہ یا نوجوان کے ذکر کے بغیر محض زنا کا لفظ کیوں استعمال ہوا؟ 

قطعہ بنام احادیث میں زنا کی سزا میں یہودیوں سے متعلق جو حدیث صحیح بخاری کی درج ہے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں یہودیوں نے تنسیخ و ترامیم نہیں کیں اور وہ حضرت محمد کے زمانے میں بھی رجم کی آیات رکھتی تھی جبکہ قرآن میں وہ آیت نہیں جو رجم کے بارے میں نازل ہوئی تھی؛ تو پھر ترمیم کس کتاب میں ثابت ہوئی؟ تورات یا قرآن؟
[22]

 رجم سے متعلقہ (حاضر و غائب) دونوں آیات میں (اگر بالفرض آیت منسوخہ کے الفاظ کو درست تسلیم کر لیا جائے تب بھی) میں ہی شادی شدہ (محصن) و غیرشادی شدہ (عفیف) کی کسی قسم کی تفریق نہیں پائی جاتی کیونکہ حاضر سورت النور کی آیت 2 میں الفاظ زانی اور زانیہ کے ہیں

[1]
 اور غائب نسخ شدہ آیت میں الفاظ بمطابق موطاء امام مالک کے شیخ اور شیخیہ کے ہیں
[20] 

رجم سے متعلقہ (حاضر و غائب) دونوں آیات (اگر بالفرض آیت منسوخہ کے الفاظ کو درست تسلیم کر لیا جائے تب بھی) ان میں شادی شدہ (محصن) و غیرشادی شدہ (عفیف) کی کسی قسم کی تفریق نہیں پائی جاتی کیونکہ حاضر سورت النور کی آیت 2 میں الفاظ زانی اور زانیہ کے ہیں

 [1]
 اور غائب نسخ شدہ آیت میں الفاظ بمطابق موطاء امام مالک کے شیخ اور شیخہ کے ہیں
 [20]

 شیخ اور شیخہ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ بات محصن یا عفیف (کنوارے پن) کی ہو رہی ہے کیونکہ بڑی عمر کے افراد (شیخ اور شیخہ) بھی غیر شادی شدہ ہو سکتے ہیں۔

تجاوب بر انتقاد
مسلم علماء اور محققین پر قرآن کی حفاظت پر اٹھائے جانے والے سوالات کا معاملہ اس قدر نازک ہے کہ اس پر رجم کا دفاع اور رجم کا انکار کرنے والے دونوں افکار رکھنے والے گروہوں کی جانب سے نہایت دقیق تجاوب پیش کیا جاتا ہے۔

رجم کے اقراری 
وہ مسلم محققین جو کہ رجم کا دفاع کرتے ہیں ان کی جانب سے پیش کیا جانے والا تجاوب بنیادی طور پر قرآن میں نسخ کے نظریے پر قائم کیا جاتا ہے
[23]

 جس کی تین اقسام بتائی جاتی ہیں (دیکھیے قرآن میں زنا کی سزا) اور ان تین اقسام کے نسخ میں سے رجم کی آیت ، قسم دوم میں شمار کی جاتی ہے اور اپنی اس بات کی دلیل کے لیئے نسخ سے متعلق قرآن کی مذکورہ بالا آیت (البقرہ آیت 106 / مضمون آیت 6) پیش کی جاتی ہے
[19]

 اس موقف پر اٹھنے والے چند بنیادی سوالات کا ذکر مذکورہ بالا قطعے (انتقاد بر قرآن) میں کیا گیا ہے اور یہاں انہیں عددی شکل میں درج کی جارہا ہے؛ جن میں سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ نسخ ہونے والی آیت کے بدل میں (البقرہ آیت 106 کی رو سے) کونسی آیت نازل ہوئی؟

غیرمسلموں کی جانب سے متعدد سوالات اس بارے میں اٹھائے جاتے ہیں
 [21]

اول تو یہ کہ اگر نسخ کی آیت کو تسلیم کیا جائے تو پھر اس منسوخ شدہ آیت کے بدلے میں کونسی بہتر (یا ویسی ہی) آیت نازل ہوئی؟

دوم یہ کہ آیا یہ آیت منسوخ ہونے کے بعد کوڑوں کی سزا کی آیت نازل ہوئی؟ (اگر ایسا ہے تو پھر اس کوڑوں کی آیت کو جو رجم کی مذکورہ بالا آیت کے بعد آئی ، قرآن کی رو سے بہتر تسلیم کیا جائے گا)۔

پھر اس آیت 1 میں شیخ یا شیخہ کی قید یا غیرشادی شدہ یا نوجوان کے ذکر کے بغیر محض زنا کا لفظ کیوں استعمال ہوا؟

قطعہ بعنوان احادیث میں زنا کی سزا میں یہودیوں سے متعلق جو حدیث (2) صحیح بخاری کی درج ہے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں یہودیوں نے تنسیخ و ترامیم نہیں کیں اور وہ حضرت محمد کے زمانے میں بھی رجم کی آیات رکھتی تھی جبکہ قرآن میں وہ آیت نہیں جو رجم کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟

ترمیم کس کتاب میں ظاہر ہوئی؟ تورات یا قرآن؟
[22] 

رجم کے انکاری 
رجم کی سزا قرآن سے ثابت ہونے کا انکار کرنے والے مسلم محققین اپنی دلیل میں یوں بیان کرتے ہیں کہ صحیح بخاری میں حضرت عمر کی جانب سے رجم کی آیت کی موجودگی کے بارے میں جو دو احادیث (قطعہ بعنوان احادیث میں زنا کی سزا حدیث 4 اور 5) درج ہیں تو پھر اس آیت کی قرآن میں غیرموجودگی کی کوئی وجہ نہیں بنتی؛ دوسری حدیث (عدد 5) میں حضرت عمر کے آخری حج کے قریب زمانے کا ذکر بھی آتا ہے اور یہ حدیث 4 سے مفصل واقعہ بیان کرتی ہے جبکہ اس موقع پر بات کو غلط انداز میں پھیلانے والے افراد کی موجودگی بھی اسی حدیث میں بیان ہوئی ہے جس کا تذکرہ اس حدیث کی ابتدائی عبارت میں موجود ہے۔ رجم سے انکاری مسلم محققین کہتے ہیں کہ دونوں احادیث میں ایسے فرد کی بات ہوئی ہے جو کہ سنگساری سے انکار کرے گا اور دونوں احادیث میں اُس (حضرت عمر کے) زمانے کی نہیں بلکہ آئندہ زیادہ وقت گذر جانے والے زمانے کی بات ہوئی ہے گویا احادیث کے فحاشی (زنا) کے بارے میں تنازع نمودار ہونے کے وقت میں نمودار ہونے کا امکان قوی ہے اور ان احادیث کا مقصد سنگساری کے خلاف ایک سخت موقف پیدا کرنا معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلی حدیث میں آیت نازل ہونے اس کی تلاوت کیئے جانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ صرف آیت کے قرآن میں نا ہونے کا ذکر ہے۔ مزید تحقیق کی جائے تو بعد میں ایک عبارت ایسی بھی مل جاتی ہے کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نسخ شدہ آیت رجم تھی 
(قطعہ بعنوان انتقاد بر قرآن)

