Wednesday, 29 May 2013

رجم

رجم

رجم ایک عربی اصطلاح ہے جس کے معنی پتھر پھینکنے
 (stoning)
 کے آتے ہیں اور اس اصطلاح سے مراد ایک ایسی سزا کی لی جاتی ہے کہ جس میں زنا کے مرتکب اشخاص کا دھڑ زمین میں گاڑ کر ان پر پتھر برسائے جائیں یہاں تک کے موت واقع ہوجائے۔ رجم کے بارے میں عورت اور مرد کا حکم برابر ہے۔ البتہ عورت کے کپڑے باندھ دیئے جائیں تاکہ وہ بے پردہ نہ ہو۔ قرآن میں زنا کی سزا سو کوڑوں کے بیان کے ساتھ یہ بھی ہدایت ہے یہ اس کاروائی کو مومنوں کی ایک جماعت کے سامنے کیا جائے۔ فرمان الٰہی ہے:-


آیت1  
 الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
ترجمہ: زانیہ اور زانی، کوڑے مارو ہر ایک کو ان دونوں میں، سوسو کوڑے اور نا دامن گیرہوتم کو ان کے سلسلہ میں ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں اگر رکھتے ہو تم ایمان اللہ پر اور روزِ آخرت پر اور چاہیے کہ مشاہدہ کرے ان کی سزا کا ایک گروہ مومنوں کا
[1]
اس جرم كے قبيح اور شنيع ہونے كى بنا پر ہى اسلام میں اس کی سخت سزا رکھی گئی ہے لیکن اس سخت سزا کے ساتھ ہی اس سزا کا اطلاق کرنے کے لیئے شرائط بھی انتہائی سخت ہیں۔ عام حالات میں دو مردوں یا ایک مرد دو عورتوں کی گواہی کے بجائے یہاں چار ایسے گواہ ہونا لازم ہیں کہ جنہوں نے اس جماع یا زنا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور ناصرف یہ بلکہ بیک وقت دیکھا ہو۔ قرآن ، حدیث ، گواہ اور سزا کی حکمت کے بارے میں مزید تفصیل مضمون کے متعدد قطعات میں درج ہے۔

فہرست 

بیان

قرآن میں زنا کی سزا

2.1 
رجم کا دفاع

احادیث میں زنا کی سزا

4
 انتقاد بر قرآن

4.1 
تجاوب بر انتقاد

4.1.1 
رجم کے اقراری

4.1.2 
رجم کے انکاری

5
 احصان كى کی شرائط

حوالہ جات

بیان

رجم کا ذکر احادیث میں آتا ہے لیکن قرآن میں زنا کی سزا کے طور پر اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس سزا کی موجودگی قرآن سے مثبوت نہیں ہے؛ مزید یہ کہ کم از کم چار صالح اور مقتدر گواہ ایسے ہونا لازم ہیں کہ جو اس واقعہ کا مفصل اور آنکھوں دیکھا حال بیان کر کے اس کی شہادت دے سکتے ہوں؛ یعنی ان گواہوں نے متعلقہ افراد کو زنا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو (اور زنا کی تعریف کے مطابق مرد کے قضیب 
(penis)
 کا عورت کے مہبل 
(vagina)
 میں ادخال لازم ہے، گویا گواہوں کا اس ادخال کو دیکھنا رجم کی گواہی کی شرط بنتا ہے) اور اگر ان میں سے کسی کی بھی گواہی غلط ثابت ہوتی ہو تو ان گواہوں پر خود سخت سزا لازم ہوتی ہے۔ رجم پر آج بھی مسلم دنیا میں متنازع افکار پائے جاتے ہیں جبکہ غیرمسلم دنیا میں مسلم علماء کی جانب سے بھی رجم کی سزا کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی کوئی فرد رجم کی سزا دینے کا مستحق قرار دیا جاتا ہے
[2]
 پتھروں سے مارنے کے عمل (رجم) کا ذکر ناصرف اسلامی ، بلکہ قدیم یونانی ، یہودی اور عیسائی دستاویزات میں بھی ملتا ہے۔

