مسلمانوں کے دورے ملوکیت کے بنو امیہ کے غلامانہ ادوار
جس طرح بعد کے ادوار میں بنی اسرائیل اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت پر قائم نہ رہ سکے بالکل اسی طرح مسلمان بھی اللہ تعالی کے احکامات پر پوری طرح عمل پیرا نہ رہ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ جب تک زندہ رہے، اس وقت تک مسلمان دین پر پوری طرح عمل پیرا رہے۔ صحابہ کرام کے آخری دور میں فتنوں کا آغاز ہوا۔ اس کی ابتدا اس طرح سے ہوئی کہ دین اسلام نے مسلمانوں کو شورائیت پر مبنی ایسا نظام
(Participative Government)
اختیار کرنے کا حکم دیا تھا جس میں حکومت مسلمانوں کے مشورے سے قائم ہو، مشورے سے اپنے کام سرانجام دے اور ان کے مشورے ہی سے ختم ہو۔
جب تک خلافت راشدہ قائم رہی، تمام حکومتی معاملات اسی طرح چلائے جاتے رہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی چونکہ ان کے اردگرد جلیل القدر صحابہ ہی تھے، اس وجہ سے شورائیت کی یہی اسپرٹ برقرار رہی۔ ان کے بعد حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے اور خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا گیا۔
بنو امیہ کے دور
(41 – 133H / 661 – 750CE)
میں غلامی
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کم و بیش دس سال کا عرصہ تو انارکی کا شکار ہو گیا۔ اس کے بعد بنو مروان نے ایک سخت گیر بادشاہت کا آغاز کیا جس میں حجاج بن یوسف جیسے ظالم گورنر کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا گیا۔ بعد کے ادوار میں بنو امیہ کے خاندان نے مسلمانوں کے بیت المال کو ذاتی جاگیر سمجھ کر خوب لوٹا اور اپنی دولت میں اضافہ بھی کرتے رہے۔
ان کے دور میں انسانی آزادیوں پر متعدد پابندیاں عائد کی گئیں اور خواتین کا استحصال کیا گیا۔ لونڈیوں کے ساتھ ساتھ مسلم معاشروں میں ایک اور طبقے "غلمان" کا اضافہ بھی ہوا۔ یہ خوبصورت نوخیز غلام لڑکوں کا طبقہ تھا جسے فروغ دینے میں حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان لڑکوں کو بھی جنسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔
جہاں تک انسانی آزادی اور آزادی اظہار رائے کا تعلق ہے تو امویوں نے اس پر قدغنیں لگانے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے زبانوں کو بند کرنے کے لئے شدید اقدامات کئے۔ یہ معاملہ ان لوگوں کے لئے سخت تھا جو حق بات کہنے اور آزادی کے قائل تھے۔ امویوں نے ان کی آزادی رائے کی خواہش کی پاداش میں انہیں سخت سزائیں دیں۔ جس شخص کو وہ کھلے عام نہیں روک سکتے تھے، اسے انہوں نے خفیہ طور پر قتل کروا دیا۔۔۔۔
اموی دور میں خواتین کے مزاج میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہو چکی تھی۔ عفت و غیرت کے تصور کو اس دور میں شدید دھچکا لگا جس کی وجوہات میں لونڈیوں اور غلمانوں کی کثرت، بادشاہوں میں دکھاوے اور فضول خرچی کا فروغ، اور موسیقی اور شراب کی کثرت تھی۔ شاعر لوگ عاشقانہ غزلیں کہنے لگے۔ شہروں میں مخنث کثرت سے پھیل گئے اور مردوں اور خواتین کے درمیان واسطے کا سبب بنے۔ لوگوں میں فساد پھیلتا چلا گیا، مردوں کی غیرت کمزور پڑتی چلی گئی اور لوگوں میں عفت و عصمت کم ہوتی چلی گئی۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ شاعر شاہی خاندان کی عورتوں کے بارے میں غزلیں کہنے لگے۔