 اور پھر اس کے بعد اب ایک کام رہ جاتا تھا کہ اس آیت کو قرآن میں شامل کر دیا جائے؛ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نا ممکن تھا (اور ہے) کہ اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالٰی نے لیا ہے 
(قطعہ بعنوان قرآن میں زنا کی سزا ؛ آیت 4) 

مزید یہ کہ لوگوں کے لیۓ بے حیائی کو روکنے کی خاطر اس قسم کی سخت سزا کے بارے میں پھیلائی جانی والی نسخ کی باتوں کو برداشت کرنا تو ممکن تھا لیکن براہ راست قرآن میں اس اضافہ کو کوئی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا رجم کے انکاری گروہ کے مطابق گو ایسا مقام آگیا کہ ان احادیث کو رد کرنا ممکن نا رہا (یا انہیں قبولیت حاصل ہوگئی) اور انہوں نے مستند کتب میں جگہ بنا لی پھر ان کی تاویل کے لیئے قرآن میں نسخ کا نظریہ استعمال ہونے لگا اور اس کی تاویل خود قرآن سے نکالنے کی کوشش کی جانے لگی
(رجوع مضمون آیت 6)

 اور کہا کیا کہ یہ نسخ تلاوت ہے نا کہ نسخ عمل 
(رجوع قطعہ بعنوان قرآن میں زنا کی سزا ؛ نسخ کی قسم دوم)
[24]

احصان كى کی شرائط

احصان شادی شدہ زانی کو کہتے ہیں جس کے لئے رجم کی سزا مخصوص کی گئی ہے۔ احصان ہونے کی سات شرائط ہیں۔

1
عورت كى شرمگاہ ( قبل ) ميں وطئ كرنا

اس شرط ميں كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے
" غیر شادى شادہ اور شادى شدہ كے بدلے سو كوڑے اور رجم ہے "

اور ثيابۃ : يعنى شادى شدہ ہونا قبل ميں وطئ سے حاصل ہوتا ہے، اس ليے اسا كا معتبر ہونا ضرورى ہے، اور اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ جماع كے بغير نكاح سے محصن ہونا ثابت نہيں ہوتا، چاہے اس ميں خلوت بھى ہوئى ہو، يا قبل كے بغير وطئ ہوئى ہو يا دبر ميں وطئى ہوئى ہو يا پھر كچھ نہ ہوا ہو تو اسے محصن نہيں كہا جائيگا؛ كيونكہ اس سے عورت ثيب نہيں ہوتى، اور نہ ہى وہ كنوارہ پن سے خارج ہوتى ہے، جن كى حد سو كوڑے اور ايك برس جلاوطنى ہے، اس ليے كہ حديث ميں يہى وارد ہے

اور وطئ ميں يہ ضرورى ہے كہ حشوہ يعنى عضو تناسل كا اگلا حصہ عورت كى شرمگاہ ميں غائب اور داخل ہو؛ كيونكہ يہ وطئ كى حد ہے جس كے ساتھ وطئ كے احكام كا تعلق ہے

2
وہ نكاح ميں ہو؛ كيونكہ نكاح كو احصان كا نام ديا جاتا ہے؛ اہل علم ميں كوئى اختلاف نہيں كہ زنا اور وطئ شبہ سے وطئ كرنے والا محصن يعنى شادى شدہ شمار ہو، اور نہ ہى ہمارے علم ميں ہے كہ لونڈى سےوطئ كرنے والا شادى شدہ كہلاتا ہو، اس كے متعلق كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ يہ نكاح نہيں، اور نہ ہى اس سے نكاح كے احكام ثابت ہوتے ہيں


وہ نكاح صحيح ہو، تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو‘ بلکہ نکاح کے بعد خلوت صحیحہ بھی ہوچکی ہو صرف عقد نکاح کسی فرد کو محصن یا عورت کومحصنہ نہیں بنا دیتا کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں ان کو رجم کیا جائے‘ اس شرط پر بھی اکثر فقہاء متفق ہیں‘ مگر امام ابو حنیفہ اور امام محمد اس میں اتنا اضافہ کرتے ہیں کہ مرد یا عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا جبکہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد‘ بالغ اور عاقل ہوں‘ اس مزید شرط سے جو فرق پڑتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اگر مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہوا ہو جو لونڈی ‘ نابالغ یا مجنون ہو‘ تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستر بھی ہوچکا ہو‘ پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہوگا‘ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے کہ اگر اس کو اپنے نابالغ ‘ مجنون یا غلام شوہر سے مباشرت کا موقع مل بھی چکا ہو‘ پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہوگی۔

4
 آزادى ہو، ابو ثور رحمہ اللہ كےعلاوہ باقى سب اہل علم كے ہاں يہ شرط پائى جاتى ہے

5
 بالغ ہو

6
عاقل ہو، اگر بچے اور مجنون نے وطئ كر لى اور پھر بالغ يا عقلمند ہو گيا تو وہ محصن شمارنہيں ہو گا، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے، اور امام شافعى كا مسلك بھى يہى ہے

7
وطئ كحالت ميں ان دونوں ميں كمال پايا جائے، وہ اسطرح كہ عقلمند اور آزاد مرد عقلمند اور آزاد عورت سے وطئ كرے، امام ابو حنيفہ اور ان كے اصحاب كا قول يہى ہے

اور امام مالك كہتے ہيں: اگر ان دونوں ميں سے ايك كامل ہو تو وہ محصن ہو گا، ليكن بچہ نہيں جب وہ كسى بڑى عورت سے وطئ كرے تو وہ اسے محصن نہيں كريگا
 [25]

حوالہ جات

^
 1.0 1.1 1.2
 قرآن؛ سورۃ النور 24 آیت 2 اردو ترجمہ کا مآخذ موقع

^
 دارالافتاء کی جانب سے رجم پر ایک فتویٰ

^
 قرآن؛ سورۃ النور 24 آیت 2

Khalid Zaheer: About the verse of stoning
 روئے خط موقع

^
 قرآن؛ سورت الانعام (6) آیت 115 اردو ترجمہ کا مآخذ موقع

^
 سنن ابن ماجہ حدیث 2020 عربی موقع

^
 رجم اور نسخ کا بیان انگریزی موقع

^
 قرآن: سورت الحجر (15) آیت 9

^
 Atheism Vs Christianity Forum
 پر قرآن اور رجم پر گفتگو

^
 Answering Ansar
 ایک شیعہ موقع پر رجم کی گفتگو اور قرآن کی حیثیت پر مضمون


Creed of the shia; explained
 پیڈی ایف ملف 
(انگریزی)


^
 قرآن سورت الجاثیہ (45) آیت 18

^
 Who ordered rajm? The Majlis.net
 روئے خط موقع

^
 صحیح بخاری: کتاب؛ المناقب باب؛ قول اللہ تعالی حدیث؛ 3678 عربی متن

^
 محمد بن اسماعیل بخاری (اردو ترجمہ: مولانا محمد داؤد راز)، صحیح بخاری، مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند 2004

^
 صحیح مسلم حديث نمبر
( 1690 )