قرآن میں زنا کی سزا 

زنا کی اصطلاح میں محصن (شادی شدہ زانی یا زانیہ) اور غیرشادی شدہ زانی یا زانیہ دونوں ہی شامل ہیں اور زنا کے بارے میں قرآن کی سورت النور کی ابتدائی آیات نہایت واضح ہیں ، جن میں سے آیت 2 ابتدائیہ میں درج ہے ، کہ زنا کی سزا سو کوڑوں کی شکل میں بیان ہوئی ہے

آیت 
 الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ
ترجمہ: زانیہ اور زانی، کوڑے مارو ہر ایک کو ان دونوں میں، سو سو کوڑے
[3]
مسلم محققین میں زنا کی سزا رجم کے بارے میں یہ افکار بھی ملتے ہیں کہ شریعت (یعنی قرآن اور سنت) میں قرآن کا درجہ اول ہے اور اگر کوئی بات ان میں متصادم ہو تو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے
[4]
 مسلمانوں کا ایمان ہے اور قرآن میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ قرآن کے الفاظ کامل ہیں اور ان میں ترمیم ممکن نہیں اور یہ کہ قرآن مکمل طور پر اس حالت میں ہے جیسا کہ حضرت محمد پر نازل ہوا تھا ، نا تو اس میں کوئی اضافہ ہوا ہے نا کوئی کمی اور نا ایسا کیا جانا ممکن ہے

آیت 3 
  وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
ترجمہ: اور کامل ہے بات تیرے رب کی سچائی اور انصاف کے اعتبار سے۔
نہیں کوئی بدلنے والا اس بات کو اور وہی ہے سب کچھ سننے والا، ہر بات جاننے والا
[5]

سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ سے ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ
حدیث 1
 لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا
رجم کی آیت اور دس بار چھاتی چوسنے کی آیت نازل ہوئی تھی اور صحیفہ پر میرے بستر کے نیچے رکھی تھیں پھر جب رسول اللہ کی وفات ہوئی اور ہم صدمے میں تھے تب ایک گھریلو جانور اسے کھا گیا
 [6]
مسلم محققین اس بات کی وضاحت نسخ (قرآن) کے نظریئے سے کرتے ہیں اور ان کے مطابق نسخ تین اقسام کی ہوسکتی ہے اول؛ آیت اور اس کی ہدایت دونوں کی منسوخی۔ دوم؛ آیت کی منسوخی پر اس کی ہدایت کی بقا۔ سوم؛ آیت باقی پر اس کی ہدایت کی منسوخی
[7]
؛ کہا جاتا ہے کہ چونکہ قرآن ناصرف متعدد افراد کے پاس نقل (صحیفوں کی شکل) میں تھا اور حفظ بھی تھا اور رجم کی آیت کی منسوخی کے بعد کیونکہ یہ حضرت عائشہ کے صحیفے میں لکھا ہوا رہ گیا تھا اور اسی وجہ سے حضرت عثمان یا حضرت ابوبکر کے صحیفوں میں نہیں ملتا اور اسی وجہ سے موجودہ قرآن میں شامل نہیں۔ قرآن میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے

آیت 4
 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
بے شک ہم نے ہی نازل کی ہے یہ کتابِ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں 
[8]

بین المذاہب کی سطح پر قرآن میں سے کسی آیت کا غائب ہو جانا یا نسخ ہو جانا غیرمسلموں کے سامنے قرآن کی حفاظت اور استحکام کے دعووں کو متزلزل کر دیتا ہے اور اس بات کو نہایت تمسخر اور مضحکہ خیز بنا کر بھی پیش کیا جاتا ہے
[9]
۔ نا صرف بین المذاہب بلکہ خود اسلام کے ایک بڑے فرقے شیعہ کی جانب سے بھی حضرت عمر کی جانب منسوب صحیح بخاری کی آیت رجم کے بارے میں حدیث کو درون المذہب بنیادوں پر بھی زیر بحث لایا جاتا ہے
 [10]
  نہایت عجیب صورتحال تب دیکھنے میں آتی ہے کہ پھر بعض سنیوں کی جانب سے شیعاؤں پر غیرمسلم ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جیسے دیوبندی وغیرہ
[11]

رجم کا دفاع
شریعت کی رو سے رجم کا دفاع کرنے والے مسلم محققین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رسول اللہ کی جانب سے کیئے جانے والے اعمال بھی وحی کا حصہ ہوتے ہیں؛ اور اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت عموماً بیان کی جاتی ہے

