جدید سائنس اسلام کی دَین ہے مگر مسلمان کہاں کھڑے
ہیں ؟
اسلام ایک انقلابِ فکرونظر کا نام ہے۔ جب اسلام آیا تو دنیا روایتی دور سے نکل کرسائنسی دور میں داخل ہو گئی۔ قرآن میں انسان کو جا بجا غورو فکر اور تعقل پر ابھارا ہے۔ جابجا یعقلون تعقلون اور تفکرون (یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے یا تم غورنہیں کرتے ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ بعض اسکالروں نے لکھا ہے کہ قرآن نے عقل وفکر کے صیغے کم سے کم 500 مرتبہ استعمال کیے ہیں۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ غو ر و فکر کرنا خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا ہے، اس سے کام لینے اور غورفکر کرنے پر بہت زیادہ ابھارا گیا ہے ۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو اس بات کی تعلیم دیتے تھے کہ وہ عقل سے کام لیں اورغوروفکر کیا کریں۔ قرآن نے ان بندوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے جو کائنات میں غوروفکر کرتے ہیں اور اللہ کی آیات پر تدبر کرتے ہیں ۔ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اپنے دماغ کا استعمال نہیں کرتے اور اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید کیے چلے جاتے ہیں ان کو قرآن نے وہ چوپایوں سے بھی زیادہ بدعقل قرار دیا ہے۔
جب اسلام آیا تو پوری دنیا میں اسطورہ کا رواج تھا۔ میتھالوجی کے تصورات وخرافات عام تھے جن میں یونانی میتھالوجی ، ہندی میتھالوجی ، رومی صنمیات اوراسرائیلی خرافی قصے زبان زدعام تھے ۔ کائنات کی اشیاء ، اجرام فلکی ، شجروحجر، سمندر اور آسمان سب کو انسان ہیبت کی نظر سے دیکھتا اور ان کو دیوی دیوتا سمجھ بیٹھتا تھا۔ یونانیوں نے جو منطق وفلسفہ ایجاد کیا تھا اس میں بھی عقل عام سے دور ازکار بحثیں تھیں، استقرائی دلیلوں پر زور دیا جاتا تھا۔ غرض انسان اس کائنات کو حیرت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اور جس چیز کو انسان حیرت و سرگشتگی سے دیکھے اس کو وہ اپنا دیوتا تو بنا سکتا ہے کبھی اس کو اپنی تحقیق وتفتیش اور رسرچ کا موضوع نہیں بنا سکتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کم سن بیٹے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو اسی دن سورج کو گہن لگ گیا۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کے غم میں سورج چاند کو بھی غم ہوا اور گہن لگ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں بھی یہ بات پہنچی توآپ نے صحابہؓ کو جمع کر کے خطبہ دیا ا ور فرمایا کہ یہ چاند سورج خدا کی نشانیاں ہیں وہ کسی کی موت سے گہن آلود نہیں ہوتے بلکہ طبیعی قوانین کی کارفرمائی سے ایسا ہوتا ہے ۔