^
 17.0 17.1
 صحیح بخاری: کتاب المحاربین حدیث 6917 اور 6918 عربی موقع

^ قرآن میں نسخ کے بارے میں ایک فتویٰ روئے خط موقع

^
 19.0 19.1
 قرآن: سورت البقرہ آیت 106

^
 20.0 20.1 20.2 
موطاء امام مالک 1512 عربی موقع

^
 21.0 21.1
 Collection of the Quran
 روئے خط موقع

^
 22.0 22.1
 Islam and Stoning
 روئے خط موقع

^
 دارالافتاء کی جانب سے نسخ پر ایک فتویٰ روئے خط ربط


The preservation of the noble Quran
 روئے خط مضمون

^
 المغنى ابن قدامہ ( 9 / 41 ) اور مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 2 / 224 ) بھى ديكھيں

زمرہ جات: سانچہ کے غلط استعمال والے صفحات اسلام متعلقہ نزاعات


Tuesday, 28 May 2013

نسل پرستی ذات پات ملوکیتی اور ہندو ادوار کی بدعتیں

نسل پرستی ذات پات ملوکیتی اور ہندو ادوار کی بدعتیں

برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا۔ قدیم ہند کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے قدیم باشندے چھوٹے قد کے اور سیاہی مائل رنگت کے تھے۔ وسطی ایشیا سے آریہ اور راجپوت قبائل ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔

اس کے بعد انہوں نے تمام مقامی باشندوں کو مذہبی جبر و تشدد کے ذریعے اپنے مذہب کو اپنانے پر مجبو رکیا اور اس کے ساتھ ہی ذات پات کا نظام رائج کیا۔ اس نظام کے تحت مذہبی رہنما یعنی برہمن سب سے بلند و برتر، سیاسی رہنما یعنی کھتری دوسرے نمبر پر، محنت کش اور تاجر یعنی ویش تیسرے نمبر پر اور ادنیٰ درجے کے کام کرنے والے شودر چوتھے درجے کی ذات قرار پائے۔ 

جب برصغیر میں اسلام کی کرنیں داخل ہوئیں تو سب سے پہلے نچلی ذات کہلانے والوں نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے حسن سلوک اور اسلام کے آفاقی پیغام سے متاثر ہوکر یا پھر اپنے مفادات کے تحت اعلیٰ کہلانے والی ذاتوں کے افراد نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اگرچہ ان نومسلموں نے اسلام کے بہت سے احکام کو اپنا تو لیا لیکن اپنی بعض پرانی عادات و خصائل سے نجات حاصل نہ کر سکے۔ ان میں سے ایک عادت ذات پات کی تفریق کی تھی۔

جدید شہری معاشروں میں بعض سماجی و معاشی تبدیلیوں کے نتیجے میں ذات پات کا نظام زوال پذیر ہے البتہ دیہی معاشروں میں ابھی بھی اثرات باقی ہے۔ ان بنیادوں پر اکثر لڑائی جھگڑے اور فساد بھی ہوجایا کرتے تھے لیکن ہمارے دور میں ذات پات کی تفریق عام طور پر صرف رشتے ناطے اور شادی بیاہ کرتے ہوئے یا پھر الیکشن میں ووٹ دیتے ہوئے سامنے آتی ہے ۔

جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے معمولی سی واقفیت بھی رکھتا ہے ، وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ آپ نے اپنی چار میں سے تین صاحبزادیوں کا نکاح غیر سادات میں کیا۔ 

حسب و نسب کے غرور کو توڑنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد نے بھی پوری طرح حصہ لیا۔ چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا جو کہ سید نہ تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پوتے عبداللہ بن عمرو بن عثمان سے ہوا جو کہ سادات کے دائرے میں داخل نہیں۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی متعدد پوتیوں کا نکاح غیر سادات میں ہوا جن میں سیدتنا زینب، ام کلثوم، فاطمہ، ملیکہ، ام قاسم شامل ہیں۔ 
(رضوان اللہ علیہم اجمعین)

ان مقدس ہستیوں کے طرز عمل سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نکاح کے وقت کسی حسب نسب اور ذات برادری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسلام میں فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ اگر کوئی ان ہستیوں کے طرز عمل کے خلاف نسلی غرور میں مبتلا ہے تو وہ اس بنیاد ہی کو ڈھا رہا ہے جو اس کے اپنے آباؤ اجداد قائم کرکے گئے۔

افسوس اس بات پر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہم نے اپنی کاوشوں کو چھوڑ کر اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں ہی پر فخر کرنا شروع کردیا ہے۔

شادی بیاہ سے ہٹ کر ذات پات اور خاندان کا غرور ہمیں دوسرے معاملات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طرز عمل کے بالکل برعکس حکومتوں کو نسل پرستی کا شکار بنایا گیا۔ خلفائے راشدین میں حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے اپنی اولاد کو حکومت میں کوئی عہدہ نہ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخلص ساتھیوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے آپ نے اپنے بیٹوں کو ساتھ رکھا۔ آپ کی شہادت کے بعد عام مسلمانوں نے اتفاق رائے سے آپ کے صاحبزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیا لیکن وہ بھی چھ ماہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے۔

عبدالملک بن مروان کے دور سے صحیح معنوں میں ملوکیت کا آغاز ہوااور امت مسلمہ نسلی بادشاہت کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ بنو عباس اور دیگر بادشاہتوں کی صورت میں چلتا رہا۔

ہمارے ہاں نام نہاد جمہوریتوں میں بھی یہی رجحان ہے کہ چند ہی خاندان میدان سیاست کے شہسوار بنے ہوئے ہیں جہاں باپ کے بعد بیٹا ہی اپنے حلقے کا بے تاج بادشاہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔

یہی رجحان اب دینی جماعتوں میں داخل ہوچکا ہے اور اکثر جماعتوں کے قائدین اپنی زندگیوں ہی میں اپنے بیٹوں کو بطور خاص اپنی خالی ہونے والی مسند کے لئے تیار کرتے ہیں۔ اگر ھم ملک کی بڑی دینی جماعتوں کے اندرونی اختلافات اور جھگڑوں کا جائزہ لیں تو ان اختلافات کی بنیادی وجہ اسی نسل پرستی کو پائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کار خیر میں وہ جماعتیں بھی شریک ہیں جن کی پوری جدوجہد ہی آمریت اور نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھانے پر مبنی تھی۔

سعودی عرب, غیر ملکی مزدور کے لئے بیگار کیمپ


سعودی عرب, غیر ملکی مزدور کے لئے بیگار کیمپ 

اس سال 2013 فروری کے وسط میں سعودی عرب میں ایک سال سے پھنسے ہوئے سات سو پاکستانی محنت کشوں کے ساتھ ہونیوالے فراڈ کی خبر اس وقت منظر عام پر آئی جب ان میں سے ایک محنت کش کی دس فروری کو کام کے دوران حادثے میں موت واقع ہو گئی۔ ترکی کی ایم اے پی اے نامی تعمیراتی کمپنی نے ایک سال پہلے سات سو پاکستانی محنت کشوں کو ویزے جاری کئے لیکن سعودی عرب پہنچنے پر نہ صرف یہ انکشاف ہوا کہ ان محنت کشوں کو دیئے جانیوالے ویزے جعلی تھے بلکہ ان محنت کشوں کیساتھ مختلف پیشوں اور تنخواہوں کے حوالے سے کئے جانے والے معاہدے بھی جھوٹے ہیں۔