آیت 5: ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاء الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اس کے بعد اے نبی قائم کیا ہے ہم نے تمہیں شریعت پر دینی معاملہ میں۔
سو تم اسی پر چلو اور نا اتباع کرو ان لوگوں کی خواہشات کا جو علم نہیں رکھتے 
[12]
اس آیت کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ نے شریعت کو نازل شدہ (وحی یا الہام) قرار دیا ہے
 [13]
؛ شریعت کی فقہی تعریف کے مطابق شریعت قرآن اور سنت سے مل کر بنتی ہے اور صرف سنت (حدیث سے تفریق ضروری ہے) کو شریعت نہیں کہا جا سکتا۔

احادیث میں زنا کی سزا

غالباً سب سے مشہور حدیث جو کہ صحیح بخاری سے رجم کا دفاع کرنے والے مسلم محققین پیش کرتے ہیں وہ کچھ یوں بیان ہوئی ہے

حدیث 2 
 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ الْيَهُودَ، جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلاً مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ ‏"‏‏.‏ فَقَالُوا نَفْضَحُهُمْ وَيُجْلَدُونَ‏.‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ‏.‏ فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَا، فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، فَقَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا‏.‏ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ ارْفَعْ يَدَكَ‏.‏ فَرَفَعَ يَدَهُ فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ‏.‏ فَقَالُوا صَدَقَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ‏.‏ فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَرُجِمَا‏.‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ‏
[14]
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر نے کہ یہود، رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ ان کے یہاں ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا، رجم کے بارے میں تورات میں کیا حکم ہے؟ وہ بولے یہ کہ ہم انہیں رسوا کریں اور انہیں کوڑے لگائے جائیں۔ اس پر عبداللہ بن سلام نے کہا کہ تم لوگ جھوٹے ہو۔ تورات میں رجم کا حکم موجود ہے۔ تورات لاؤ۔ پھر یہودی تورات لائے اور اسے کھولا۔ لیکن رجم سے متعلق جو آیت تھی اسے ایک یہودی نے اپنے ہاتھ سے چھپا لیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ اب وہ سب کہنے لگے کہ اے محمد! عبداللہ بن سلام نے سچ کہا بے شک تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ چناچہ رسول اللہ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ میں نے رجم کے وقت دیکھا، یہودی مرد اس عورت پر جھکا پڑتا تھا، اس کو پتھروں کی مار سے بچانا چاہتا تھا
[15]

محصن یعنی شادى شدہ زانى (صرف نكاح چاہے اس سے خلوت بھى ہوئى ہو سے محصن نہيں ہو جائيگا، اس ميں فقھاء كرام كا كوئى اختلاف نہيں، بلكہ وطئ اور مجامعت ضرورى ہے، يعنى نكاح كے بعد اگر مجامعت كرنے كے بعد كوئى زنا كرے تو وہ محصن كہلائيگا) کی سزا رجم کے بارے میں مسلم شريف كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے

 حدیث 3   
عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، اللہ سبحانہ و تعالى نے ان عورتوں كے ليے راہ نكال دى ہے، كنوارہ كنوارى ( سے زنا كرے تو ) اسے سو كوڑے اور ايك برس تك جلاوطن كيا جائيگا، اور شادى شدہ شادى شدہ عورت ( كے ساتھ زنا كرے ) تو سو كوڑے اور رجم ہو گا
[16]

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں؛ اہل علم كا اجماع ہے كہ رجم صرف محصن شادى شدہ كو ہى كيا جائيگا۔ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے؛ کسی بھى مسلمان شخص كا خون بہانا جائز نہيں، مگر تين اسباب ميں سے ايك كى بنا پر يا پھر وہ شادى شدہ ہونے كے بعد زنا كرے

صحیح بخاری میں حضرت عمر کی جانب سے رجم کی آیت (دیکھیے قطعہ بعنوان انتقاد بر قرآن) کی موجودگی کے بارے میں دو احادیث درج ہیں جو کتاب المحاربین میں بیان ہوئی ہیں۔

