Tuesday, 28 May 2013

نسل پرستی ذات پات ملوکیتی اور ہندو ادوار کی بدعتیں

نسل پرستی ذات پات ملوکیتی اور ہندو ادوار کی بدعتیں

برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا۔ قدیم ہند کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے قدیم باشندے چھوٹے قد کے اور سیاہی مائل رنگت کے تھے۔ وسطی ایشیا سے آریہ اور راجپوت قبائل ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔

اس کے بعد انہوں نے تمام مقامی باشندوں کو مذہبی جبر و تشدد کے ذریعے اپنے مذہب کو اپنانے پر مجبو رکیا اور اس کے ساتھ ہی ذات پات کا نظام رائج کیا۔ اس نظام کے تحت مذہبی رہنما یعنی برہمن سب سے بلند و برتر، سیاسی رہنما یعنی کھتری دوسرے نمبر پر، محنت کش اور تاجر یعنی ویش تیسرے نمبر پر اور ادنیٰ درجے کے کام کرنے والے شودر چوتھے درجے کی ذات قرار پائے۔ 

جب برصغیر میں اسلام کی کرنیں داخل ہوئیں تو سب سے پہلے نچلی ذات کہلانے والوں نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے حسن سلوک اور اسلام کے آفاقی پیغام سے متاثر ہوکر یا پھر اپنے مفادات کے تحت اعلیٰ کہلانے والی ذاتوں کے افراد نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اگرچہ ان نومسلموں نے اسلام کے بہت سے احکام کو اپنا تو لیا لیکن اپنی بعض پرانی عادات و خصائل سے نجات حاصل نہ کر سکے۔ ان میں سے ایک عادت ذات پات کی تفریق کی تھی۔

جدید شہری معاشروں میں بعض سماجی و معاشی تبدیلیوں کے نتیجے میں ذات پات کا نظام زوال پذیر ہے البتہ دیہی معاشروں میں ابھی بھی اثرات باقی ہے۔ ان بنیادوں پر اکثر لڑائی جھگڑے اور فساد بھی ہوجایا کرتے تھے لیکن ہمارے دور میں ذات پات کی تفریق عام طور پر صرف رشتے ناطے اور شادی بیاہ کرتے ہوئے یا پھر الیکشن میں ووٹ دیتے ہوئے سامنے آتی ہے ۔

جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے معمولی سی واقفیت بھی رکھتا ہے ، وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ آپ نے اپنی چار میں سے تین صاحبزادیوں کا نکاح غیر سادات میں کیا۔ 

حسب و نسب کے غرور کو توڑنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد نے بھی پوری طرح حصہ لیا۔ چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا جو کہ سید نہ تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پوتے عبداللہ بن عمرو بن عثمان سے ہوا جو کہ سادات کے دائرے میں داخل نہیں۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی متعدد پوتیوں کا نکاح غیر سادات میں ہوا جن میں سیدتنا زینب، ام کلثوم، فاطمہ، ملیکہ، ام قاسم شامل ہیں۔ 
(رضوان اللہ علیہم اجمعین)

ان مقدس ہستیوں کے طرز عمل سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نکاح کے وقت کسی حسب نسب اور ذات برادری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسلام میں فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ اگر کوئی ان ہستیوں کے طرز عمل کے خلاف نسلی غرور میں مبتلا ہے تو وہ اس بنیاد ہی کو ڈھا رہا ہے جو اس کے اپنے آباؤ اجداد قائم کرکے گئے۔

افسوس اس بات پر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہم نے اپنی کاوشوں کو چھوڑ کر اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں ہی پر فخر کرنا شروع کردیا ہے۔

شادی بیاہ سے ہٹ کر ذات پات اور خاندان کا غرور ہمیں دوسرے معاملات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طرز عمل کے بالکل برعکس حکومتوں کو نسل پرستی کا شکار بنایا گیا۔ خلفائے راشدین میں حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے اپنی اولاد کو حکومت میں کوئی عہدہ نہ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخلص ساتھیوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے آپ نے اپنے بیٹوں کو ساتھ رکھا۔ آپ کی شہادت کے بعد عام مسلمانوں نے اتفاق رائے سے آپ کے صاحبزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیا لیکن وہ بھی چھ ماہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے۔

عبدالملک بن مروان کے دور سے صحیح معنوں میں ملوکیت کا آغاز ہوااور امت مسلمہ نسلی بادشاہت کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ بنو عباس اور دیگر بادشاہتوں کی صورت میں چلتا رہا۔

ہمارے ہاں نام نہاد جمہوریتوں میں بھی یہی رجحان ہے کہ چند ہی خاندان میدان سیاست کے شہسوار بنے ہوئے ہیں جہاں باپ کے بعد بیٹا ہی اپنے حلقے کا بے تاج بادشاہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔

یہی رجحان اب دینی جماعتوں میں داخل ہوچکا ہے اور اکثر جماعتوں کے قائدین اپنی زندگیوں ہی میں اپنے بیٹوں کو بطور خاص اپنی خالی ہونے والی مسند کے لئے تیار کرتے ہیں۔ اگر ھم ملک کی بڑی دینی جماعتوں کے اندرونی اختلافات اور جھگڑوں کا جائزہ لیں تو ان اختلافات کی بنیادی وجہ اسی نسل پرستی کو پائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کار خیر میں وہ جماعتیں بھی شریک ہیں جن کی پوری جدوجہد ہی آمریت اور نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھانے پر مبنی تھی۔

No comments:

Post a Comment