 اس وسیع پیمانے کی جعلسازی کا شکار ہونے کے بعد محنت کشوں میں کمپنی کیخلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا لیکن سعودی عرب کے سرمایہ دار نواز قانون کی جکڑ بندیوں کی وجہ سے یہ محنت کش گزشتہ ایک سال سے اسی کمپنی کے کیمپوں میں قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ چونکہ سعودی قانون کے مطابق آپ کو جس کمپنی کی طرف سے ویزا جاری کیا گیا ہے آپکو اسی کمپنی میں کام کرنا پڑے گا اور اگر آپ اس کمپنی میں کام نہیں کرنا چاہتے تو آپ کو نہ صرف لاکھوں روپے خرچ کر کے نیا ویزہ خریدنا پڑے گا بلکہ نئے ویزے کے حصول کیلئے آپ کو پہلے سعودی عرب سے واپس اپنے ملک آنا پڑے گا۔ یہ محنت کش جو لاکھوں روپے خرچ کر کے ایم اے پی اے کمپنی میں مزدوری کی غرض سے گئے تھے اس فراڈ کے باوجود اپنی غربت کے مارے ہوئے ایک سال تک سعودی حکام کی جانب سے انصاف کے منتظر رہے۔ 

لیبر کورٹ میں کمپنی کے خلاف درجنوں درخواستیں دینے کے باوجود سعودی حکام نے اس معاملہ پر کوئی توجہ نہ دی۔ 10 فروری کو ایک محنت کش کی جان کی قربانی نے اس فراڈ کو منظر عام پر لایا جس پر چاروناچار صدر زرداری کو بھی اس واقعے کا کھلے عام نوٹس لینا پڑا جس کے بعد سعودی حکام نے مداخلت کرتے ہوئے کمپنی افسران جو اس فراڈ میں ملوث تھے کیخلاف قانونی کارروائی کی اور ان سات سو محنت کشوں کو اس بیگار کیمپ سے نجات دلاتے ہوئے یہ اختیار دیا کہ چونکہ ان کے ساتھ ہونے والے فریب میں کمپنی افسران قصور وار ہیں اس لئے یہ محنت کش چاہیں تو کسی دوسری کمپنی میں نوکری تلاش کر سکتے ہیں یا واپس اپنے ملک چلے جائیں اور کمپنی کی جانب سے دیئے جانے والے جعلی ویزوں کو کارآمد قرار دے دیا گیا

فریب اور ظلم و جبر کا یہ چھوٹا سا واقعہ عرب کے تپتے صحراؤں میں محنت کی بھٹی میں اپنا لہو جھلسانے والے ایک کروڑ سے زیادہ غیر ملکی محنت کشوں کی حالت زار کی معمولی سی عکاسی کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ہمیں سامراجی ذرائع ابلاغ میں عموماً یہ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ چین کے نام نہاد کمیونسٹ حکمران اپنے ملک کے سماجی اعداد و شمار کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے لیکن اس سے کئی زیادہ ان ذرائع ابلاغ نے سعودی عرب کے رجعتی حکمرانوں کی وحشت اور بربریت کے حوالے سے مجرمانہ خاموشی اپنا رکھی ہے۔ 

سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ دنیا بھر میں دریافت شدہ تیل کے کل ذخائر کا سترہ سے بیس فیصد سعودی عرب میں ہے اور یہ تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ پٹرولیم کی صنعت بجٹ ریونیو کے 80 فیصد، جی ڈی پی کے 45 فیصد اور برآمدات کی آمدنی کے 90 فیصد پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کی کل لیبر فورس کا 60 سے 67 فیصد حصہ غیر سعودی یا خارجی محنت کشوں پر مشتمل ہے جبکہ نجی شعبے میں 90 سے 95 فیصد محنت کش خارجی ہیں۔ جن ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں محنت کش سعودی عرب میں ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ 

پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تقریباً پینتالیس لاکھ (ہر ملک سے پندرہ لاکھ) جبکہ مصر، سوڈان اور فلپائن سے تیس لاکھ (ہر ملک سے دس لاکھ) محنت کش اس کے علاوہ یمن سمیت کئی ایک ممالک سے لاکھوں غیر قانونی مزدور بھی شامل ہیں۔ 1969ء کے لیبر قانون کے مطابق ہر غیر ملکی محنت کش کو سعودی عرب کا ویزہ کسی سعودی شہری کی وساطت اور ضمانت پر ہی جاری کیا جا سکتا ہے جس کو عربی زبان میں ''کفیل‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سعودی حکومت براہ راست کسی محنت کش کو ویزہ جاری نہیں کرتی اور اسی لئے وہ ان غیر ملکی محنت کشوں کے حوالے سے کوئی بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتی۔ اس قانون کی بنیاد پر سعودی عرب کے ایک وزیر محنت و سماجی بہبود نے یہ بیان دیا تھا کہ ''ہمارے ملک میں کوئی غیر ملکی مزدور نہیں بلکہ ہمارے ملک میں کنٹریکٹ (ٹھیکے پر حاصل کئے گئے) مزدور ہیں۔‘‘ کفالت کے اس قانون کی وجہ سے ایک جانب سعودی ریاست جہاں ان غیر سعودی محنت کشوں کے استحصال اور ان پر کفیلوں کی جانب سے کئے جانے والے مظالم سے خود مکمل طور پر بیگانہ اور لاتعلق ہے وہیں ان ویزوں کی خرید و فروخت ایک انتہائی منافع بخش کاروبار ہے جس میں ملوث سعودی اور ٹریول ایجنٹ کروڑوں کماتے ہیں۔ سعودی عرب میں ایک کروڑ سے زائد غیر ملکی محنت کشوں میں ایک حصہ وہ ہے جو براہ راست کسی بڑی کمپنی کی طرف سے جاری کئے گئے ویزے پر اس کمپنی میں ملازمت اختیار کرتے ہیں، 

دوسرا حصہ وہ ہے جو درمیانے اور چھوٹے درجے کی کمپنیوں، ورکشاپوں اور کاروباروں میں ملازم ہے، 

تیسرا حصہ آزاد ویزے پر جانے والے ہیں اور چوتھا اور سب سے زیادہ استحصال، ظلم و جبر کا شکار وہ ہیں جو گھروں میں ملازمت کیلئے جاتے ہیں۔ 

گھروں میں کام کے لیے جانے والی محنت کش خواتین کا بڑا حصہ انڈونیشیا، فلپائن، سری لنکا اور بنگلہ دیش سے ہے۔ یہ محنت کش گھروں میں سالوں تک قید رہتی ہیں چونکہ سعودی عرب میں خواتین کے گھر سے نکلنے کے لیے ان کے ساتھ کسی محرم (باپ، بھائی یا شوہر) کا ہونا ضروری ہے اور اس قید میں جسمانی کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات کا ہونا بھی ایک عام معمول ہے اور شرعی قوانین کے مطابق عورت کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ثابت کرنے کے لیے چار خواتین یا دو مرد گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان مظلوم خواتین کو کبھی میسر نہیں آسکتے۔ اس قسم کے حالات میں سعودی عرب ان محنت کش خواتین کے لئے حقیقی معنوں میں نہ ختم ہونے والی وحشت ہے۔