 حدیث 4
 حضرت عمر نے کہا میں ڈرتا ہوں کہ کہیں زیادہ وقت گزر جائے اور لوگ یہ کہنے لگیں کہ کتاب اللہ سے رجم نہیں ہے اور وہ اس فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں جسے اللہ نے نازل کیا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ رجم کا حکم اس شخص پر فرض ہے جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا اگر صحیح شرعی گواہیوں سے ثابت ہو یا حمل ہو یا خود اقرار کرے
 [17]

دوسری حدیث حضرت عمر کے آخری حج کے قریب زمانے سے آتی ہے اور یہ بالائی حدیث سے مفصل واقعہ بیان کرتی ہے؛ حدیث طویل ہے جسے اصل ربط پر جا کر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

حدیث 5  یا امیر المومنین کیا آپ فلاں سے تفتیش کریں گے کہ جو کہے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا کیونکہ ابو بکر کی بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر مکمل ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ (بیان جاری: حضرت عمر نے لوگوں سے خطاب کر کہ انہیں ڈرانے کا کہا جس پر حضرت عوف نے ایسا نا کرنے کا مشورہ دیا کہ حج پر کم سمجھ لوگ بھی جمع ہیں اور حضرت عمر کی بات (اپنی سمجھ کے مطابق) غلط انداز میں پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں؛ حضرت عمر نے خطبہ میں انتباہ دیا کہ جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی تو اس کے لیئے مجھ سے غلط بات منسوب کرنا جائز نہیں ہے) ۔۔۔۔۔۔۔ 

کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ بھی آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد کیا تھا۔ رسول اللہ نے خود رجم کرایا، پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یونہی بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ دعویٰ نا کر دے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں جسے اللہ نے نازل کیا تھا [17]۔

انتقاد بر قرآن 

 سانچہ میں معلومات درست طور پر نہیں درج کی گئی ہے 
(دستاویز ملاحظہ فرمائیں)
 : معلومہ 1 (اول) لازمی ہے۔
انتقاد بر قرآن اور انتقاد بر اسلام

قرآن سے رجم کی آیت کے غائب ہو جانے والی بات کہنا کوئی معمولی بات ہرگز نہیں کہی جاسکتی اور نا ہی قرآن کے ناقابل تحریف ہونے اور کامل کلام الٰہی پر جوں کا توں بلا کسی اضافہ یا کمی کے موجود ہونے پر غیر متزلزل ایمان کی اسلامی شرط کے ساتھ اس قسم کی بات کی تشریح نسخ (قرآن) کی دلیل یا تاویل میں ہو سکتی ہے
[18]

 رجم کا دفاع کرنے والے مسلم محققین تو ہر صورت یہ بات ثابت کرنے پر ضرور دیتے ہوئے نظر آتے ہی ہیں کہ رجم کی آیت نازل ہوئی تھی اور اس سلسلے میں جلیل القدر صحابہ اکرام (حضرت عائشہ و حضرت عمر فاروق اور دیگر) سے منسوب احادیث بھی پیش کرتے ہیں؛ لیکن یہ شاید واحد نہیں تو ان چند نایاب مواقع میں سے ایک موقع ہے کہ جب اسلام پر تنقید کرنے والے غیر مسلم اس آیت کے قرآن سے غائب ہوجانے والی بات کے حق میں (رجم کی آیت کے نزول کا دفاع کرنے والے) مسلم علماء کے مکمل ساتھ نظر آتے ہیں۔ یہ مسلم علماء نسخ کی وجود کو ثابت کرنے کے لیئے خود قرآن کی ایک آیت پیش کرتے ہیں

آیت 6 
 مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
نہیں منسوخ کرتے ہیں ہم کسی آیت کو یا بُھلا دیتے ہیں کسی آیت کو تو عطا کرتے ہیں بہتر اس سے یا ویسی ہی۔ کیا نہیں جانتے تم کہ بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
[19]