شرفاء حج کے بعد خواتین کے ساتھ شعر و شاعری کی محفلوں میں شریک ہونے لگے۔ اس کی بھی پرواہ نہ رہی کہ ان میں بادشاہ کی بیٹی یا بیوی موجود ہے۔ ظاہری طور پر وہ یہ سب کچھ خواتین کی خوشنودی کے لئے کیا کرتے تھے کیونکہ عورتیں اس بات پر فخر کرتی تھیں کہ شاعر ان کے حسن و جمال کی تعریف کر رہے ہیں اگرچہ ان کے گھر والے اسے پسند نہ بھی کریں۔
عبدالملک بن مروان کی بیٹی نے حج کا ارادہ کیا تو بادشاہ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ ابن ابی ربیعہ (نامی شاعر) کہیں اس کے بارے میں عشقیہ غزل نہ کہہ دے۔ اس نے حجاج (بن یوسف) کو حکم لکھوایا کہ اگر وہ یہ کام کرے تو اسے ہر طرح کی سخت سزا دی جائے۔ جب اس کی بیٹی حج کر کے فارغ ہوئی اور واپسی کے لئے نکلی تو ایک شخص اس کے پاس آیا۔
شہزادی نے پوچھا
"تم کون ہو؟"
اس نے کہا
"مکہ کے رہنے والوں میں سے ایک۔"
وہ بولی
"تم پر اور تمہارے شہر والوں پر اللہ کی لعنت ہو۔"
اس نے پوچھا
"وہ کیوں؟"
وہ بولی، "میں حج کے لئے مکہ میں داخل ہوئی اور میرے ساتھ میری وہ لونڈیاں بھی تھیں جن کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھی ہوگی۔ فاسق (شاعر) ابن ابی ربیعہ کیا اتنی صلاحیت بھی نہ رکھتا تھا کہ وہ کچھ ایسے شعر کہہ دیتا جن سے ہم دوران سفر لطف اندوز ہی ہوتے۔"
وہ بولا
"میرے خیال میں وہ یہ کرنا چاہتا ہے۔"
وہ بولی
"اگر اس نے کچھ شعر کہے ہیں تو وہ ہمیں دے، ہر شعر کے بدلے اسے دس دینار ملیں گے۔"
اس نے جا کر ابن ابی ربیعہ کو یہ بات بتائی۔
وہ کہنے لگا
"میں نے یہ کر تو لیا ہے لیکن میری یہی خواہش ہے کہ یہ بات چھپا لی جائے کہ یہ شعر میرے ہیں۔"
اس کے بعد اس نے اس شہزادی کے بارے میں قصیدہ کہا۔
ایسا نہیں تھا کہ اس دور میں تمام کے تمام مسلمان ہی انحراف کا شکار ہو چکے تھے۔ ان میں جلیل القدر صحابہ و تابعین کی کمی نہ تھی جو انہیں اصل دین کی طرف لوٹنے اور نیکیاں کرنے کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔
سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ
(d. 32H / 653CE)
فرمایا کرتے تھے، "تمہیں کیا ہوا۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے علماء اٹھتے چلے جا رہے ہیں اور تمہارے غیر تعلیم یافتہ لوگ ان سے علم حاصل نہیں کرتے۔ ان سے سیکھ لو اس سے پہلے کہ علم ہی اٹھ جائے۔ علم علماء کی وفات کے ساتھ اٹھ جایا کرتا ہے۔ تمہیں کیا ہوا، میں دیکھتا ہوں کہ جتنا مال تمہاری کفالت کے لئے کافی ہے، تم اس سے زیادہ کا لالچ کرنے لگے ہو۔ تمہیں جس دولت (کو لوگوں تک پہنچانے) کا وسیلہ بنایا گیا ہے، تم اسے ضائع کرنے لگے ہو۔ میں تمہارے ان برے لوگوں کو جانتا ہوں جو گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ نماز کو آخری وقت میں ادا کرتے ہیں۔ قرآن کو سنتے ہیں تو اس پر توجہ نہیں دیتے اور اپنے غلاموں کو آزاد نہیں کرتے۔
یہ بنو امیہ کا دور ہی تھا جس میں کثیر تعداد میں آزاد کردہ غلام جلیل القدر علماء بن سکے۔ یہی مصلحانہ تحریک مسلمانوں میں زندہ رہی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہی بنو امیہ میں ایک صالح شخص سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمۃ کو جب حکومت حاصل ہوئی تو انہوں نے خلافت راشدہ کی یاد کو تازہ کر دیا۔ انہوں نے حکومت حاصل کرتے ہی جو اقدامات کئے ان میں سے یہ اقدام خاص طور پر قابل غور ہے:
و استخلف عمر بن عبد العزيز بن مروان بن الحكم أبو حفص بدير سمعان في اليوم الذي توفي فيه سليمان بن عبد الملك ، و أم عمر بن عبد العزيز أم عاصم بنت عاصم بن عمر بن الخطاب و اسمها ليلى ، فلما ولي عمر جمع وكلاءه و نساءه و جواريه فطلقهن و أعتقهن.