آزاد ویزے کا افسانہ
سعودی عرب میں ایک بھاری تعداد غیر ملکی محنت کشوں کی ایسی ہے جو آزاد ویزے حاصل کر کے اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں لیکن درحقیقت سعودی عرب کے ویزا قوانین کے مطابق آزاد ویزا کوئی ہے ہی نہیں، کیونکہ کسی بھی غیر ملکی محنت کش کو ویزا یا تو کفیل کی یا کمپنی کی وساطت سے جاری کیا جاتا ہے۔ وہ تمام سعودی جو ویزوں کے کاروبار سے کروڑوں روپے کماتے ہیں انہوں نے اپنے منافعوں کو بڑھانے کیلئے آزاد ویزہ ایجاد کیا ہے جو ایک جانب سعودی قانون کی نظر میں غیر قانونی ہے لیکن غیر ملکی محنت کشوں کیلئے کسی حد تک سہولت ہے جس میں کم از کم ایک حد تک یہ آزادی ہوتی ہے کہ آپ اپنی مرضی سے کام تلاش کر کے اس کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ لیکن آزاد ویزے کے اجراء کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک سعودی اپنا ایک فرضی کاروبار دستاویزات میں دکھا کر ویزے حاصل کرتا ہے اور تقریباً تین سے چھ لاکھ پاکستانی روپے یعنی بارہ سے بیس ہزار ریال میں ہر ایک ویزا فروخت کرتا ہے۔ اس ویزے کی فروخت اس معاہدے کے ساتھ مشروط ہوتی ہے کہ آزاد ویزہ حاصل کرنے والا محنت کش جب کسی جگہ ملازمت حاصل کرے گا تو وہ سعودی اس کو دستاویزی اجازت نامہ جاری کرے گا تاکہ وہ اپنا اقامہ (رہائشی کارڈ) اور لیبر کارڈ نئے نام سے بنوا سکے اور اکثر اس معاہدے کے باوجود دو سے چار ہزار ریال مزید اس سعودی کو دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے۔

سعودی قوانین کے مطابق کوئی محنت کش اپنا کفیل یا کمپنی تبدیل نہیں کر سکتا ایسا کرنے کیلئے اسے نیا ویزہ خریدنا پڑے گا۔ لیکن اس قانون کے باوجود آزاد ویزوں کے اجراء اور فروخت کا ایک بہت بڑا کاروبار ہے جو مسلسل پھیلتا جا رہا ہے۔ ان دنوں سعودی حکومت اس قانون کو زور و شور سے نافذ کر رہی ہے کہ تمام ایسے محنت کش جو اپنے کفیل کے پاس کام نہیں کر رہے وہ سعودی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اس لئے ان کیخلاف انتہائی اقدامات اٹھاتے ہوئے انہیں واپس اپنے ملک بھیجا جا رہا ہے۔ سعودی قانون کے مطابق ہر غیر ملکی محنت کش کو سعودی عرب پہنچنے پر ایک رہائشی کارڈ جسے اقامہ کہتے ہیں اور ایک لیبر کارڈ بنوانا پڑتا ہے اور یہ دونوں کارڈ بنوانے کی ذمہ داری اس محنت کش کو سعودی عرب کا ویزہ دلوانے والی کمپنی یا فرد (کفیل) پر ہے۔ اقامہ اور لیبر کارڈ کی سالانہ تجدید ہوتی ہے جس کی بالترتیب پہلے سات سو اور ایک سو سعودی ریال فیس تھی جو حالیہ دنوں میں اضافے کے ساتھ 2400 اور 300 سعودی ریال کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اقامہ کی فیس میں اضافے کی وجہ سے تمام چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں اور کمپنیوں کے مالکوں نے ان کے ہاں کام کرنے والے غیر ملکی محنت کشوں کے اقامہ جات کی تجدید کرانے سے انکار کر دیا ہے چونکہ وہ سات سو سعودی ریال کی جگہ 2400 سعودی ریال ادا نہیں کر سکتے، اس کے باعث ہزاروں محنت کش اپنے رہائشی کارڈ کارآمد نہ ہونے کی وجہ سے غیر قانونی قرار دیئے جا رہے ہیں اور ان کو زبردستی واپس اپنے گھروں کو بھیجا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑی کمپنیاں بھی فیسوں میں اس اضافے کو مکمل طور پر یا نصف سے زیادہ رقم محنت کشوں کو اپنی تنخواہوں سے ادا کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ حالیہ عرصے میں سعودی حکام نے اس قانون کو بھی زور و شور سے نافذ کرنا شروع کیا ہے کہ تمام بڑی نجی کمپنیاں مزدوروں کی کل تعداد کا کم از کم نصف سعودی باشندوں کو ملازمتیں دیں ورنہ ہر اضافی غیر ملکی مزدور رکھنے کیلئے دو سو ریال ماہانہ فی مزدور ادا کریں۔ اس قانون کے مطابق کمپنیوں کو چار اقسا م میں تقسیم کیا گیا ہے۔

 اس تقسیم کے مطابق سبز رنگ کے زمرے میں وہ کمپنیاں آتی ہیں جو اس نئے قانون پر مکمل عملدرآمد کر رہی ہیں خاص کر سعودی مزدوروں کو ملازمتیں دینے کے حوالے سے 

جبکہ سرخ رنگ کے زمرے میں وہ کمپنیاں اور کاروبار آتے ہیں جو اس قانون پر بالکل عملدرآمد نہیں کرتیں۔ سرخ رنگ کے زمرے میں آنے والی کسی بھی کمپنی میں کام کرنے والے کسی بھی غیر ملکی محنت کش کے ویزوں کی تجدید کی ممانعت کر دی گئی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسی کمپنیوں اور کاروباروں کی تعداد اڑھائی لاکھ ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی بڑی تعداد میں محنت کش اس قانون کی زد میں آئیں گے۔ 

اسی طرح ایک تیسری قسم کی کمپنیاں جن کوپیلے رنگ کے زمرے میں رکھا گیا ہے ان کو پابند کر دیا گیا ہے کہ غیر ملکی ملازمین کو چھے سال سے زیادہ ملازمت پر نہیں رکھ سکتی اور جن ملازمین کو ان کمپنیوں میں کا م کرتے ہوئے چھے سال یا اس سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے ان کے ویزوں کی بھی تجدید نہیں ہوگی۔

شاہی خاندان کی لوٹ مار اور بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق
ایک طویل عرصے تک مقامی آبادی کو تیل کی بے پناہ آمدن اور غیر ملکی محنت کشوں کے وحشیانہ استحصال سے نچوڑی ہوئی دولت کی بنیاد پر ایک ایسی زندگی گزارنے کی ترغیب دی جاتی رہی کہ سعودی عرب کے مقامی باشندے تیل کی دولت اور غیر ملکیوں کی محنت پر محض عیش کرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن گزشتہ تین چار دہائیوں سے آبادی میں تیز ترین اضافے، شاہی خاندان کے بڑھتے ہوئے حجم کے ساتھ ملکی دولت کی اندھی لوٹ نے صورتحال کو بہت حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ 2008ء کے عالمی معاشی زوال اور خاص کر عرب انقلاب نے سعودی شاہی خاندان اور ان کے سامراجی آقاؤں کو حواس باختہ کر دیا۔ 