میرا مطلب یہ ہے کہ ایک توہم کے پیدا ہونے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خاتمہ کر دیا۔ کیونکہ توہمات کے رہتے ہوئے انسان عقل سے اورغوروفکر سے کام نہیں لے سکتا۔ وہم عقل پر تالا ڈال دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے آنے تک انسانی علوم وفنون، آرٹ اور فکر کا قافلہ جامد بن کر ایک منزل پر رکا ہوا تھا۔ یہ اسلام تھا جس نے اس فکرانسانی کے اس رکے ہوئے قافلے کو Push کیا۔ اس کو بتایا کہ کائنات اور اس کی اشیاء اس کے لیے مسخر کی گئی ہیں ، اس کو ان سے کام لینا ہے ، وہ اس کی عبادت وپوجا کا محل نہیں بلکہ ان کو اس کی تحقیق واکتشاف اور تفتیش کا محل بننا چاہیے ۔ اسلام نے انسان کو استخراجی اصول دیے۔ اس کو مشاہدہ سکھایا اور فکروتعقل کے میدان میں یہ اسلام کی اتنی بڑی دَین تھی کہ اس کے برابر کوئی دَین نہیں ہو سکتی ، چنانچہ اب جو انسان نے کائنات کو تسخیر کی نظر سے دیکھا، اس کی قوتوں کا مشاہدہ کیا۔ اپنے فکروتعقل کی قوتوں کو مہمیز کیا اس نے پوری دنیا میں اکتشاف واختراع کی ایک نئی دنیا آباد کر دی ۔
صدر اسلام کی ابتدائی چند صدیوں میں ہی عرب علماء وفضلاء نے صنعت وحرفت ، معاش و اقتصاد، کیمیا اور طبیعات ، جغرافیہ ، ہیئنت ، حساب ریاضی ، اقلیدس ، حکمت ، طب ، جراحت ، پیمائش، تاریخ ، اصول تاریخ وتمدن ، موسیقی ، آلات طرب، شعر و ادب ، بلاغت واصول صرف ونحو وغیرہ علوم وفنون کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا۔ اس وقت اسلامی دنیا میں دین و دنیا کی تفریق نہ ہوئی تھی اور سائنس و ریاضیات کو بھی ایک دینی علم کی حیثیت سے حاصل کیا جاتا تھا کیونکہ نمازوں کے اوقات کو جاننے کے لیے آلات پیمائیش وحساب کی ضرورت تھی تقویمیں بنانے کی ضرورت ایک دینی ضرورت تھی۔ اس وقت مسلمان دنیا سے آگے چلتے تھے پوری دنیا ان سے اپنا وقت معلوم کرتی تھی۔ اس وقت جتنی اہمیت ایک حدیث کے عالم کو یا تفسیر کے عالم کو دیجاتی تھی اتنی ہی ریاضی وحساب اور جغرافیہ وسائنس کے عالم کو دی جاتی تھی ۔ کیا یہ کوئی محض اتفاق تھا کہ امام ابوجعفرصادق کے شاگرد جہاں ایک طرف امام اعظم ابوحنیفہ ہیں وہیں جابر بن حیان جیساعظیم کیمیا داں بھی امام صادق کی مجالس کا حاضر باش ہے! اس دورمیں جہاں سیاسی مسائل اور انقلابات تمدن سے بے نیاز علماء و ادباء نے قرآن کے علوم کی ، حدیث کے علوم کی خدمت کی ، فقہ کے گیسو سنوارے ، ادب وشعر کی بزم آراستہ کیں وہیں ابن سینا، فارابی ، ابن مسکویہ ،جابر بن حیان ، موسیٰ رازی ، بتانی ، یعقوب بن اسحاق الکندی ، ابوعمروالجاحظ ، عباس بن فرناس ، ابوحنیفہ دینوری ، ابوالحسن المسعودی ، ابوبکرالمقدسی ، ابن بطوطہ ، محمدبن موسی دمیری ، ابن ماجد، البیرونی ، محمد الادریسی ، ابوالقاسم زہراوی ، ابن الیہثم ، ابن بیطار، ابن خلدون اور ابن رشد اور ان جیسے کتنے ہی اساطین علم وفکر ہیں جنہوں نے اسلامی جوش وجذبہ کے ساتھ علوم وفنون کی گرم بازاری کی اور ایک نئی سائنس کی دنیا آباد کر دی ان کے ترقی دیے گیے علوم وفنون میں علم طبیعیات ، معدنیات، ارضیات، علم زراعت ، طب و کیمیا بصریات وغیرہ ہیں۔ ان کی عربی کتابوں کے ترجمے بڑے پیمانے پر سولہویں صدی میں یوروپ پہنچے اور لاطینی میں ترجمہ ہوئے اس کے بعد فرنچ ، انگریزی و جرمن میں۔ جس زمانہ میں پیرس اور لندن چھوٹے چھوٹے شہر ہوا کرتے راتوں کو تاریک رہتے اس وقت قرطبہ ، قیروان، استنبول ، قاہرہ اور بغداد اور دہلی ملینوں انسانوں کے مسکن تھے ، جہاں شاہراہوں پر چراغاں رہتا جہاں الف لیلوی سماں چھایا رہتا ۔ جہاں کشادہ محلات ، مساجد کے بلند مینارے اونچی حویلیاں اور امراء کی ڈیوڑھیاں مرصع رہتیں۔ شہر کے بازاروں میں وہ چکا چوند ہوتی کہ لگتا کہ برقی قمقموں میں شہر نہایا ہوا ہے ۔ جہاں بیمار ستانات میں سیکنڑوں اطبا ء اور ان کے شاگرد مریضوں کی دیکھ بھال اور نئی دواؤں کی تحقیق اورتیاری میں لگے رہتے اور ایک نیا تمدن خلق کرتے رہتے۔یوروپ کے سمندروں میں عثمانی امیر البحر کے بیڑے مغربیوں کولرزاں و ترساں رکھتے ۔ عربی زبان پوری دنیا میں رائج تھی وہ وقت کی زندہ زبان تھی اور شاہ فرانس کے نمائندے ، کلیسائے اعظم کے سفیر اور مغرب کے بڑے بڑے علماء قرطبہ و اشبیلیہ اور طلیطلہ کی درسگاہوں سے عربی رسوم و آداب کے ساتھ علوم وفنون کو سیکھنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ اسی لیے مغربی اسکالر جارج سارٹن کہتا ہے کہ ’’گیارہویں صدی عیسوی میں علم و حکمت کا حقیقی ارتقا مسلمانوں کا رہین منت تھا‘‘۔
اس کے بعد یوروپ والوں نے مسلمانوں کی تحقیقات کو زاد راہ بنا کر اپنا سائنسی سفر شروع کیا اور دو صدیوں میں یعنی سولہویں اور سترہویں صدیوں میں وہ دنیا سے آگے نکل چکے تھے۔ اس عرصہ میں مسلمانوں میں شعوری یا غیرشعوری طور پر تجربہ و مشاہدہ کی قوتیں کمزور پڑ چکی تھیں۔ عجمی تصوف کی خرافات نے سب سے پہلے اسلام کی اسی بنیاد پر تیشہ چلایا جس کو قرآن نے قائم کیا تھا اور وہ تھا عقل سے کام لینا وحی سراسرغوروفکر اور تعقل وتدبر کی دعوت تھی ۔ وہ آزاد ئفکر کی دعوت تھی جبکہ مسلمانوں کی موجودہ بوسیدہ مذہبی فکر میں پہلا سبق ہی یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ ’’بڑے‘‘ جو کہ دیں اسی پر آمنا و صدقنا کہنا جزو ایمان ہے ۔ جس دین کو آسمانوں پر کمند ڈالنے والا بنایا گیا تھا اس کے حاملین غیر مقلدین، المروف وہابی کے جیسے جاہلی واہموں کے چکر میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ اب انہوں نے زندگی کے کار و زار سے کاٹ دینے والا نیا دین تخلیق کر لیا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے دین سے قطعی طورپر مختلف تھا۔
جن لوگوں نے اس صورت حال سے پیچھا چھڑانا چاہا ان کو بھی بے سروپا روایات کے جنگل سے نجات نہ مل سکی اور وہ اٹھے تھے فکر اسلامی کی تجدید کرنے مگر اس میں نئی نئی فرقہ بندیوں کے ظہورکا سبب بن گئے ۔ روایات کے طومار میں قرآن سے روشنی لینا ان کے لیے بھی ممکن نہ رہا انہوں نے بھی خود ساختہ قواعد اور جعلی تفسیری روایات کے طومار کو عملا قرآن پر حاکم بنا دیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ کہاں تو محمد بن عبداللہ کے متبعین کے ہاتھ میں دنیا کی کمان دی دی گئی تھی اور کہاں یہ ہوا کہ ان بے چاروں کے ہاتھ سے وقت کی لگام پھسلی جاتی تھی اور یہ پھر بھی دو ادارو کے لیے اسی ’’چنیا بیگم ‘‘ سے رجوع کرتے تھے جس کے سبب بیمار ہوئے تھے ۔ کہاں تو سولہویں صدی میں عثمانی ترک ویانا کا محاصرہ کرتے ہیں اورکہاں سو سال سے بھی کم مدت میں یوروپ وایشیا میں اپنے سارے مقبوضات کھو دیتے ہیں ۔ اورجب بھی کسی پُرعزم خلیفۂ وقت نے وقت کے دھارے کے ساتھ چلنے کی کوشش کی اپنی فوج کی نئی تنظیم کی نئے اسلحہ یورپ سے منگوائے فورا کسی شیخ الاسلام نے فتوی دیدیا کہ یہ غیر اسلامی حرکت ہے ۔ کسی عالمِ دین نے کہا کہ ٹیلی فون میں شیطان بولتا ہے ۔ کسی نے فتوی دیا کہ ٹرین میں یا ہوائی جہاز میں نماز نہ ہو گی کیونکہ سجدہ کی تعریف اس پر صادق نہیں آئے گی ۔