(سیرت ابن حبان)
سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد عمر بن عبدالعزیز بن مروان خلیفہ بنے۔ ان کی والدہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پوتی ام عاصم تھیں جن کا نام لیلی تھا۔ حکومت سنبھالتے ہی عمر نے (بنو امیہ کے) تمام نمائندوں، خواتین اور لونڈیوں کو جمع کیا۔ انہوں نے (زبردستی بیاہی گئی) خواتین کو طلاق دلوائی اور (شاہی خاندان کی) لونڈیوں کو آزاد کر دیا۔
افسوس کہ بنو امیہ نے اپنے اس جلیل القدر فرزند کو زندہ نہ رہنے دیا اور انہیں زہر دے کر شہید کر دیا۔ اس جرم کی پاداش میں بنو امیہ کا اقتدار زوال پذیر ہوتا چلا گیا۔ ہشام بن عبدالملک نے اپنی ذہانت سے اس اقتدار کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن اس کے نااہل جانشینوں نے سب کچھ گنوا دیا۔ بغاوتوں پر بغاوتیں اٹھنے لگیں۔ نیک اور صالح لوگوں نے باغیوں کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں بنو امیہ اقتدار سے بے دخل ہوئے اور بنو عباس ان کی جگہ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی دور میں بنو امیہ کے ایک لائق شخص عبدالرحمٰن نے اندلس میں اپنی حکومت قائم کر لی اور حسن انتظام سے اس کو سلطنت عباسیہ کا ہم پلہ بنا دیا۔ یہ دونوں حکومتیں کئی سو سال تک باقی رہیں۔
بنو امیہ اگرچہ ایک کرپٹ خاندان تھا لیکن اس میں نیک افراد کی کمی نہ تھی۔ اس میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ کئی اور لائق بادشاہ جیسے ولید اور ہشام پیدا ہوئے۔ بنو امیہ کا یہ دور خلافت راشدہ اور خالص ملوکیت کے درمیان ایک عبوری دور سمجھا جاتا ہے۔ بنو عباس اپنی ابتدا میں تو کسی حد تک درست رہے اور ان میں ہارون رشید جیسے نیک بادشاہ پیدا ہوئے لیکن اس کے بعد انہوں نے بدترین ملوکیت کو جنم دیا اور لوگوں کو یہ کہنا پڑا کہ اس سے تو بنو امیہ ہی بہتر تھے۔
خلفاء راشدین کے طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہم باآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر خلافت راشدہ کا یہ ادارہ مزید تیس چالیس سال تک قائم رہتا تو مسلم معاشرے کو غلامی سے مکمل چھٹکارا مل چکا ہوتا۔ افسوس ایسا نہ ہو سکا اور کاٹ کھانے والی جبری ملوکیت نے مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس ملوکیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ غلامی کے دم توڑتے ہوئے ادارے میں دوبارہ جان پڑ گئی۔
No comments:
Post a Comment