عرب انقلاب نے جس طرح تیونس اور مصر کے حکمرانوں کے تخت اکھاڑے اس منظر نے سعودی شاہی خاندان کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ اسی لئے بحرین میں ابھرنے والی تحریک کو سعودی فوج نے انتہائی بے رحمی اور سفاکی سے کچلا تھا اور شام میں تحریک کو سبوتاژ کرنے اور فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دینے میں سعودی حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ عرب انقلاب کی پہلی لہریں چاروں سمتوں سے سعودی عرب کی سرحدوں سے ٹکرا کر واپس پلٹ گئیں اور سعودی عرب میں ایک بڑی عوامی تحریک نہیں ابھر سکی لیکن عرب انقلاب نے سعودی حکمرانوں کو ان کے مستقبل کی جھلک قاہرہ کی گلیوں اور چوراہوں کے مناظر کی صورت میں دکھا دی ہے۔ اس خوف کے مارے سعودی حکمران اصلاحات کے ایک منصوبے جس کا آغاز 2003ء میں کیا گیا تھا اور جس کو 2013ء میں مکمل ہونا تھا کو اس بوکھلاہٹ اور پر انتشار انداز میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے نئی الجھنیں اور مسائل ناقابل حل شکل میں ابھر رہے ہیں۔ درحقیقت سعودی سماج میں امارت اور غربت کی ایک انتہائی بیہودہ خلیج پیدا ہو چکی ہے جس میں ایک جانب شاہی خاندان کے چند افراد کے پاس بے انتہا دولت کا اجتماع ہوتا جا رہا ہے اور دوسری جانب عام سعودی بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیروزگاری 12 فیصد سے اوپر ہے جبکہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح بتیس فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ نائب وزیر محنت ڈاکٹر عبدالواحد بن خالد نے 'آبزرور‘ اخبار کو جون 2011ء میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ ''ہمیں پینسٹھ لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمارے پاس جس قسم کی نوکریاں ہیں لوگ ان کو کرنا پسند نہیں کرتے۔ ‘‘

سعودی عرب کی آبادی کا دو تہائی حصہ تیس سال سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے جبکہ بیروزگاروں کی کل تعداد کے تین چوتھائی حصے کی عمریں لگ بھگ بیس سال یا اس کے قریب قریب ہیں۔ دسمبر 2011ء میں تین صحافیوں فیرس، حسام اور خالد کو یوٹیوب پر سعودی عرب میں غربت کے حوالے سے دس منٹ کی ویڈیو فلم جاری کرنے کے جرم میں گرفتار کر کے کئی دن تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ اس ویڈیو فلم کو بنانے والوں کے مطابق بائیس فیصد سعودی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ستر فیصد کے پاس اپنے گھر نہیں ہیں۔ احرام ویب سائیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق بیس لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہیں جبکہ خواتین میں بیروزگاری کی شرح تیس فیصد سے زیادہ ہے۔ اگرچہ امارت اور غربت میں بڑھتی ہوئی خلیج، سرمایہ داری کا عالمی زوال اور اس کے خلاف ابھرنے والے انقلابی طوفان اور بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ سعودی حکمران خاندان اور ان کے سامراجی آقاؤ ں کیلئے باعثِ تشویش ہے اور سعودی حکمران طبقات کا ایک حصہ خوف اور بوکھلاہٹ میں اصلاحات کرنے کی نیم دلانہ کوشش کر رہا ہے جس کی وجہ سے پہلے سے موجود انتشار میں شدت آتی جا رہی ہے۔

دوسری جانب شاہی خاندان کی لوٹ مار کا ایک بیہودہ تماشا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شاہی خاندان کے پندرہ ہزار افراد ہیں جو تیل کی دولت کے حصے دار ہیں اور جونکوں کی طرح سعودی سماج کی دولت کو چوس رہے ہیں لیکن ان میں سے 2000 ایسے ہیں جو زیادہ بڑی لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ 

مثلاً فوربس جریدے نے حال ہی میں جب 2013ء کے امیر ترین افراد کی فہرست شائع کی تو ایک سعودی شہزادے الولید بن طلال کو بیس ارب ڈالر کے اثاثوں کی ملکیت کے ساتھ دنیا کا چھبیسواں امیر ترین فرد قرار دیا جس پر اس شہزادے نے احتجاج کیا کہ جریدے فوربس نے اس کی دولت کم بتا کر اس کی توہین کی ہے۔ شہزادے نے کہا کہ اس کے اثاثوں کی مالیت 29.6  ارب ڈالر ہے اور یہ دنیا کے دس امیر ترین افراد کی فہرست میں آتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ شہزادے ولید کی کل دولت کتنی ہے اس اعتراض سے ہمیں شاہی خاندان کی لوٹ مار کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے۔ 

اسی طرح سعودی عرب کا موجودہ بادشاہ عبداللہ سترہ ارب ڈالر کی دولت کا مالک اور دنیا کا تیسرا امیر ترین بادشاہ ہے۔ ایک سعودی معیشت دان جس نے وزارت خزانہ میں ذمہ داریاں سر انجام دی ہیں اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نیویارک ٹائمز اخبار کو بتایا کہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی بتا سکتا ہے کہ شاہی خاندان تیل کی دولت میں کتنا ہڑپ کر جاتا ہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ بجٹ کیلئے کتنا دیا جاتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں ظاہر کیا جاتا کہ اس سے پہلے عرب امریکن آئل کمپنی کتنا لے جاتی ہے۔ 

وکی لیکس نے ریاض میں امریکی سفارتخانے سے 1996ء میں بھیجے گئے ایک خفیہ مراسلے کو شائع کیا جس میں شاہی خاندان کی لوٹ مار کا تذکرہ کچھ یوں ہے۔ ''تیل کی دولت سے تمام اہم ممبران کو ماہانہ اڑھائی لاکھ ڈالر اور خاندان کے غریب ترین اور غیر اہم ترین ممبران کو 800 ڈالر ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ 1996ء میں شاہی خاندان کو سالانہ وظیفے کی مد میں دو ارب ڈالر دیا جاتا تھا جو اس وقت کے سعودی بجٹ کے پانچ فیصد کے برابر تھا۔ اس کے علاوہ چھ شہزادے ایسے تھے جو سعودی عرب کی روزانہ کی 80 لاکھ بیرل تیل کی پیداوار میں سے دس لاکھ بیرل تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی بھاری رقم آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ شاہی خاندان کے افراد بینکوں سے کروڑوں ڈالر قرض لیتے ہیں اور واپس نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ شہزادوں کا ایک گروہ بجٹ سے ماورا اربوں ڈالر کے منصوبوں کے ذریعے دولت کے انبار حاصل کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زمینوں پر ناجائز قبضوں اور پھر ان کی حکومت کو ترقیاتی منصوبوں کیلئے مہنگے داموں فروخت کے علاوہ لاکھوں غیر ملکی محنت کشوں کو ویزوں کے اجرا کے عمل کے ذریعے کروڑوں کماتے ہیں۔‘‘ 1996ء میں شہزادہ الولید بن طلال کے اثاثوں کی مالیت 13 ارب ڈالر تھی جو آج 2013ء میں 29.6 ارب ڈالر ہو چکی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس عرصے میں ان شہزادوں کو اپنی دولت کو دوگنا سے زیادہ کرنے کے لئے لوٹ مار کی رفتار اور شرح کو بھی دوگنا سے زیادہ کرنا پڑا ہو گا۔