مسلم محققین کے مطابق مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے فرمان میں سے کسی آیت کو بھلا (نسخ) کرسکتا ہے اور اس سے بہتر ہدایت نازل کرتا ہے جو نسخ کی گئی ہو۔ اب یہاں منطقی طور پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آخر وہ نسخ ہونے والی آیت تھی کیا ؟ کہ جس کو منسوخ کیا گیا۔ جب حضرت عمر کے بارے میں حدیث منسوب ہے کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس آیت کی تلاوت کیا کرتے تھے تو ظاہر ہے کہ اس آیت کے الفاظ کو تلاش کیا جانا بھی اہم ہے۔ موطاء امام مالک میں اس منسوخ شدہ آیت کے بارے میں آتا ہے

الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ
شیخ اور شیخہ (یعنی بڑی عمر کا مرد اور عورت) اگر زنا کرے تو انہیں رجم کرو
[20]

غیرمسلموں کی جانب سے متعدد سوالات اس بارے میں اٹھائے جاتے ہیں
[21]

اول تو یہ کہ اگر نسخ کی آیت کو تسلیم کیا جائے تو پھر اس منسوخ شدہ آیت کے بدلے میں کونسی بہتر (یا ویسی ہی) آیت نازل ہوئی؟

 دوم یہ کہ آیا یہ آیت منسوخ ہونے کے بعد کوڑوں کی سزا کی آیت نازل ہوئی؟ ظاہر ہے کہ ایسا ثابت ہوتا ہے تو پھر اس کوڑوں کی آیت کو جو رجم کی مذکورہ بالا آیت کے بعد آئی ، قرآن کی رو سے بہتر تسلیم کیا جائے گا۔ پھر اس آیت میں شیخ یا شیخیہ کی قید یا غیرشادی شدہ یا نوجوان کے ذکر کے بغیر محض زنا کا لفظ کیوں استعمال ہوا؟ 

قطعہ بنام احادیث میں زنا کی سزا میں یہودیوں سے متعلق جو حدیث صحیح بخاری کی درج ہے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں یہودیوں نے تنسیخ و ترامیم نہیں کیں اور وہ حضرت محمد کے زمانے میں بھی رجم کی آیات رکھتی تھی جبکہ قرآن میں وہ آیت نہیں جو رجم کے بارے میں نازل ہوئی تھی؛ تو پھر ترمیم کس کتاب میں ثابت ہوئی؟ تورات یا قرآن؟
[22]

 رجم سے متعلقہ (حاضر و غائب) دونوں آیات میں (اگر بالفرض آیت منسوخہ کے الفاظ کو درست تسلیم کر لیا جائے تب بھی) میں ہی شادی شدہ (محصن) و غیرشادی شدہ (عفیف) کی کسی قسم کی تفریق نہیں پائی جاتی کیونکہ حاضر سورت النور کی آیت 2 میں الفاظ زانی اور زانیہ کے ہیں

[1]
 اور غائب نسخ شدہ آیت میں الفاظ بمطابق موطاء امام مالک کے شیخ اور شیخیہ کے ہیں
[20] 

رجم سے متعلقہ (حاضر و غائب) دونوں آیات (اگر بالفرض آیت منسوخہ کے الفاظ کو درست تسلیم کر لیا جائے تب بھی) ان میں شادی شدہ (محصن) و غیرشادی شدہ (عفیف) کی کسی قسم کی تفریق نہیں پائی جاتی کیونکہ حاضر سورت النور کی آیت 2 میں الفاظ زانی اور زانیہ کے ہیں

 [1]
 اور غائب نسخ شدہ آیت میں الفاظ بمطابق موطاء امام مالک کے شیخ اور شیخہ کے ہیں
 [20]

 شیخ اور شیخہ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ بات محصن یا عفیف (کنوارے پن) کی ہو رہی ہے کیونکہ بڑی عمر کے افراد (شیخ اور شیخہ) بھی غیر شادی شدہ ہو سکتے ہیں۔

تجاوب بر انتقاد
مسلم علماء اور محققین پر قرآن کی حفاظت پر اٹھائے جانے والے سوالات کا معاملہ اس قدر نازک ہے کہ اس پر رجم کا دفاع اور رجم کا انکار کرنے والے دونوں افکار رکھنے والے گروہوں کی جانب سے نہایت دقیق تجاوب پیش کیا جاتا ہے۔

رجم کے اقراری 
وہ مسلم محققین جو کہ رجم کا دفاع کرتے ہیں ان کی جانب سے پیش کیا جانے والا تجاوب بنیادی طور پر قرآن میں نسخ کے نظریے پر قائم کیا جاتا ہے
[23]