وقت کی طنابیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکی تھیں لیکن ان کے علماء اب بھی ان کو یہی باور کرائے جا رہے تھے کہ بہت جلد ایک آنے والا آئے گا ور سارے دلدر دور کر دے گا۔ ایک پر ایک سانحہ ہوتا گیا۔ ایشیا اور افریقہ کے ممالک ایک ایک کر کے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے وہ پھر بھی سراپا انتظار بیٹھے رہے۔ جب دشمن ان کے قلعوں پر بمباری کرتا اوران کے مورچوں کو توڑتا تو ان کے علما و فقہاء ختم بخاری کرتے ، ختم بخاری کا تیر بہدف فارمولا دیتے مگرکچھ نہیں ہوتا۔ جلد ہی وہ وقت آیا کہ سیکولر مغربی تہذیب پوری دنیا پر حاوی ہو گئی ۔ انٹرنیٹ اور دوسرے جدید ذرائع مواصلات سے نئی ثقافت کا جو طوفان اٹھا وہ سب کچھ بہا لے گیا۔ اور کل جس سائنس نے ہماری انگلیاں پکڑ کر چلنا سیکھا تھا آج اس صورت حال میں اتنا زبردست فرق واقع ہو گیا ہے کہ آج اسلام اورسائنس کو حریف سمجھاجارہاہے ۔آج تہذیب وتمدن کے قافلہ میں مسلمان سب سے پیچھے ہیں ۔کل وہ پوری انسانی علمی و فکری میراث کے وارث تھے آج وہ اپنی ہی وراثت سے گریزاں ہیں۔ آج ان کے واعظ اور مولوی ان کو عقل سے کام نہ لینے کا درس دیتے ہیں کہتے ہیں کہ دین میں عقل کا کیا کام ۔ کل مسلمانوں کے لیے دینی علم ایک اکتشافی علم تھا اور اس کے سہارے وہ کائنات پر کمند ڈالتے تھے۔ آج علم ان کے لیے تنخواہوں بھتوں اور اعلی مراتب کے حصول کا اور جھوٹی شہرت کا ذریعہ ہے۔ آج مسلمان یونیورسٹیاں، مسلم ممالک کے سائنس کے ادارے ، تحقیق و رسرچ کے ادارے ، مسلم اخبارات اور مسلم لیبل لگی ہوئی ہر چیز دنیا میں تھرڈ کلاس مانی جاتی ہے۔ عرب ممالک کے لوگوں کو یہ زعم ہے کہ اپنے پیٹرو ڈالر کے بل پر دنیا کے علم و فن کو خرید سکتے ہیں مگر نادان نہیں جانتے کہ علم وفن کے لیے پیسہ کی نہیں جگر کاوی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی ٹاپ درجہ کی یونیورسٹی مسلم ممالک میں موجود نہیں۔ جتنے سائنسداں ساری مسلم دنیا پیدا کرتی ہے اتنے تو صرف اکیلے چھوٹے سے اسرائیل کے اندر ہیں۔ خود اسلامیات کے شعبے میں مسلم ممالک کی جامعات کے شعبوں کی مجموعی کارکردگی پر مغرب کا صرف ایک مستشرق بھاری پڑ جات اہے۔ اس لیے کہ مستشرق کی اپنی تحقیق اور اپنی محنت ہوتی ہے اور ہماری جامعات کے پروفیسر ان اور اساتذہ اپنے رسرچ اسکالروں سے محنت کروا کر ان سے جبر و قہر مضامین لکھوا کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ مانگے کا یہ اجالا کیا خاک روشنی دے گا اور اس کا کیا علمی مقام ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرغطریف شہباز ندوی
سب ایڈیٹرافکار ملی
مصنف، مترجم اور ڈائرکٹر فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز
C-303/3 شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی ۲۵
No comments:
Post a Comment