رجعتی قوتوں کی عالمی سطح پر پشت پناہی
اپنے سامراجی عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے لوٹ مار اور محنت کشوں کے استحصال سے حاصل ہونے والی اسی لا متناہی دولت کا کچھ حصہ سعودی شاہی خاندان کے افراد نجی طور پر یا سعودی ریاست سرکاری طور پر دنیا بھر کے مذہبی دہشت گرد گروہوں میں تقسیم کرتی ہے، اور ایسا ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں مصروف امریکی سامراج کی مکمل حمایت اور تعاون سے کیا جاتا ہے۔ جن ممالک میں سلفی، وہابی وغیرہ مسلک سے تعلق رکھنے والے تشدد پسند اوردہشت گرد گروہوں کو یہ ''امداد‘‘ دی جاتی ہے ان میں پاکستان، سومالیہ، افغانستان، شام، مصر، انڈونیشیا، ملائشیا، فلسطین وغیرہ سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں موجود سلفی اور وہابی گروہوں کو مالی امداد کے ذریعے زندہ اور قائم رکھا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت انہیں استعمال کیا جاسکے۔ سخت گیرتشدد پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ ''امن پسند‘‘ اسلامی سیاسی جماعتیں بھی اس بہتی گنگا میں پچھلی کئی دہائیوں سے ہاتھ دھو رہی ہیں۔ تیونس اور مصر میں انقلابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایسی ہی 'سیاسی‘ جماعتوں کواستعمال کیا گیا ہے۔ اس سارے عمل کا آغاز امریکی سامراج کی ایما پر 1950ء کی دہائی میں بھاری سرمایہ کاری کے ذریعےسیاسی اسلام کو پروان چڑھا کر کیا گیا جس کا بنیادی مقصد سرمایہ دارانہ نظام، عرب بادشاہتوں اور امریکہ سامراج کے خلاف ابھرنے والی بائیں بازو کی عوامی تحریکوں کو بدنام اور سبوتاژ کرنا تھا۔ انیس سو اناسی میں افغانستان میں ڈالر جہاد کے آغاز کے بعد سے اس پورے عمل میں بھی تیزی آئی جب بنیاد پرست مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلح جہادی گروہوں کی تیاری کا عمل شروع کیا گیا۔

انقلابی تحریک کے امکانات اور سعودی ریاست کی بوکھلاہٹ
غیر ملکی محنت کشوں کے حوالے سے کی جانیوالی حالیہ قانون سازی، ویزوں اور اقامہ وغیرہ کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ اس عمومی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا حصہ ہے جس کے مطابق سعودی حکام غیر ملکی محنت کشوں کی تعداد کو کم سے کم کر کے زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرنا چاہتے ہیں تاکہ بیروزگاری کو بالکل ختم یا کم سے کم کرکے مصر یا تیونس کی طرز کے انقلابی دھماکے ہونے کے امکانات کو جس حد تک ممکن ہے محدود کیا جائے۔ اسی مقصد کیلئے عرب انقلاب کے آغاز کے فوری بعد سعودی حکمرانوں نے 76 ارب ڈالر کے اصلاحات کے ایک پروگرام کا اعلان بھی کیا تھا۔ اگرچہ اس طرح کے تمام اقدامات سعودی حکمرانوں کی کند ذہنیت جس کے مطابق انقلابات کے ابھرنے کی صرف معاشی وجوہات ہوتی ہیں کی تسکین کا باعث شاید بنتے ہوں، یہ انقلابی تحریک کو ابھرنے سے تو کیا روکیں گے لیکن یہ اقدامات غیر ملکی محنت کشوں کے لہو کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے کا باعث بن رہے ہیں۔ غیر ملکی محنت کشوں کی بھاری اکثریت سعودی عرب میں انتہائی کم اجرتوں پر غیر انسانی حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ اس صورتحال میں سعودی حکام کے حالیہ اقدامات زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ 

مثلاً اقامہ اور لیبر کارڈ کی فیسوں میں اضافے کی وجہ سے چھوٹے اور درمیانے درجے کی کمپنیوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی اکثریت صرف اس وجہ سے غیر قانونی قرار پائے گی چونکہ ان کی کمپنی کے مالکان یا کفیل یہ فیس ادا کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ان محنت کشوں کی اپنی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ وہ خود بھی یہ فیس ادا نہیں کر سکتے اور یوں یہ محنت کش جو اپنا لہو پسینے میں بہا کر اپنے گھروں میں چولہے جلاتے ہیں اب وہ بھی ٹھنڈے پڑجائیں گے۔ دوسرا نام نہاد آزاد ویزے پر کام کرنے والوں پر جو قدغن لگائی جا رہی ہے اس کی وجہ سے بھی لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔ 

تیسرا ان کمپنیوں میں جن مقامی لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے وہ کام بالکل نہیں کرتے اور مفت کی تنخواہ لیتے ہیں اس لئے ان کے حصے کا کام بھی خارجی محنت کشوں کو کرنا پڑتا ہے یا دوسری صورت میں اگر یہ کمپنیاں نصف ملازمتیں مقامی لوگوں کو نہیں دیتیں تو دو سو سعودی ریال ماہانہ فی مزدور محنت کشوں کی تنخواہوں سے کاٹا جاتا ہے۔ یہ انتہائی بہیمانہ اور سفاکانہ اقدمات ہیں جو ان غیر ملکی محنت کشوں کو غلامی سے بدتر کیفیت کا شکار بنا رہے ہیں۔ اگرچہ ان اقدامات میں ایک تضاد ہے اور شاید کبھی ان پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہو سکے گا چونکہ نجی شعبے کی تمام کمپنیاں غیر ملکی محنت کشوں کی انتہائی سستی محنت کو لوٹ کر اپنے شرح منافع کو برقرار رکھتی ہیں۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکی محنت کشوں کوکوئی بنیادی سیاسی اور جمہوری حق حاصل نہیں ہے۔ یونین سازی پر مکمل پابندی عائد ہے، محنت کش اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کیخلاف صرف لیبر کورٹس میں درخواست دے سکتے ہیں۔ اگر کسی مقدمے میں ایک فریق سعودی عرب کا باشندہ ہے تو سعودی قانون کے مطابق صرف اسی ایک بات یعنی باشندہ سلطنت ہونے کی بنیاد پر یہ طے ہو جاتا ہے کہ جرم غیر ملکی نے کیا ہو گا۔ اس قسم کی غلامی سے بدتر حالت میں ایک کروڑ سے زائد غیر ملکی محنت کشوں کے استحصال پر ہی نجی شعبے کا انحصار ہے جس میں فوری طور پر یہ گنجائش نہیں ہے کہ سعودی محنت کش ان غیر ملکی محنت کشوں کا متبادل بن جائیں اسی لئے شاہ عبداللہ نے 9 اپریل کو غیر ملکی محنت کشوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو تین مہینے تک ملتوی کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ 