 جس کی تین اقسام بتائی جاتی ہیں (دیکھیے قرآن میں زنا کی سزا) اور ان تین اقسام کے نسخ میں سے رجم کی آیت ، قسم دوم میں شمار کی جاتی ہے اور اپنی اس بات کی دلیل کے لیئے نسخ سے متعلق قرآن کی مذکورہ بالا آیت (البقرہ آیت 106 / مضمون آیت 6) پیش کی جاتی ہے
[19]

 اس موقف پر اٹھنے والے چند بنیادی سوالات کا ذکر مذکورہ بالا قطعے (انتقاد بر قرآن) میں کیا گیا ہے اور یہاں انہیں عددی شکل میں درج کی جارہا ہے؛ جن میں سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ نسخ ہونے والی آیت کے بدل میں (البقرہ آیت 106 کی رو سے) کونسی آیت نازل ہوئی؟

غیرمسلموں کی جانب سے متعدد سوالات اس بارے میں اٹھائے جاتے ہیں
 [21]

اول تو یہ کہ اگر نسخ کی آیت کو تسلیم کیا جائے تو پھر اس منسوخ شدہ آیت کے بدلے میں کونسی بہتر (یا ویسی ہی) آیت نازل ہوئی؟

دوم یہ کہ آیا یہ آیت منسوخ ہونے کے بعد کوڑوں کی سزا کی آیت نازل ہوئی؟ (اگر ایسا ہے تو پھر اس کوڑوں کی آیت کو جو رجم کی مذکورہ بالا آیت کے بعد آئی ، قرآن کی رو سے بہتر تسلیم کیا جائے گا)۔

پھر اس آیت 1 میں شیخ یا شیخہ کی قید یا غیرشادی شدہ یا نوجوان کے ذکر کے بغیر محض زنا کا لفظ کیوں استعمال ہوا؟

قطعہ بعنوان احادیث میں زنا کی سزا میں یہودیوں سے متعلق جو حدیث (2) صحیح بخاری کی درج ہے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں یہودیوں نے تنسیخ و ترامیم نہیں کیں اور وہ حضرت محمد کے زمانے میں بھی رجم کی آیات رکھتی تھی جبکہ قرآن میں وہ آیت نہیں جو رجم کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟

ترمیم کس کتاب میں ظاہر ہوئی؟ تورات یا قرآن؟
[22] 

رجم کے انکاری 
رجم کی سزا قرآن سے ثابت ہونے کا انکار کرنے والے مسلم محققین اپنی دلیل میں یوں بیان کرتے ہیں کہ صحیح بخاری میں حضرت عمر کی جانب سے رجم کی آیت کی موجودگی کے بارے میں جو دو احادیث (قطعہ بعنوان احادیث میں زنا کی سزا حدیث 4 اور 5) درج ہیں تو پھر اس آیت کی قرآن میں غیرموجودگی کی کوئی وجہ نہیں بنتی؛ دوسری حدیث (عدد 5) میں حضرت عمر کے آخری حج کے قریب زمانے کا ذکر بھی آتا ہے اور یہ حدیث 4 سے مفصل واقعہ بیان کرتی ہے جبکہ اس موقع پر بات کو غلط انداز میں پھیلانے والے افراد کی موجودگی بھی اسی حدیث میں بیان ہوئی ہے جس کا تذکرہ اس حدیث کی ابتدائی عبارت میں موجود ہے۔ رجم سے انکاری مسلم محققین کہتے ہیں کہ دونوں احادیث میں ایسے فرد کی بات ہوئی ہے جو کہ سنگساری سے انکار کرے گا اور دونوں احادیث میں اُس (حضرت عمر کے) زمانے کی نہیں بلکہ آئندہ زیادہ وقت گذر جانے والے زمانے کی بات ہوئی ہے گویا احادیث کے فحاشی (زنا) کے بارے میں تنازع نمودار ہونے کے وقت میں نمودار ہونے کا امکان قوی ہے اور ان احادیث کا مقصد سنگساری کے خلاف ایک سخت موقف پیدا کرنا معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلی حدیث میں آیت نازل ہونے اس کی تلاوت کیئے جانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ صرف آیت کے قرآن میں نا ہونے کا ذکر ہے۔ مزید تحقیق کی جائے تو بعد میں ایک عبارت ایسی بھی مل جاتی ہے کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نسخ شدہ آیت رجم تھی 
(قطعہ بعنوان انتقاد بر قرآن)