در حقیقت غیر ملکی محنت کش اس بدترین کیفیت کو بھی اس لئے برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اگر کسی قسم کا بھی احتجاج کرتے ہیں تو ان کو فوری طور پر ملک سے نکال دیا جاتا ہے۔ روزگار سے محرومی اور ملک سے بے دخلی کی یہ تلوار ان محنت کشوں کے سروں پر ہر لمحہ لٹکتی رہتی ہے جس کی وجہ سے یہ محنت کش ہر ظلم برداشت کرلیتے ہیں۔ اس کے برعکس سعودی باشندوں کے حوالے سے شاہی خاندان نے جو قوانین بنا رکھے ہیں کم از کم ان میں ان کا معاشی تحفظ ضرور ہے جس میں کم از کم تنخواہ سمیت دیگر مراعات شامل ہیں لیکن سعودی محنت کشوں کا یہ قانونی تحفظ ان کمپنیوں کے منافعوں سے متصادم ہے اسی لئے بہت سی کمپنیوں نے یہ احتجاج کیا ہے کہ پچاس فیصد سعودی مزدور رکھنے کے قانون میں ترمیم کی جائے۔

سعودی معیشت میں مقامی لوگوں کی شمولیت محنت کش طبقے کی سیاسی طاقت میں اضافے کا بھی باعث بنے گی اور یہی محنت کش آنے والے عرصے میں ابھرنے والی تحریک میں پھر فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اس قانون میں اگرچہ ترمیم نہیں بھی کی جاتی پھر بھی بہت سختی سے عملدرآمد بھی نہیں ہوگا۔ لیکن نام نہاد آزاد ویزے کے حامل افراد جن میں شاید کوئی بھی اپنے کفیل کے پاس کام نہیں کرتا اور جن محنت کشوں کے اقامہ جات کی تجدید ان کی کمپنی یا کفیل نے کرانے سے انکار کر دیا ہے ان کیخلاف جاری کریک ڈاؤن کچھ عرصے تک زورو شور سے جاری رہے گا جس کے دوران ہزاروں بلکہ لاکھوں محنت کش روزگار سیمحروم کرکے جبری طور پر اپنے گھروں کو بھیج دیئے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ایک بڑی تعداد میں محنت کشوں کی حیثیت ہمیشہ کے لئے غیر قانونی ہو جائیگی جو اس کریک ڈاؤن میں نہ بھی گرفتار ہوں مگر بعد میں کسی بھی وقت گرفتار کئے جاسکیں گے اور یوں یہ ایک مستقل سلسلہ بن جائے گا۔ دوسری جانب اتنی بڑی تعداد میں محنت کشوں کو بے دخل کرنے کی وجہ سے نجی شعبے کی سرگرمی ماند پڑے گی تو سعودی حکمرانوں کا قانون نافذ کرنے کا بھوت اتر جائے گا اور پھر نئے سرے سے زیادہ مہنگے داموں ویزوں کا کاروبار کیا جائے گا لیکن اس تمام تر گھن چکر میں محنت کشوں کا استحصال اور زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔

سرمایہ داری نظام کے زوال کے شدت اختیار کر جانے کی وجہ سے سعودی حکمرانوں کا اس نظام پر اعتماد جتنا کم ہوتا جائے گا ان کی لوٹ مار اتنی ہی شدید ہوتی جائیگی اور اسی کے ساتھ ساتھ نیچے سے ابھرنے والی بغاوت اور انقلابی تحریک کا خوف بھی بڑھتا جائے گا۔ اسی لئے یہ حکمران اس تحریک کے خوف کی وجہ سے بار بار اسی طرح کی بے ہنگم اور پر انتشار اصلاحات نافذ کرنے کی ناکام کوششیں کریں گے۔ اگرچہ انتہائی وحشیانہ جبر اور اصلاحات کے ملغوبے کے ذریعے سعودی حکمران ابھی تک کسی تحریک کو ابھرنے سے روکنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اب زیادہ لمبے عرصے تک سعودی سماج میں پلنے والے دھماکے کو روکا نہیں جا سکے گا۔

عرب انقلاب کے بعد خواتین اساتذہ اور ٹیلی کمیونیکیشن کے محنت کشوں کی ہڑتالوں سمیت چھوٹے چھوٹے سینکڑوں احتجاج سعودی سماج میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ شاہی خاندان کے اندر لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصے کے حصول کیلئے کئی ایک دھڑے بندیاں موجود ہیں۔ درحقیقت سعودی شاہی خاندان کی حاکمیت سرمایہ داری کے وحشیانہ استحصال اور رجعتی مطلق العنانی کا ملغوبہ ہے جس کے نفاذ اور تحفظ کے لئے بربریت پر مبنی قدیم غلام دارانہ عہد سے ملتے جلتے جبر کو اسلامی قوانین کے لبادے کے ذریعے مقدس بنا کر مسلط رکھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں محنت کش طبقات کے لئے نہ صرف ایک وحشت ناک مشقتی کیمپ ہے بلکہ رجعتیت اور دقیا نوسیت کا گڑھ اور اس کو پھیلانے کا منبع بھی ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی، دہشت گردی اور فرقہ واریت سمیت ہر قسم کی ردانقلابی قوتوں کو امریکی سامراج کی گماشتگی میں حمایت اور مالی معاونت فراہم کرنا سعودی حکمرانوں کا اولین فریضہ ہے۔ دوسری جانب اصلاحات کے نام پر اس قسم کے بھونڈے مذاق کئے جاتے ہیں جیسے سر قلم کرنے جیسی وحشیانہ سزا کی بجائے اب گولی ماری جائے گی۔ ۔ ۔

ان مضحکہ خیز حرکات کی وجہ یہ ہے کہ شاہی خاندان کا اقتدار اس جبر کے بغیر چند دن بھی قائم نہیں رہ سکتا لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس جبر کے باوجود اب اس حاکمیت کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ شاہی خاندان اور ان کے سامراجی آقا سعودی سماج میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے دھماکے سے پھٹ کر انقلابی شکل اختیار کرنے کے خوف سے لرز رہے ہیں۔ اس خوف اور بوکھلاہٹ میں سعودی حکمران جس قسم کی بھونڈی اصلاحات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جبر کی وحشیانہ شکلیں بھی اب شاہی خاندان کی سماج پر گرفت کو قائم رکھنے میں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو یہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ اس جبر کو زیادہ شدت سے جاری رکھتے ہوئے ہی مزید کچھ عرصہ حکمرانی کی جا سکتی ہے اسی لئے اصلاحات کی ہر کوشش کا انت زیادہ سفاکانہ جبر کے نفاذ پر ہوتا ہے۔ دوسری جانب سعودی محنت کش اور نوجوان سست روی سے ہی سہی مگر اس جبر کے خوف سے نجات پانا شروع ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر میں ابھرنے والی انقلابی تحریکیں ان کو نئی شکتی عطا کررہی ہیں۔ آنے والے عرصے میں سعودی محنت کش اور نوجوان شاہی خاندان کی اس وحشیانہ آمریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تاریخ کے میدان میں ضرور اتریں گے۔ اگرچہ موجودہ کیفیت میں غیر ملکی محنت کش اس کیفیت میں نہیں ہیں کہ وہ سعودی عرب میں کسی تحریک کو برپا کر سکیں لیکن ایک بار جب سعودی سماج میں موجود ہیجان پھٹ کر ایک انقلابی تحریک کی صورت میں اپنا اظہار کرے گا تو یہ محنت کش سعودی محنت کشوں کے شانہ بشانہ شاہی خاندان کی سرمایہ دارانہ اسلام پر مبنی لوٹ، جبر، استحصال اور وحشت کیخلاف اپنی آزادی اور نجات کی حتمی جنگ لڑ سکیں گے۔