 اور پھر اس کے بعد اب ایک کام رہ جاتا تھا کہ اس آیت کو قرآن میں شامل کر دیا جائے؛ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نا ممکن تھا (اور ہے) کہ اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالٰی نے لیا ہے 
(قطعہ بعنوان قرآن میں زنا کی سزا ؛ آیت 4) 

مزید یہ کہ لوگوں کے لیۓ بے حیائی کو روکنے کی خاطر اس قسم کی سخت سزا کے بارے میں پھیلائی جانی والی نسخ کی باتوں کو برداشت کرنا تو ممکن تھا لیکن براہ راست قرآن میں اس اضافہ کو کوئی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا رجم کے انکاری گروہ کے مطابق گو ایسا مقام آگیا کہ ان احادیث کو رد کرنا ممکن نا رہا (یا انہیں قبولیت حاصل ہوگئی) اور انہوں نے مستند کتب میں جگہ بنا لی پھر ان کی تاویل کے لیئے قرآن میں نسخ کا نظریہ استعمال ہونے لگا اور اس کی تاویل خود قرآن سے نکالنے کی کوشش کی جانے لگی
(رجوع مضمون آیت 6)

 اور کہا کیا کہ یہ نسخ تلاوت ہے نا کہ نسخ عمل 
(رجوع قطعہ بعنوان قرآن میں زنا کی سزا ؛ نسخ کی قسم دوم)
[24]

احصان كى کی شرائط

احصان شادی شدہ زانی کو کہتے ہیں جس کے لئے رجم کی سزا مخصوص کی گئی ہے۔ احصان ہونے کی سات شرائط ہیں۔

1
عورت كى شرمگاہ ( قبل ) ميں وطئ كرنا

اس شرط ميں كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے
" غیر شادى شادہ اور شادى شدہ كے بدلے سو كوڑے اور رجم ہے "

اور ثيابۃ : يعنى شادى شدہ ہونا قبل ميں وطئ سے حاصل ہوتا ہے، اس ليے اسا كا معتبر ہونا ضرورى ہے، اور اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ جماع كے بغير نكاح سے محصن ہونا ثابت نہيں ہوتا، چاہے اس ميں خلوت بھى ہوئى ہو، يا قبل كے بغير وطئ ہوئى ہو يا دبر ميں وطئى ہوئى ہو يا پھر كچھ نہ ہوا ہو تو اسے محصن نہيں كہا جائيگا؛ كيونكہ اس سے عورت ثيب نہيں ہوتى، اور نہ ہى وہ كنوارہ پن سے خارج ہوتى ہے، جن كى حد سو كوڑے اور ايك برس جلاوطنى ہے، اس ليے كہ حديث ميں يہى وارد ہے

اور وطئ ميں يہ ضرورى ہے كہ حشوہ يعنى عضو تناسل كا اگلا حصہ عورت كى شرمگاہ ميں غائب اور داخل ہو؛ كيونكہ يہ وطئ كى حد ہے جس كے ساتھ وطئ كے احكام كا تعلق ہے

2
وہ نكاح ميں ہو؛ كيونكہ نكاح كو احصان كا نام ديا جاتا ہے؛ اہل علم ميں كوئى اختلاف نہيں كہ زنا اور وطئ شبہ سے وطئ كرنے والا محصن يعنى شادى شدہ شمار ہو، اور نہ ہى ہمارے علم ميں ہے كہ لونڈى سےوطئ كرنے والا شادى شدہ كہلاتا ہو، اس كے متعلق كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ يہ نكاح نہيں، اور نہ ہى اس سے نكاح كے احكام ثابت ہوتے ہيں


وہ نكاح صحيح ہو، تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو‘ بلکہ نکاح کے بعد خلوت صحیحہ بھی ہوچکی ہو صرف عقد نکاح کسی فرد کو محصن یا عورت کومحصنہ نہیں بنا دیتا کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں ان کو رجم کیا جائے‘ اس شرط پر بھی اکثر فقہاء متفق ہیں‘ مگر امام ابو حنیفہ اور امام محمد اس میں اتنا اضافہ کرتے ہیں کہ مرد یا عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا جبکہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد‘ بالغ اور عاقل ہوں‘ اس مزید شرط سے جو فرق پڑتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اگر مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہوا ہو جو لونڈی ‘ نابالغ یا مجنون ہو‘ تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستر بھی ہوچکا ہو‘ پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہوگا‘ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے کہ اگر اس کو اپنے نابالغ ‘ مجنون یا غلام شوہر سے مباشرت کا موقع مل بھی چکا ہو‘ پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہوگی۔

4
 آزادى ہو، ابو ثور رحمہ اللہ كےعلاوہ باقى سب اہل علم كے ہاں يہ شرط پائى جاتى ہے

5
 بالغ ہو

6
عاقل ہو، اگر بچے اور مجنون نے وطئ كر لى اور پھر بالغ يا عقلمند ہو گيا تو وہ محصن شمارنہيں ہو گا، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے، اور امام شافعى كا مسلك بھى يہى ہے

7
وطئ كحالت ميں ان دونوں ميں كمال پايا جائے، وہ اسطرح كہ عقلمند اور آزاد مرد عقلمند اور آزاد عورت سے وطئ كرے، امام ابو حنيفہ اور ان كے اصحاب كا قول يہى ہے

اور امام مالك كہتے ہيں: اگر ان دونوں ميں سے ايك كامل ہو تو وہ محصن ہو گا، ليكن بچہ نہيں جب وہ كسى بڑى عورت سے وطئ كرے تو وہ اسے محصن نہيں كريگا
 [25]

حوالہ جات

^
 1.0 1.1 1.2
 قرآن؛ سورۃ النور 24 آیت 2 اردو ترجمہ کا مآخذ موقع

^
 دارالافتاء کی جانب سے رجم پر ایک فتویٰ

^
 قرآن؛ سورۃ النور 24 آیت 2

Khalid Zaheer: About the verse of stoning
 روئے خط موقع

^
 قرآن؛ سورت الانعام (6) آیت 115 اردو ترجمہ کا مآخذ موقع

^
 سنن ابن ماجہ حدیث 2020 عربی موقع

^
 رجم اور نسخ کا بیان انگریزی موقع

^
 قرآن: سورت الحجر (15) آیت 9

^
 Atheism Vs Christianity Forum
 پر قرآن اور رجم پر گفتگو

^
 Answering Ansar
 ایک شیعہ موقع پر رجم کی گفتگو اور قرآن کی حیثیت پر مضمون


Creed of the shia; explained
 پیڈی ایف ملف 
(انگریزی)


^
 قرآن سورت الجاثیہ (45) آیت 18

^
 Who ordered rajm? The Majlis.net
 روئے خط موقع

^
 صحیح بخاری: کتاب؛ المناقب باب؛ قول اللہ تعالی حدیث؛ 3678 عربی متن

^
 محمد بن اسماعیل بخاری (اردو ترجمہ: مولانا محمد داؤد راز)، صحیح بخاری، مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند 2004

^
 صحیح مسلم حديث نمبر
( 1690 )

^
 17.0 17.1
 صحیح بخاری: کتاب المحاربین حدیث 6917 اور 6918 عربی موقع

^ قرآن میں نسخ کے بارے میں ایک فتویٰ روئے خط موقع

^
 19.0 19.1
 قرآن: سورت البقرہ آیت 106

^
 20.0 20.1 20.2 
موطاء امام مالک 1512 عربی موقع

^
 21.0 21.1
 Collection of the Quran
 روئے خط موقع

^
 22.0 22.1
 Islam and Stoning
 روئے خط موقع

^
 دارالافتاء کی جانب سے نسخ پر ایک فتویٰ روئے خط ربط


The preservation of the noble Quran
 روئے خط مضمون

^
 المغنى ابن قدامہ ( 9 / 41 ) اور مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 2 / 224 ) بھى ديكھيں

زمرہ جات: سانچہ کے غلط استعمال والے صفحات اسلام متعلقہ نزاعات


No comments:

Post a Comment